سقوط حیدرآباد - فرقہ پرست ذہنوں کی انانیت - ظلم و بربریت کا نتیجہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-17

سقوط حیدرآباد - فرقہ پرست ذہنوں کی انانیت - ظلم و بربریت کا نتیجہ

hyderabad state merger with indian union
مملکت حیدرآباد دکن کے لئے ستمبر1948تباہیوں و بربادیوں کی داستان لے کر آیا تھا۔13تا17ستمبر اور پھر حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کے نام پر جو آپریشن پولو شروع کیا گیا اس میں سرف اور صرف مسلمانوں کی تباہی و بربادی ہوئی اور دنیا میں سب سے خوشحال اسلامی مملکت اور ہندوستانی ریاست میں آصفجاہی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ پولیس ایکشن کی تباہی و بربادی اور جس انداز میں معصوموں کا قتل عام کیا گیا اس کا اندازہ دلوں کو دہلادینے والے ان واقعات سے لگایاجاسکتا ہے جس میں لاکھوں مسلم مردوں کو قتل کیا گیا۔ خواتین کی عصمت ریزی کی گئی ۔ ان کی جائیدادوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔ یہ کوئی فسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے، مملکت دکن میں پولیس ایکشن کے نام پر کی گئی فوجی کارروائی کے دوران ایسے ہی واقعات رونما ہوئے ۔ اگرچہ اس کارروائی کو آپریشن پولو کا نام دیا گیا لیکن اس کے پیچھے شر پسندغنڈوں نے جو کھیل کھیلا اسے یاد کر کے بھی لوگ کانپ جاتے ہیں۔ بزرگ شہریوں اور تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کو آزادی نصیب ہونے کے بعد ملک کے پہلے نائب وزیر اعظم ووزیر داخلہ سردار پٹیل کی نظر ان ریاستوں پر پڑی جہاں نواب ، راجہ اور راجوڑ حکومت کررہے تھے ۔ ویسے اس وقت ہندوستان اور پاکستان میں جملہ565ویسی ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں میں سب سے خوشحال، رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑی اور ترقی یافتہ ریاست مملکت حیدرآباد دکن ہی تھی ۔ اس کا رقبہ82.698مربع میل یعنی 214.190کیلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق مملکت دکن کی آبادی اس وقت16.34ملین تھی جس میں80فیصد سے زائد آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی لیکن آصفجاہی حکمرانوں نے ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کو اہمیت دیتے ہوئے ہندوستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ مملکت دکن میں انسانیت کو اہمیت دی جاتی ہے بہر حال مملکت دکن کی انڈین یونین میں انضمام کے لئے جو آپریشن پولو کیا گیا اس کا فرقہ پرستوں نے بھرپور فائدہا ٹھایا اور ایسی تباہی مچائی کہ ہندوستان کی تاریخ میں تباہی و بربادی کے ایسے واقعات بہت کم ہی ملیں گے۔
کہاجاتا ہے کہ پولیس ایکشن کے دوران بالخصوص مراہٹواڑہ کے علاقوں عثمان آباد ، عمرگا، لاتور کے علاوہ ہمناآباد ، بیدر میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایاگیا ۔ خاص کر مراہٹواڑہ میں مسلمانوں کا نہ صرف قتل عام کیا گیا بلکہ کئی ایسے واقعات پیش آئے جہاں مسلم لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی ۔ انہیں کئی کئی دن مختلف مقامات پر رکھتے ہوئے ظالموں نے شیطان کو بھی شرمندہ کردیا ۔ خواتین اور لڑکیاں اپنی عصمتیں بچانے کے لئے باولیوں میں کود پڑیں اور کافی دنوں تک ان شہیدوں کی نعشیں باولیوں میں ہی پڑی رہیں ۔ انضمام کے جشن کے نام پر اشرار نے کئی گاؤں اور قصبوں میں داخل ہوکر مردوں کو قطاروں میں ٹھہراکر گولیاں ماردیں ۔ یہاں تک کہ شہداء کی نعشوں کو جلا دیا گیا ۔ شوہر کو بیویوں کے سامنے بیٹوں کو ماؤں کے سامنے قتل کیا گیا ۔ ہزاروں بد نصیب ایسے بھی تھے جنہیں دو گز کفن بھی نصیب نہ ہوسکا ۔ سرکاری اعدا د وشمار میں پولیس ایکشن کے دوران مرنے والوں کی تعداد کم بتائی جاتی ہے ، لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو نے پولیس ایکشن میں مظالم کی تحقیقات کے لئے جو3رکنی کمیٹی پنڈت سند ر لعل کی قیادت میں قائم کی تھی اس نے اپنی رپورٹ میں ہلاکتوں کی تعداد40ہزار بتائی ہے ، جب کہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق2لاکھ سے زائد مظلوموں کا قتل عام ہوا۔
جہاں تک آپریشن پولوکا سوال ہے اسے انانیت ، بربریت اور نفرت کی بنیاد پر کی گئی کارروائی کہاجاسکتا ہے۔ مملکت حیدرآباد دکن کی ترقی اور خوشحالی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اس وقت حیدرآباد میں پولو کے کم از کم17بڑے بڑے میدان تھے جب کہ ہندوستان کی کسی ویسی ریاست میں اتنی تعداد میں پولو گراؤنڈ کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا ۔ انہی پولو میدانوں کے نام پر انڈین یونین فورس نے اس کارروائی کو آپریشن پولو کا نام دیا ۔ کارروائی سے قبل اور بعد میں سازشوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ رضاکاروں نے تباہی مچائی اس کا جواب دیا گیا ۔ جب کہ تاریخی حقائق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں تھا بلکہ مملکت آصفیہ کے خلاف یہ بہت بڑی عالمی سازش کا ایک حصہ تھا کیونکہ خلافت عثمانیہ مملکت حیدرآباد منتقل ہونے والی تھی اور حیدرآباد کو عالم اسلام میں ایک فلاحی مملکت کی حیثیت سے دیکھاجاتا تھا ۔ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کو اس موقع پر اقوام متحدہ ہندوستان کے فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ ذہنوں اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے دھوکہ کا سامنا کرنا پڑا اور1724میں نظام الملک آصفجاہی کی قائم کردہ حکمرانی کا ان سازشوں تباہیوں اور بربادیوں کے بیچ خاتمہ ہوگیا۔
جہاں تک حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں اور دیگر آصفجاہی حکمرانوں کی رعایا پروری کی بات ہے ۔ آج بھی ان کے طرز حکمرانی کی سارے ہندوستان میں مثال نہیں دی جاسکتی ۔ ان کی حکومت میں ہندو مسلم شیروشکر کی طرح زندگی بسر کررہے تھے۔ ترقی و خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ جس وقت ملک کی دیگر دیسی ریاستیں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں حیدرآباد دکن میں الکٹریسٹی کا معقول انتظام تھا جس وقت ملک کی دوسری دیہی ریاستیں ایر لائنز کا تصور بھی ں ہیں کرسکتی تھیں اس وقت مملکت حیدرآباد نے اپنی ایر لائنز قائم کرلی تھی ۔ اس طرح ٹیلی کمیونیکیشن ریلوے نٹ ورک ڈاک نظام ریڈیو براڈ کاسٹنگ ہر شعبہ میں اس کی ترقی مثالی تھی ۔ جب کہ یہاں کے آبپاشی پراجکٹس کی مثالیں دنیا کے دیگر ممالک بھی دیا کرتے تھے ۔ بہر حال پولیس ایکشن کے دوران فرقہ پرستوں نے جو تباہی مچاہی اس کے باوجود وہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے ۔

Fall of Hyderabad - the result of communal minds atrocities

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں