اردو مشاعروں کے آئٹم گرلز اور آئٹم بوائز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-19

اردو مشاعروں کے آئٹم گرلز اور آئٹم بوائز

urdu-mushaira-item-girls-boys

ہندوستانی فلموں میں آئٹم گرل اور اُس پر فلمائے گئےجنسی اور نیم عریاں بلکہ تقریباً عریاں گانوں سے ہم سبب بخوبی واقف ہیں بلکہ گاہے بگاہے مستفید بھی ہوتے رہتے ہیں۔ آئٹم گرل کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو فلمساز اور پروڈیوسرز ایسا کم از کم پچاس کی دہائی سے کرتے آرہے ہیں بظاہر ایسا فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے اور منافع بڑھانے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ عین ممکن ہو کہ پسِ پشت کچھ اور وجوہات بھی ہوں۔

پچھلے پندرہ بیس سالوں میں آئٹم گرل کا رجحان فلموں سے ہوتا ہوا مشاعروں میں در آیا ہے۔ دم توڑتی اُردو شاعری اور مشاعروں کے سنّاٹوں کی وجہ سے منتظمینِ مشاعرہ کو اپنی روزی روٹی، جو کسی حد تک مشاعروں کی مرحونِ منّت ہے، کی فکر پڑگئی۔ لہذا اُنھوں نے ماضی کی آئٹم گرل "ہیلن" کو ایک نیا روپ دے کر مشاعروں کے اسٹیج پر لا کھڑا کیا۔ اُسے اسٹیج تک لانے میں اُن نام نہاد اساتذہ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا جن کی شاعری اور شخصیت دونوں انتہائی نچلے درجے کی تھی۔ اُنھوں نے آئٹم گرل کی تربیت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی، تلفظ، ادائیگی، الفاظ کی نشست و برخاست اور کچھ دیگر لوازمات، اور یوں آئٹم گرل ایک شاعرہ کے روپ میں وارد ہوئی۔ اُس نے پورے کپڑوں کے ساتھ عریانیت کی نئی جہتوں کو متعارف کرایا۔ غزل پڑھنے سے پہلے اور بعد میں، اُس نے اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے بے صوت شاعری کے وہ اصلوب متعارف کرائے کہ حاضرینِ مشاعرہ دیگر شعراؑ کی غزلوں پر بھی داد آئٹم گرل ہی کو دیتے نظر آئے۔ آئٹم گرل کی آوارہ آنکھیں حاضرینِ مشاعرہ سے یوں اُلجھتی نظر آتی ہیں جیسے ایک اک سے برسوں کی شناسائی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ احمد فراز مرحوم نے یہ شعر مشاعرے کی آئٹم گرل کے لئے ہی کہا تھا۔

اُس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اُس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا

یہ کہنا مشکل ہے کہ فراز نےلفظ "کلام" تشبیحاً استعمال کیا تھا یا لفظ "کلام" سے اُن کی مراد شاعری تھی۔ بحر کیف حاضرینِ مشاعرہ کے جذبات
بھی آئٹم گرل کے لئے فراز سے کچھ مختلف نہیں ہوتے اور ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق آئٹم گرل پر کچھ نہ کچھ نچھاور کرنا چاہتا ہے۔ دورانِ مشاعرہ اُن شوہروں کی حالت دیدنی ہوتی ہے جو اپنی شریکِ وفات کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جہاں اُن کی نظریں آئٹم گرل کی آنکھوں سے اُتر کے اُس کے ہونٹوں تک پنہچھتی ہیں وہیں ایک قہر آلود نظر شوہر کو اُس کی سات پشتوں سمیت بیچ مشاعرہ گاہ میں اُلٹا لٹکا دیتی ہے۔ آپ اگر آئٹم گرل کو بغیر دیکھے پہچاننا چاہیں تو تو اُس کے نام پر غور کیجئے، بریلوی، دہلوی، کانپوری، لکھنوی اور بجنوری جیسے الفاظ اگر کسی موئنث نام کے ساتھ نظر آئیں تو سمجھ لیجے کہ آپ کی مراد بر آئی ہے اور اُپ بے دھڑک مشاعرے کا ٹکٹ خرید سکتے ہیں۔

جہاں آئٹم گرل نے مشاعروں اور دم توڑتی اُردو شاعری میں جان ڈالدی ہے وہیں اس نے با صلاحیت شاعرات کی زندگی بھی اجیرن کردی ہے۔ نہ صرف آئٹم گرل کو ان شاعرات کے بعد پڑھوایا جاتا ہے بلکہ وہ اپنی سطحی شاعری پر ڈھیروں داد بھی وصول کرتی ہے۔ جب کہ باصلاحیت شاعرات اپنا کلام پیش کرتے ہوئے یوں محسوس کرتی ہیں جیسے حاضرین گونگے اور وہ خود بہری ہوں۔

قارئین فی الحال اتنا ہی۔ کیوں کہ ہمیں ایک مشاعرے میں جانا ہے جہاں اس عہد کی سب سے بڑی شاعرہ "دلکش لکھنوی" جلوہ افروز ہو رہی ہیں۔

الزام آئٹم گرلز پر ہی کیوں جبکہ ان کا تو یہ احسان بھی ہے کہ وہ چاہتیں تو فلمی گانوں کے ذریعے اپنی آواز کا جادو جگا کر بہت کچھ کما بھی سکتی تھیں لیکن انہوں نے فلمی گانوں کے شوقین حضرات کو محروم کرکے مشاعروں میں آنے والے نظر بازوں کے شوق کی بھی تسکین کا سامان کیا۔ منتظمین کو بھی خوش ہونے، مشاعرہ کامیاب ہونے پر ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دینے اور اخبارات میں تصویریں شائع کروانے کا موقع ملا۔ جہاں آج کے مشاعروں کی کامیابی میں اِن آئٹم گرلز کا اہم رول ہے وہیں کچھ آئٹم بوائز کا بھی اہم رول ہوتا ہے۔ ان کا بھی اردو ادب اور مشاعروں پر یہ سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ ہندی میں لکھواکر لاتے ہیں اور اردو میں پیش کرتے ہیں۔ یعنی ہندی کی کھاتے ہیں اور اردو کی گاتے ہیں۔ قربت کو کُربت اور پھر کو فِر پڑھ کر مشاعرہ لوٹتے بھی ہیں۔ چونکہ ‘‘الناس کالملک’’ کی طرح ‘‘السامعین کالشاعر’’ ہوتے ہیں یعنی جیسا راجہ ویسی پرجا کی طرح جیسا شاعر ویسی سامعین ، اس لئے ان آئٹم بوائز کو پتہ ہوتا ہے کہ ایک دو شعر گجرات اور بی جے پی پر دے مارنے سے ، ایک دو اشعار میں القاعدہ یا داعش پرخراجِ تحسین اچھالنے سے جذباتی سامعین کچھ دیر کیلئے گلی کے چوہوں کی طرح شیر ہوجاتے ہیں اور ہوا میں خیالی تلواریں چلانا شروع کردیتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک دو شعر ماں کی نذر ، سونے پر سہاگے کا کام کرتے ہیں۔ پھر تو سامعین کا حال مت پوچھئے، کہیں زبردست داد، تو کہیں پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔ بڑے شاعر منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ان آئٹم بوائز کی شاعری میں میر اور غالب کے حوالے سے بھی ایک دو اشعار ہوتے ہیں تاکہ بزرگ شاعروں پر یہ دھونس جمائی جا سکے کہ ان کی شاعری کا شجرہ نسب بھی جاکر اہلِ بیتِ شاعری سے ملتا ہے۔

ان آئٹم بوائزسے ایک اور مصیبت یہ ہیکہ جہاں ان کے ایک دو سیاسی شعروں پر زبردست داد ملے وہیں سے یہ ہر شعر کی تفسیر اور اگلے شعر کی تمہید میں پانچ پانچ منٹ کی تقریر کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جسطرح آئٹم گرلز کی نئی ڈریسنگ کو دیکھ کر سامعین یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ غزلیں کتنی پرانی سنارہی ہیں اسی طرح یہ آئٹم بوائز بھی سارے پرانے مال کو جو وہ برسہابرس سے سنارہے ہیں کسی نئے فساد کی تمہید باندھ کر فروخت کرڈالتے ہیں۔ بے چارے سامعین کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے۔ جسطرح وہ بڑے سے بڑے چور اور مدمعاش لیڈر کے سابقہ کارناموں کو بھول کر دوبارہ ووٹ دے ڈالتے ہیں اسی طرح وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ موصوف ایک ہی غزل کو ہر فساد کے بعد نئی تمہید باندھ کر کتنی بار سناچکے ہیں۔
جب سے مشاعروں میں گیتوں کی بدعت شروع ہوئی ہے ان آئٹم بوائز اور آئٹم گرلز کی خوب بن آئی ہے۔ حالانکہ گیت کوئی نئی شئے بھی نہیں ہے۔ یہ پابند نظم ہی ہے۔ لیکن ان کویہ لوگ فلمی دُھنوں کے سُر میں الاپ کرایک رومانٹک ماحول پیدا کردیتے ہیں۔ سامعین ٹیپ کے مصرعہ پر پہنچتے ہی سُر پرجھوم اٹھتے ہیں اس کا فائدہ اٹھا کر شاعر اِنہیں ساتھ گانے اور تالیاں مارنے کے کام پر لگادیتے ہیں۔
ہم کیسے یقین کرلیں کہ کوئی اردو کا مشاعرے لوٹنے والا شاعر ہو اور اردو لکھنا نہ جانتا ہو؟ شاعری کو ایک قسم کا الہام کہا گیا ہے۔ الہام مادری زبان میں آتا ہے۔ شاعری کرنے کیلئے اردو ادب کا گہرا مطالعہ ناگزیر ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی اپنی مادری زبان میں دسترس حاصل کئے بغیر اردو شاعری کرسکتا ہو۔ ہاں واٹس اپ شاعری یا فیس بُک شاعری تو ممکن ہے لیکن سنجیدہ شاعری بغیر اردو لکھنا جانے ممکن نہیں۔ جو اساتذہ ان بوائز اور گرلز کو لکھ کر دیتے ہیں اور پچاس تا پچھتر فیصد مشاعرہ آمدنی وصول کرتے ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ اِنہیں اردو لکھنا بھی سکھائیں۔ چونکہ تارکینِ وطن کی اردو بھی ان کی انگریزی اور عربی ہی کی طرح ہوتی ہے اسلئے اُنہیں یہ آئٹم بوائز اور گرلز زیادہ پسند آتے ہیں۔ وہ اِنہیں بیرون ملک بلا کر اِن کے دام بڑھادیتے ہیں اور اِن کی عادتیں خراب کرڈالتے ہیں۔ پہلے جب یہ بوائز اور گرلز جدہ آتے اور ہم اِن سے معاوضہ پوچھتے تو کہتے کہ "آپ ہمیں مکہ مدینہ کی اس پاک سرزمین پر آنے کا موقع عنایت فرمارہے ہیں۔ بھلا کیسے ہم معاوضہ طلب کرسکتے ہیں، آپ جو بھی عنایت فرمائیں گے ہمیں منظور ہے''۔ لیکن جب یہ ایک دو بار آچکے ہوتے ہیں اُس کے بعد نخرے دکھانے شروع کرتے ہیں۔ جب ہم ان کو معاوضہ بتاتے ہیں تو کہتے ہیں "بھائی اتنا تو مقامی مشاعروں میں ہی ہمیں مل جاتا ہے، ایک دن کے مشاعرے کیلئے کون ایک ہفتے کی کلفت برداشت کرے اتنے ٹائم میں تو ہم دوچار مشاعرے پڑھ لیتے ہیں۔ "۔ کبھی کہتے ہیں "فلاں فلاں انجمن نے تو ہمیں امریکہ یا سعودی بلا کر اس سے دو گُنا زیادہ دیا تھا آپ اتنے کم کیسے دے سکتے ہیں’’۔ معاوضے کے معاملے میں ہمیں اِن سے ہی نہیں اکثر سنجیدہ اور بزرگ شعرا سے بھی ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا جیسے کسی آٹو والے سے حجت کرتے وقت پیش آتی ہے۔
ان بوائز اور گرلز سے نئی نسل میں اردو مشاعروں کا ذوق بڑھانے میں مدد ضرور ملی ہے لیکن سنجیدہ اور تخلیقی شاعری جو اب صرف پاکستان میں رہ گئی ہے۔ اس کا بہت تیزی سے خاتمہ ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بھی اگرچہ کہ تخلیقی شاعری موجود ہے لیکن کمرشیل مشاعروں کے شور میں اِس کی آواز بالکل دب کر رہ گئی ہے۔ اکثر یہ ہورہا ہے کہ خالص ادبی اور اعلی درجے کی شاعری کرنے والے شاعر بھی قریبی احباب سے یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ "میری غزلیں کیسی رہیں؟ "

Item Girls & Item Boys of Urdu Mushaira

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں