آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-06

آئیں گے غسال کابل سے کفن جاپان سے

Hard-Work-Pays-Off
پچھلے ہفتہ کے دوران نہ صرف اخبارات بلکہ ٹیلی ویژن چیانلس نے مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے ایک میونسپل کارپوریٹر کی خبر جلی حروف میں اور بڑی اہمیت کے ساتھ شائع اور نشر کی۔ مہاراشٹرا کے 45 سالہ پنکج پاریکھ نے اپنی سالگرہ کے موقع پر ایک ایسا مہنگا شرٹ پہنا ہیکہ انہیں امید ہے کہ ان کا نام گینس بک آف ورلڈ ریکارڈس میں درج کیا جائے گا کیونکہ پاریکھ نے جو شرٹ پہنا تھا وہ پوری طرح سونے سے تیار کردہ تھا ۔ جی ہاں صرف سونے کی پرت یا پانی چڑھا ہوا نہیں 22 کیرٹ کے اصلی سونے سے تیار کردہ اس شرٹ کی تیاری میں تقریباً چار کیلو سونا لگا جس کی مالیت ایک کروڑ تیس لاکھ بتائی جارہی ہے۔
آج کے اس کالم میں ہم جب پنکج پاریکھ کے سونے کے شرٹ کا ذکر کر رہے ہیں تو ہمارا مقصد یہ نہیں کہ قارئین کو سونے کا شرٹ پہننے کے لئے ترغیب دلائیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ خود اپنے ملک ہندوستان میں رہتے ہوئے اور کاروبار کے ذریعہ اتنا کمانے کے مواقع موجود ہیں کہ آپ سونے سے تیار کردہ شرٹ خرید کر پہن سکتے ہیں۔ پنکج پاریکھ کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ انہوں نے اسکول کی تعلیم بھی درمیان میں ہی ترک کردی تھی۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے ٹکٹ پر کارپوریٹر بننے کے علاوہ پنکج اپنی ایک گارمنٹ فیکٹری چلاتے ہیں اور بہت سارے ضرورت مندوں کیلئے رفاہی کام سر انجام دیتے ہیں۔
جس زاویہ کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ محنت کرنے والوں کیلئے ہمارے ملک ہندوستان میں ہی اتنے سارے مواقع ہیں کہ انکم ٹیکس دینے کے باوجود آپ اتنا مال کماسکتے ہیں کہ سونے سے تیار کردہ کپڑے پہنیں۔ سونا جمع کرنے کی چاہ کس کو نہیں ہوتی اسی چاہت کی تکمیل کیلئے ہمارے بہت سارے نوجوان جب کوششیں کرتے ہیں تو قانون کے دائرے سے باہر نکلنے کی پاداش میں انہیں انٹرنیشنل ایرپورٹ پر ہی پکڑلیا جاتا ہے لیکن جو لوگ محنت کے دیوانے ہیں اور اپنی عقل کا استعمال کرنا جانتے ہیں وہ مدراس جاکر اڈلی دوسے کے شہر میں جلیبی اور چاٹ کے کاروبار میں منافع کمانے لگتے ہیں۔ 11 اگست 2014 ء کو ہندو اخبار کے چینائی ایڈیشن میں "The Sweet Taste of Excellence" کی سرخی کے تحت گجرات کے جینتی لال کی کہانی شائع ہوئی کہ کس طرح 1954 ء میں گجرات کا تیرہ سالہ جینتی لال مدراس آتا ہے اور ایلی فنٹ گیسٹ ہاؤس کے پاس اپنی ایک مٹھائی کی دکان کھولتا ہے ، جنوبی ہندوستان کے اس شہر میں جہاں اڈلی دوسہ کا کلچر ہے وہاں پرایک گجراتی عجب مٹھائی گھر کے نام سے جلیبی ، گاٹھیاں، بھیل پوری اور چاٹ بیجنا شروع کرتا ہے۔
جی ہاں یہ تعجب کی بات ہی تو ہے کہ مدراس جہاں سے اڈلی دوسہ نے سفر کر کے ملک بھر میں اپنی پہچان بنائی ہے ، اسی شہر میں ایک گجراتی جلیبی کی دکان شروع کرتا ہے ، اس واقعہ کو 60 برس کا عرصہ بیت گیا اور آج عجب مٹھائی گھر نامی دکان کا یہ عالم ہے کہ یہ صبح 6 بجے کھل جاتی ہے اور رات 1 بجے تک بھی اس دکان پر خریدار موجود رہتے ہیں اور اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ خریداروں کو اس مٹھائی کی دکان پر خریداری کرنے کے لئے قطار بناکر ٹھہرنا پڑتا ہے۔
آج پورے مدراس شہر میں عجب مٹھائی گھر کے 6 برانچس ہیں اور ہر برانچ کی ایسی ہی صورتحال ہے کہ ہر دم خریداروں کا ہجوم محنت کے راستے پر چلکر کامیابی تو حاصل ہوتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے اس راستے میں بہت ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جس وقت عجب مٹھائی گھر کی شروعات ہوئی تو اس وقت یہ لوگ اپنی دکان پر پکوڑے اور دیگر تلن کی اشیاء بنانے کیلئے ممبئی سے بیسن (پسی ہوئی دال ) منگوایا کرتے تھے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ممبئی سے بیسن کا آنا مشکل ہوگیا تو ان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری اور خود اپنے گھر کی خواتین کی مدد سے گھر میں ہی بیسن کے پسینے کا انتظام کیا ۔ دکان کے مالکان کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ ان کے دادا جنہوں نے اصل میں مدراس میں گجراتی مٹھائی کی دکان شروع کی ، کہا کرتے تھے کہ اپنی دکان پر تم لوگ جو بھی مٹھائی یا ڈش فروخت کرتے ہو ، تم کو اس کاروبار میں اسی وقت کامیابی ملے گی جب تم خود ان سبھی چیزوں کو تیار کرنا جانتے ہو۔ تب ہی تم اہل ہونگے کہ کیش کاؤنٹر پر بیٹھ سکو۔ آج بھی اس دکان کی حالانکہ 6 شاخیں ہیں مگر دکان کی چٹنی اور دیگر چیزیں اس گجراتی خاندان کی خواتین اپنے ہی ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں کی دکان میں کام کرنے والے لوگ نہیں ہے ، دو ایک نہیں کئی درجن افراد ان کی دکانوں میں کام کرتے ہیں لیکن دکان کا کوئی کام ایسا نہیں جو مالکان خود نہیں جانتے ہوں اور بوقت ضرورت خود نہ کرسکتے ہوں۔
عید الفطر اور اس کے بعد چھٹیاں منانے کیلئے بہت سارے این آر آئیز شہر آئے ہوئے ہیں، ان لوگوں میں جن کسی سے بھی بات کرنے کا موقع ملا بس ان کو یہی فکر کھاتے جارہی تھی کہ ہمارا تو کسی طرح چل گیا، اب بچوں کو سیٹ کرنے کی ذمہ داری ہے اور کوئی بھی صاحب اس بات کو ماننے تیار نظر نہیں آرہے تھے کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی حلال رزق کمایا جاسکتا ہے۔ سب کے کم و بیش یہی خیالات ہیں کہ ’’ارے بھائی آپ کو تو معلوم ہے کہ اپن مسلمانوں کو تو انڈیا میں کہاں موقع ملتا؟‘‘ موقع کی بات آئی تو عرض کرنا چاہوں گا کہ محکمہ ڈاک کے چیف پوسٹ ماسٹر جنرل اے پی سرکل کی جانب سے 17 جولائی کو پوسٹ مین اور Mail Guard کی جائیدادوں پر بھرتی کا اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق تنخواہ کی شرح (5200-20200) + گریڈ پے 2000 + دیگر الاؤنسس بتائے گئے ۔ امیدوار کو صرف ایس ایس سی کامیاب ہونے پر درخواست دینے کا اہل بتایا گیا ۔ پورے آندھراپردیش میں (379) پوسٹ مین کی پوسٹوں پر تقررات کئے جاتے ہیں جس میں سے (225) پوسٹ جنرل زمرے میں ہیں۔ مزید تفصیلات (www.appost.in) پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ درخواستیں صرف آن لائن داخل کی جاسکتی ہیں اور درخواستیں داخل کرنے کی آخری تاریخ 18 اگست 2014 ء مقرر ہے۔
ایک صاحب کو جب ہم نے مندرجہ بالا معلومات فراہم کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ارے کیا ہے بھئی آپ نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے، میں اپنے بچے کو پوسٹ مین بناؤں ، میں نے تو اپنے بچے کو انجنےئر بنانے کا ارادہ کر رکھا ہے ، انٹرمیڈیٹ میں ایک پیپر بیاک لاگ ہے بس اس کے بعد انجنےئرنگ کرانا پکا ہے‘‘۔ کیا پوسٹ مین کی نوکری معمولی ہے ؟ کیا پوسٹ مین کی نوکری جائز نہیں ؟ اگر پوسٹ مین کی نوکری معمولی نہیں اور جائز بھی ہے تو ضرور ہمارے دماغوں کو علاج کی ضرورت ہے اور جو ہم تخیلاتی جنت میں رہ رہے ہیں، اس سے فوری طور پر نکل باہر آنے کی ضرورت ہے۔ پولیس میں بھرتی کیلئے ہمارے نوجوان جانا نہیں چاہتے اور ہم پوسٹ مین کی نوکری اپنے بچوں سے کرانا نہیں چاہتے تو آخر ہم چاہتے کیا ہیں ؟
27 جون 2014 ء کو حیدرآباد کے انگریزی اخبارات نے طلائی چین چھین کر بھاگنے والے دو نوجوانوں کی گرفتاری کی خبر شائع کی ۔ اخبارات نے نہ صرف دونوں نوجوانوں کی تصاویر بلکہ نام اور ان کے محلوں کے پتے بھی شائع کئے جس سے پتہ چلا کہ دونوں ہی مسلمان ہیں اور ابھی انٹرمیڈیٹ فرسٹ اےئر کے طالب علم ہیں، دونوں کی عمریں بھی 19 برس ہوگئیں۔ بنجارہ ہلز پولیس نے ان کی گرفتاری کی اطلاع کے ساتھ ان کے قبضے سے برآمد کی گئی سونے کی تین چینیں ، ایک ٹو وہیلر گاڑی کے بشمول تین لاکھ مالیتی سامان برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا اور بتایا کہ دونوں نوجوان اسکول کے ساتھی ہیں اور کالج میں داخلہ لینے کے بعد دونوں نے مل کر شہر کے پاش علاقوں میں عورتوں کے گلے سے سونے کی چین چھیننے کا کام شروع کیا ۔
27 جون کی ہی تاریخ کو اخبار دکن کرانیکل نے ایک اور خبر بڑی سی تصویر کے ساتھ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ 23 اور 20 برس کی عمر کے دو نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے دو کیلو سے زائد سونے کے زیورات برآمد کئے گئے ۔ اخبار نے دونوں گرفتار ملزمین کے نام اور پتے شائع کئے اور بتایا کہ یہ دونوں خواتین کے گلے سے طلائی چین چھین لینے کی 73 وارداتوں میں ملوث ہیں، خبر سے منسلک تصویر میں کمشنر سٹی پولیس سونے کے زیورات کا صحافیوں کو معائنہ کروا رہے ہیں۔
ایک ہی دن کی ان دو خبروں میں ملزمان بھی مسلمان ہیں، ان کی تعلیمی قابلیت اور عمریں پوری طرح فٹ ہیں کہ یہ لوگ مرکزی حکومت میں پوسٹ مین کی ملازمت کرسکتے ہیں۔ مگر سوال یہی ہے کہ حلال طریقے سے کمانے والے کی سماج عزت کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں ، لوگ یا تو باہر جاکر خوب کماکر نمائش کرنے والے کو پسند کرتے ہیں یا ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو اپنی مال و دولت کی خوب نمائش کرتے ہیں۔ اب یہ مال و دولت کہاں سے آرہا ہے یہ تو اخبار میں شائع ہونے والی خبروں سے پتہ چل رہا ہے کہ ہمارے نوجوان چوری کے اتنے واقعات میں ملوث ہیں کہ پولیس ان کے پاس سے 2 ، 2 کیلو وزنی زیورات برآمد کر رہی ہے۔ ٹو وہیلر گاڑیاں ، لیاپ ٹاپس اور موبائیل فونس معلوم نہیں اور کیا کیا چیزیں چوری بھی ہورہی ہیں ۔ چور مارکٹ میں فروخت بھی ہورہی ہیں اور ہمارے نوجوانوں کے ہائی فائی لائف اسٹائیل کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہورہی ہیں۔ اس طرح کے نوجوانوں کے ہجوم میں تو مجھے بنگلور کی سڑک کے کنارے ناریل پانی فروخت کرنے والی سیلویے کی کہانی اچھی لگ رہی ہے کہ اس عورت نے اپنے شوہر کی مدد کرنے اور اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کیلئے ناریل فروخت کر کے پیسے اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا ۔ 10 اگست کے ہندو اخبار میں اس خاتون کی کہانی (I am) کالم میں شائع ہوئی ہے ۔ اس عورت کی کہانی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اگر آج بھی ہمارے معاشرے کی ہر ماں فیصلہ کرلے کہ میری گود میں کسی چور کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوگی اور میری کوکھ سے کوئی ایسا جنم نہیں لے گا جو اکل حلال کو کمتر سمجھے گا، تب ہی ہم اچھے دور کی شروعات کی توقع کرسکتے ہیں، ورنہ معلوم نہیں ہمارا یہ خواب غفلت ہمیں کہاں لے جاکر چھوڑے گا۔ بقول علامہ اقبال ؂
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسّال کابل سے کفن جاپان سے

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

The price of success is hard work, dedication and the determination. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں