18/ستمبر نئی دہلی پریس ریلیز
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات میں فرقہ وارانہ عناصر کی شکست سے پارٹی مطمئن ہے۔ رائے دہندگان نے ان کے مذہبی تشخص کے قطع نظر، رائے دہندگی کے ذریعے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ سنگھ پریوار کی تقسیم کی پالیسیوں کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے۔ اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر نے اپنے جاری کردہ اخباری اعلامیہ میں کہا ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے بھارت کی سیکولرازم کے تئیں اعتماد بحال ہوئی ہے۔ دراصل ملک کے عوام ترقی چاہتے ہیں نہ کہ نفرت انگیز مہم ، عوام ذریعہ معاش اور روزگار چاہتے ہیں نہ کہ فرقہ وارانہ فسادات بلکہ عوام اس ملک میں ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ امت شاہ ، یوگی آدتیا ناتھ اور ساکشی مہاراج کی حیثیت کیا ہے وہ بھی عوام نے بتا دیا ہے۔ ان تینوں کی سیاسی چالوں کو مسترد کردیا گیا ہے۔ بی جے پی اس بات کو تسلیم نہیں کرے گی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ بی جے پی کو اتر پردیش میں ذلیل کیا گیا ہے۔ یہ صرف انگلیوں کی جنبش نہیں ہے ، بلکہ بی جے پی کے منہ پر مارا گیا ایک طمانچہ ہے۔ قومی صدر اے سعید نے مزید کہا ہے کہ بی جے پی نے ترقی کے نام مرکز میں اقتدار میں قابض ہوئی اور نریندر مودی کے تاجپوشی کے فورا بعد اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے۔ عوام نے نریندر مودی کو فرقہ وارانہ ایجنڈے پر نہیں بلکہ ترقیاتی ایجنڈے کے لیے بڑے پیمانے پر ووٹ دیا تھا۔ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے زعفران بریگیڈ میں موجود فرقہ وارانہ اور ذہنی بیمار افراد نے "لو جہاد" ،" جبری مذہب کی تبدیلی"اور "فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی"شروع کردیا تھا، انہوں نے یہ سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا کہ ان کے اس بیانات سے بھارت انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔ پارٹی کے لیڈروں اشتعال انگیز بیانات پر نریندر مودی کی خاموشی اختیار کرنے کے غیر ذمہ دارانہ انداز کوعوام نے بھی بی جے پی کے حق میں ووٹ نہ ڈال کر خاموشی سے نریندر مودی کو سبق سکھا یا ہے۔ اس کے علاوہ عوام نے مودی کو یاد دہانی کرائی ہے کہ نریندرمودی اپنے فدائین کو اگر نفرت کے ایجنڈے پر چلنے دیں گے تو انہیں ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ کچھ لوگ عوام کو کچھ عرصہ تک مشتعل کرسکتے ہیں لیکن آخر میں ہمارے ملک کا لبرل، سیکولرفطرت ہی غالب آکر رہے گا۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات کی طرف خصوصی نشادہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں مودی لہر کا دعوی صرف ترقی اور ترقی کی بنیاد پر کیا گیا تھا، ترقی کے اس نعرے کو خاص طور پر نریندری مودی نے اپنا یا تھا اور پارٹی صرف ان کے ہاں میں ہاں ملاتی نظر آرہی تھی۔ تاہم ، مودی لہر اب ماضی کی بات ہے۔ ضمنی انتخابات ترقی کے علاوہ دیگر حربوں کو استعمال کرکے لڑے گئے تھے جس کے نتائج بی جے پی کے سامنے آچکے ہیں۔ یہا ں اصل مسئلہ نریندر مودی کو بی جے پی کے ساتھ جوڑنا ہے، مودی کو بی جے پی کی بجائے ملک بھر میں پھیلے آر ایس ایس کیڈر نیٹ ورک کی وجہ سے کامیابی ملی تھی۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو نہیں بلکہ نریندر مودی کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ہمیں ایسی پارٹی کی ضرورت نہیں ہے جس کا وزیر اعظم تقسیم کے ایجنڈے نظریے کی طرف مائل ہو۔ یقیناًمودی اسی نظریے کے طرف مائل ہیں، کیونکہ وہ آر ایس ایس کا ایک حصہ ہیں۔ قومی صدر اے سعید نے اس بات کی طرف نشاندہی کیا ہے کہ لوک سبھا انتخابات "اب کا بار مودی سرکار"کے نعرے پر لڑا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتیہ رائے دہندگان کسی بھی حکومت کے وعدوں کو فوری طور پر عمل در آمد کئے جانے کے متمنی ہیں، اگر وعدے پورے نہیں کئے گئے تو عوام فوری طور پر مایوس ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کی ذہنیت بھی کسی طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف کرپشن اور چاپلوسی کی موجودہ نظام کو استحصال کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ بی جے پی کے ووٹروں نے بنیادی طور پر مسلم تنقید اور نام نہاد ہندوتوا مسئلہ اور "ترقی "کے لیے ہی بی جے پی کی حمایت کی تھی، لیکن اب وہ مایوسی کا شکار ہیں۔ دریں اثناء بھارتیہ عوام کو زہر کی روزانہ خوراک دی جارہی ہے، مرکزی وزیر مینکا گاندھی نے ایک طرف گوشت کی صنعت کو دہشت گردی سے منسلک کیا تھا تو دوسری طرف ساکھشی مہاراج نے مدارس کو دہشت گردی سے منسلک کرکے بیانات جاری کیا تھا، یہ دونوں تبصرے اور بیانات بی جے پی کے لیے مہلک ثابت ہوئے۔ ہندتوا بریگیڈ آپے سے باہر نظر آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے نظریے اور نفرت کے ایجنڈے کو بی جے پی کے دور حکومت میں نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہی صحیح وقت اور موقع ہے۔ ایک اور حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ہندوتوا بریگیڈ سائی بابا۔شنکرا اچارایہ محاذ آرائی کی شکل میں اس صدی کے سب سے نقصاندہ اندرونی بحران سے دوچار ہیں۔ جس سے سناتھن دھرم کے اتحاد کو خطرہ درپیش ہے۔۔۔Election defeat of communal elements is satisfactory -SDPI
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں