جشن نکاح یا جشن اسراف ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-16

جشن نکاح یا جشن اسراف ؟

siasat-jashn-e-nikah
یہ قول زبان زد عام ہے کہ شہر حیدرآباد کے مقبول عام اور قدیم ترین اردو روزنامہ "سیاست" کے مدیر اعلیٰ ایک نہایت سیدھے سادھےآدمی ہیں۔ موصوف محترم قوم کیلئے بے شمار فلاحی کام کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں۔ شاید ہی کسی کو ان سے کوئی شکایت رہی ہو (الا یہ کہ معاملہ کسی سیاسی رقابت کا ہو)۔ مگر ان استحصالی قوتوں سے سوال ضرور کیا جانا چاہیے جو مدیر محترم کی سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں کسی ایسی راہ پر دھکیل دیتے ہیں جو حقیقتاً ان کے شایان شان نہیں۔
اس کی ایک مثال ادارہ سیاست کی جانب سے حالیہ دنوں میں شروع کی گئی سہ روزہ نمائش "جشنِ نکاح" ہے۔ پہلے اسی نمائش کی خبر "سیاست نیوز" ہی کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں :
شہر میں ہونے والی تقاریب میں شادی کی تقاریب انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی جارہی ہیں ۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے شادی کی خریداری میں رہنمائی کیلئے کیاپشنس اور ٹی ایم سی کی جانب سے 12 ، 13 اور 14 ستمبر کو سٹی کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے جارہے جشن نکاح کے سلسلے میں تجارتی برادری کے علاوہ عوام میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔ جشن نکاح کے عنوان سے منعقد ہونے والے اس سہ روزہ نمائش کے دوران زیورات جوکہ شادی کا اہم جز تصور کئے جاتے ہیں اُن کی بھی خصوصی اسٹال اس میں موجود رہے گی ۔ علاوہ ازیں دیگر خریداری جو شادی سے جڑی تقاریب سے منسلک ہے اُن کے بھی تمام اسٹالس اس نمائش کے دوران موجود رہیں گے ۔

سٹی کنونشن سنٹر جیسے وسیع و عریض مرکزی مقام پر منعقد ہونے والی اس نمائش کا مقصد شادی بیاہ کی تقاریب سے جڑی اشیاء کی خریداری کے متعلق عوام میں نہ صرف شعور بیدار کرنا ہے بلکہ اُن کی مناسب رہنمائی کے ذریعہ اُنھیں فائدہ بخش خریداری کی طرف راغب کرنا ہے ۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ شادی بیاہ کی تقاریب کے سلسلے میں کی جانے والی خریداری کے دوران اس بات کا خیال نہیں رہتا کہ بعض اشیاء جو سستے داموں پر دستیاب ہوسکتی ہیں وہ کافی اضافی قیمت ادا کرتے ہوئے خریدی جارہی ہیں۔ اس رجحان کو توڑتے ہوئے عوام کے پیسے کی بچت کے ساتھ ساتھ اُنھیں مناسب خریداری کی سمت راغب کرنے کے مقصد کے تحت کیاپشنس اور ٹی ایم سی کے علاوہ دیگر تجارتی اداروں کے تعاون سے اس نمائش کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے جہاں پر شادی بیاہ و دیگر تقاریب سے متعلق وہ تمام اشیاء دستیاب رہیں گی جن کی تقاریب میں ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔
تقاریب کے سلسلے میں جو تیاریاں کی جاتی ہیں اُن تیاریوں کے دوران بعض ایسی ضروری اشیاء فراموش کردی جاتی ہیں جن سے تقاریب میں کوئی مزہ باقی نہیں رہتا ۔ اسی لئے ہر وہ شئے جو تقاریب سے جڑی ہوئی ہیں انھیں ایک چھت تلے پیش کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا جارہا ہے تاکہ اس نمائش کا مشاہدہ کرنے والے جشن نکاح کے عنوان سے ہورہے اس سہ روزہ پروگرام سے استفادہ کرسکیں۔ مشاہدہ کرنے والوں کیلئے تجارتی برادری کی جانب سے بہترین پیشکش بھی کی جارہی ہے ۔ اس نمائش کا حصہ بننے والے کئی تجارتی ادارے مختلف طریقوں سے عوام کو رعایت یا آفر س پیش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں کی گئی ایک پیشکش کے مطابق نمائش کا مشاہدہ کرنے والے تمام مشاہدین جو جشن نکاح میں رجسٹریشن کروائیں گے انھیں 2000 روپئے کا مالیتی گفٹ ووچر دیا جائے گا۔ اسی طرح دیگر تجارتی اداروں کی جانب سے نمائش کے دوران پرکشش پیشکش کئے جانے کی توقع ہے ۔

بحوالہ : سٹی کنونشن میں کل "جشن نکاح" کی سہ روزہ نمائش کا آغاز / ادارہ سیاست و کیپشن کی "جشن نکاح" سہ روزہ نمائش

سب سے پہلے تو عرض ہے کہ "جشنِ نکاح" کی وجہِ تسمیم کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ دو متضاد معنوں کے حامل الفاظ کا یہ مرکب دراصل ایک دلخراش مذاق ہے۔ یہ تو وہی بات ہو گئی جو مولانا مودودی نے کبھی کہی تھی کہ : "سبزی خوروں کی گوشت کی دوکان"۔
جشن ایک ہنگامے کا نام ہے جبکہ نکاح کے لفظی معنوں میں سادگی پوشیدہ ہے۔ جو کچھ "جشنِ نکاح" کے نام پر کیا گیا ہو اس کو جشنِ اسراف، جشنِ تبذیر، جشنِ ترقی پسند جہیز، جشنِ رسوماتِ لغو، جشنِ ریاکاری، جشنِ فخرومباہات، جشنِ جہیز وغیرہ وغیرہ کا نام تو ضرور دیا جا سکتا ہے یا شاید "جشنِ شادی" زیادہ موزوں عنوان ہوتا۔ لیکن اس کو نکاح جیسے پاک لفظ سے جوڑنا اور اس کی آڑ میں جہیز کی اشیا فروخت کرنا ایسا ہی ہے جیسے مسجد یا درگاہ کے سامنے حمد ، نعت یا قوالیوں کی سی ڈیز کی آڑ میں نئی فلموں اور گانوں کی سی ڈیز کو فروخت کرنا۔

یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا مدیر اعلیٰ سیاست اور ان کے ہم نوا یہ بتانےکی زحمت گوارا کر سکتے ہیں کہ نکاح میں سوائے ایجاب و قبول و خطبہِ نکاح کے اور کیا جشن ہوتا ہے؟
ہاں چھوارے ہوتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک اچھی شیروانی اور ٹوپی ہو سکتی ہے جو دلہا کو زیب دیتی ہے۔ جشن کے نام پر چھوارے اور شیروانیوں کی مارکٹنگ ہی کر لی جاتی تو شاید اس معاملے کو اعتراض کے قابل نہ گردانا جاتا۔
لیکن اس سہ روزہ نمائش میں عالیشان فرنیچر، آسان اقساط [مگر مع سود] پر جہیز کے سامان اور پلاٹس، ملبوسات و زیورات ، خوشبو و عطریات ، اعلیٰ معیاری شادی کے رقعے، باجے وغیرہ ہمہ اقسام کی چیزوں کی نمائش کر کے جہیز کی لعنت کو مزید مستند بنانے کے اس کاروبار میں مدیر اعلیٰ کا شامل ہونا قوم کیلئے اس باعث شرمناک ہے کہ انہوں نے جہیز کے خلاف خود ہی آواز اٹھائی تھی مگر پھر دانستہ یا نادانستہ خود ہی جہیز کی مارکٹنگ میں لگ گئے۔
اگر یہ حرکتیں شہر کی کسی سیاسی جماعت کے لوگ کرتے تو شائد کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ کیونکہ بدقسمتی سے اس جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک طرف جہیز کیلئے سود پر پیسہ بھی دیتے ہیں اور غنڈوں سے وصول بھی کرواتے ہیں اور دوسری طرف غریب لڑکیوں کی شادیوں کیلئے چندہ دے کر اخبارات میں تصویریں بھی شائع کرواتے ہیں۔

اس نمائش کے ناتے واقعتاً یہ ایک بہترین موقع تھا کہ "نکاحِ اسلامی کیا ہوتا ہے؟" اس کی عملی، تربیتی و ترغیبی وضاحت کی جاتی۔ مختلف مکاتبِ فکر، مسالک اور جماعتوں کو نمائش میں اسٹال دیئے جاتے اور ان سے تقاضا کیا جاتا کہ جہیز کی لعنت کو روکنے ان کے پاس جو لٹریچر، تحریکی مواد ، اب تک کی کارکردگی کا جائزہ و شماریات اور مستقبل کے منصوبے ہیں ان کی نمائش کی جائے۔ لوگوں کو متوجہ کرنے کی نت نئی ترکیبیں ڈھونڈھی جاتیں اور غیر مسلموں تک بھی اس پیغام کو پہنچانے کی سعی کی جاتی۔
مگر افسوس کہ اس کے برعکس لالچی لڑکے والوں کی جہیزی فہرست کو صحیح آرگنائز کرنے کی ترکیبیں سکھائی گئیں، ہمہ اقسام کی چیزوں کی ضرورتوں کو پیدا کرنے کے آئیڈیے فراہم کیے گئے ، شادی بیاہ میں رہنمائی کے بہانے ایک چھت تلے ایسی خریداری کی ترغیب دلائی گئی جسے سوائے فضول خرچی یا اسراف کے اور کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا ۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں معاشرہ میں اصلاحی انقلاب لانے کے داعی کے علاوہ کسی عملی مسلمان کو بھی قطعی زیب نہیں دیتیں۔

ممکن ہے کہ اس سہ روزہ جشن سے جو کچھ کمائی حاصل ہوئی ہوگی وہ آگے کسی نہ کسی نیک کام پر خرچ بھی کی جائے گی۔ جیسا کہ روزنامہ "سیاست" کی ایک اور مقبول عام تحریک "دو بدو" اگرچہ ایک فائدہ مند پروگرام ہے لیکن ایک ایک امیدوار سے سات سو روپئے کی داخلہ فیس بھی جو وصول کی جاتی ہے جو وہ بالآخر قوم پر ہی خرچ کی جاتی ہے۔ لیکن ایسی حرکتیں بہرحال ایک باشعور مسلمان کے نزدیک "رابن ہڈ" ٹائپ کی ان فلمی کہانیوں کی طرح ہیں جن میں ہیرو امیروں کو لوٹ کر غریبوں میں مال تقسیم کرتا ہے۔

کیا حقیقتاً اسلام میں بھی اس قسم کی مارکٹنگ کی اجازت ہے؟
کاش کہ متعلقہ افراد اس موضوع پر ٹھنڈے دل سے غور و فکر کرتے ہوئے ایسی فضولیات سے دور رہیں تو قوم کو بھی برائی سے گریز اور بھلائی کی ترغیب ملے گی۔

The reality of Siasat's 3-days exhibition "Jashn-e-Nikah"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں