ترقی کی راہ پر گامزن کشمیرکو سیلاب نے 30 سال پیچھے کر دیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-17

ترقی کی راہ پر گامزن کشمیرکو سیلاب نے 30 سال پیچھے کر دیا

سری نگر
یو این آئی
وادی کشمیر کے لوگ ایک انتہائی پرآشوب دور سے گزرنے کے بعد اب تعمیر و ترقی کی دوڑمیں شامل ہو گئے تھے۔ ریاست کی گرمائی دارالحکومت سری نگر میں حکومتوں نے سرکاری عمارتوں اور خاص طور پر لوگوں نے اپنے مکانات کو ایک خوبصورت انداز میں تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا ۔ اب ہر طرف نئے نئے اور دلکش تعمیری ڈھانچے نظر آ رہے تھے۔ حکومتیں سری نگر کو ایک عالمی پیمانے کی سٹی کے طور پر فروغ دینے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہو گئی تھیں ۔ سری نگر اور وادی کے دوسرے اضلاع میں رہائش پذیر لوگ بھی پر امن اور خوشحال زندگی گزارنے کا تہیہ کر چکے تھے ۔ شاید وادی کشمیر ملک کا واحد ایسا خطہ ہے جہاں قریب قریب90فیصد لوگوں کے پاس اپنے پکے مکانات ہیں ۔ اتنے خود کفیل اور صاحب زر تھے کہ کوئی ضرورت مند کسی کشمیری کی در سے خالی ہاتھ واپس لوٹ کر نہیں جاتا تھا ۔ کشمیریت کے جذبے کے تحت ہر شخص اپنے اور غیروں کے دکھ سکھ میں شریک رہتا تھا ۔ مگر گزشتہ ہفتے کو آنے والے قہر انگیز سیلاب نے اچانک اسی کشمیر کے بیشتر لوگوں کے مکانوں اور سرکاری عمارتوں کو اپنی آغوش میں لے کر کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ لوگ اپنے ہی گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے اور آشیانوں کو اپنی آنکھوں سے ویران ہوتے دیکھتے رہے، ہر طرف ہو کا عالم تھا۔
خود کفیل،صاحب حیثیت اور کشمیریت کے جذبے سے سرشار لوگ کچھ ہی گھنٹوں میں مجبور و محتاج بن گئے۔ کوئی دن رات کی محنت کے بعد بنائے گئے مکان کو گرتے ہوئے دیکھ کر رو رہا تھا تو کوئی اپنی دکان کو سیلابی پانی میں گم پا کر واویلا کر رہا تھا ۔ کسی کا عزیز ڈوب گیا تھا تو وہ اس پر ماتم کر رہا تھا، تو کوئی اپنے مکان کی چھت سے چیخ چیخ کر مدد کے لئے پکار رہا تھا ۔ وادی کا تجارتی مرکز سری نگر، کا ایک بڑا حصہ سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ الغرض گزشتہ60برسوں کی تاریخ میں اب تک کے انتہائی درجے کے سیلاب نے بری طرح کشمیر کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر سیلاب کی سبب قریب قریب30سال پیچھے چلی گئی ۔ ان کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث ہونے والے بھاری پیمانے کے نقصان کی شاید ہی بھرپائی ہوپائے گی ۔
سیلاب کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ 68برس میں پہلی بار وادی میں ریڈیو کشمیر کی نشریات بند ہوئیں۔ 7ستمبر کو دوپہر3بجے کے قریب اس وقت ریڈیو کی آواز خاموش ہو گئی تھی جب ریڈیو کشمیر پر دن بھر چلنے والا ایک لائیو ہیلپ لائن، پروگرام چلایاجا رہا تھا جس کے ذریعے سیلاب میں پھنسے لوگوں کی فریادیں ، ریسکیو ٹیموں اور حکام تک پہنچائی جا رہی تھیں۔ 7ستمبر کو ہی وادی میں دوردرشن کی نشریات بھی بند ہوئیں ۔ واضح رہے کہ6اور7ستمبر کی درمیانی رات کے دوران ہی دریائے جہلم کی قہر آمیز موجوں نے سری نگر کو بری طرح اپنی زد میں لے لیا تھا۔ سری نگر میں واقع سرکاری دفاتر، میڈیا دفاتر، تجارتی مراکز، اسپتال، پولیس تھانے اور جہلم کے کناروں کے نزدیک واقع دوردرشن اور ریڈیو کشمیر بری طرح زیر آب آ گئے تھے۔ ریڈیو کشمیر اور دوردرشن کے ساتھ ساتھ نجی ایف ایم استیشن بگ927ایف ایم کی آواز بھی خاموش ہو گئی۔ اخباروں کی اشاعت رک گئی اور کشمیر کا ملک کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ۔
7ستمبر سے مواصلاتی نظام بھی ٹھپ ہو گیا تھا جس سے لوگوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا ۔ نہ باپ کو بیٹے کی خبر اور نہ بیٹے کو باپ کا اتا پتا۔ بجلی ترسیلی لائنوں کو بھی کافی نقصان پہنچا جس کے باعث بیشتر علاقے گپ اندھیرے میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اہلیان وادی کو غالباً ہی کبھی ایسی مایوس کن صورتحال، افراتفری کی گھڑی اور ہر طرف سے مدد کے لئے گونجتی ہوئی صداؤں کا مشاہدہ ہوا ہو گا ۔ وادی کشمیر میں کچھ سیلاب زدہ علاقوں میں میتوں کی تجہیز و تکفین پانچ دھ روز کے بعد انجام دی گئی۔ ایسے علاقوں کے لوگ کسی بھی طرح میت کو دوسرے علاقے میں لے جا کر دفناتے مگر ان علاقوں کو دوسرے علاقوں سے جوڑنے والے پل پہلے ہی ڈھہ گئے تھے ۔ بیشتر علاقوں میں لوگوں کو اچانک اسکولوں اور مسجدوں میں پناہ لینا پڑی اور ہزاروں لوگ تادم تحریر ان ہی عارضی ریلیف کیمپوں ( شیلٹروں ) میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ تاہم محفوظ مقامات پر رہائش پذیر مقامی لوگوں نے ایک بار پھر کشمیریت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے متاثرہ لوگوں خواہ وہ مسلم، ہندو یا سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے ، اپنے گھروں ، مساجدوں اور اسکولوں میں نہ صرف جگہ دی بلکہ لنگر کا اہتمام کر کے کھانے کا انتظام کیا اور دیگر ضروری چیزیں بھی فراہم کیں۔ ان میں غیر ریاستی مزدوروں کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہیں ۔

Kashmir is 30 years back after the flood

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں