کہاجاتا ہے کہ پولیس ایکشن کے دوران بالخصوص مراہٹواڑہ کے علاقوں عثمان آباد ، عمرگا، لاتور کے علاوہ ہمناآباد ، بیدر میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایاگیا ۔ خاص کر مراہٹواڑہ میں مسلمانوں کا نہ صرف قتل عام کیا گیا بلکہ کئی ایسے واقعات پیش آئے جہاں مسلم لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی ۔ انہیں کئی کئی دن مختلف مقامات پر رکھتے ہوئے ظالموں نے شیطان کو بھی شرمندہ کردیا ۔ خواتین اور لڑکیاں اپنی عصمتیں بچانے کے لئے باولیوں میں کود پڑیں اور کافی دنوں تک ان شہیدوں کی نعشیں باولیوں میں ہی پڑی رہیں ۔ انضمام کے جشن کے نام پر اشرار نے کئی گاؤں اور قصبوں میں داخل ہوکر مردوں کو قطاروں میں ٹھہراکر گولیاں ماردیں ۔ یہاں تک کہ شہداء کی نعشوں کو جلا دیا گیا ۔ شوہر کو بیویوں کے سامنے بیٹوں کو ماؤں کے سامنے قتل کیا گیا ۔ ہزاروں بد نصیب ایسے بھی تھے جنہیں دو گز کفن بھی نصیب نہ ہوسکا ۔ سرکاری اعدا د وشمار میں پولیس ایکشن کے دوران مرنے والوں کی تعداد کم بتائی جاتی ہے ، لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو نے پولیس ایکشن میں مظالم کی تحقیقات کے لئے جو3رکنی کمیٹی پنڈت سند ر لعل کی قیادت میں قائم کی تھی اس نے اپنی رپورٹ میں ہلاکتوں کی تعداد40ہزار بتائی ہے ، جب کہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق2لاکھ سے زائد مظلوموں کا قتل عام ہوا۔
جہاں تک آپریشن پولوکا سوال ہے اسے انانیت ، بربریت اور نفرت کی بنیاد پر کی گئی کارروائی کہاجاسکتا ہے۔ مملکت حیدرآباد دکن کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس وقت حیدرآباد میں پولو کے کم از کم17بڑے بڑے میدان تھے جب کہ ہندوستان کی کسی ویسی ریاست میں اتنی تعداد میں پولو گراؤنڈ کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا ۔ انہی پولو میدانوں کے نام پر انڈین یونین فورس نے اس کارروائی کو آپریشن پولو کا نام دیا ۔ کارروائی سے قبل اور بعد میں سازشوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ رضاکاروں نے تباہی مچائی اس کا جواب دیا گیا ۔ جب کہ تاریخی حقائق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں تھا بلکہ مملکت آصفیہ کے خلاف یہ بہت بڑی عالمی سازش کا ایک حصہ تھا کیونکہ خلافت عثمانیہ مملکت حیدرآباد منتقل ہونے والی تھی اور حیدرآباد کو عالم اسلام میں ایک فلاحی مملکت کی حیثیت سے دیکھاجاتا تھا ۔ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کو اس موقع پر اقوام متحدہ ہندوستان کے فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ ذہنوں اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے دھوکہ کا سامنا کرنا پڑا اور1724میں نظام الملک آصفجاہی کی قائم کردہ حکمرانی کا ان سازشوں تباہیوں اور بربادیوں کے بیچ خاتمہ ہوگیا۔
جہاں تک حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں اور دیگر آصفجاہی حکمرانوں کی رعایا پروری کی بات ہے ۔ آج بھی ان کے طرز حکمرانی کی سارے ہندوستان میں مثال نہیں دی جاسکتی ۔ ان کی حکومت میں ہندو مسلم شیروشکر کی طرح زندگی بسر کررہے تھے۔ ترقی و خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت ملک کی دیگر دیسی ریاستیں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں حیدرآباد دکن میں الکٹریسٹی کا معقول انتظام تھا جس وقت ملک کی دوسری دیہی ریاستیں ایر لائنز کا تصور بھی ں ہیں کرسکتی تھیں اس وقت مملکت حیدرآباد نے اپنی ایر لائنز قائم کرلی تھی ۔ اس طرح ٹیلی کمیونیکیشن ریلوے نٹ ورک ڈاک نظام ریڈیو براڈ کاسٹنگ ہر شعبہ میں اس کی ترقی مثالی تھی ۔ جب کہ یہاں کے آبپاشی پراجکٹس کی مثالیں دنیا کے دیگر ممالک بھی دیا کرتے تھے ۔ بہر حال پولیس ایکشن کے دوران فرقہ پرستوں نے جو تباہی مچاہی اس کے باوجود وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے ۔
Fall of Hyderabad - the result of communal minds atrocities
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں