مہاراشٹرا میں مسلم ارکان اسمبلی کی گھٹتی تعداد تشویشناک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-29

مہاراشٹرا میں مسلم ارکان اسمبلی کی گھٹتی تعداد تشویشناک

ممبئی
یو این آئی
ریاست مہاراشٹرا میں مسلم اراکین اسمبلی کی دن بدن گھٹتی تعداد تشویشناک ضرور ہے لیکن ریاست کے سیاسی افق پر آئے حالیہ سیاسی بھونچال سے مسلم رائے دہندگان فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور مسلم اراکین اسمبلی کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ان خیالات کاا ظہار آج یہاں ریاست کے علمائے کرام اور دانشوروں نے کیا۔ جنہوں نے شوسینا ، بی جے پی اور کانگریس اور این سی پی اتحاد کا شیرازہ بکھرنے کے واقعہ کا مسلمانوں کے لئے سود مند قرار دیا ۔ پارچہ بافی شہر مالیگاؤں سے تعلق رکھنے والے سینئر اردو صحافی انصاری احسان الرحیم کا کہنا ہے کہ ریاست کی ایک طرح سے تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے ساتھ نا انسافی کی ہے اور انہیں ان کی آبادی کے تناسب سے ٹکٹ نہیں دئیے ۔ خود کانگریس جسے مسلمانوں کے سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوتے ہیں اس نے بھی محض 16مسلمانوں کو ہی ٹکٹ دیئے جب کہ آبادی کے تناسب سے کم از کم28نشستوں پر مسلم نمائندوں کو کھڑا کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے این سی پی ، شیو سینا، بی جے پی اور ایم این ایس نے بھی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی نہیں دی ۔ انصاری احسان الرحیم مزید کہتے ہیں کہ مسلم امیدواروں کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ برادر وطن کے اس تعداد میں انہیں ووٹ نہیں حاصل ہوتے جتنے دیگر امیدواروں کو حاصل ہوتے ہیں ۔ نیز سیکولر ووٹ بھی تقسیم ہوجاتے ہیں ، یہ ایک سب سے بڑی وجہ ہے جس سے مسلم نمائندگی کم ہوتی جارہی ہے ۔
نامور سماجی خادم محمود حکیم نے کہا کہ ریاست میں جاری سیاسی رسہ کشی کے درمیان مسلمانوں کو دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے امیدواروں کو ووٹ دینا چاہئے جو مسلمان ہو یا پھر سیکولر ہو لیکن وہ مسلم نمائندگی کا حق ادا کرے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی سیکولر سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو ۔ خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے سینئر رکن شبیر سوم جی نے کہا کہ حالیہ انتخابات ریاست کے مسلمانوں کے لئے ایک امتحان کی گھڑی ہے کیونکہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے امیدوار قسمت آزمائی کررہے ہیں اور سہ رخی مقابلہ ہونے کی وجہ سے مضبوط مسلم امیدوار کو اگر مسلمانوں نے ہی صرف ایک رائے ہوکر ووٹ دئیے تو یہ مسلم نمائندگی میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں ۔ سابق پولس افسر شمشیر خان پٹھان نے کہا کہ ممبئی کی ممبا دیوی سیٹ کو کانگریس سمیت تمام پارتیاں مسلم سیٹ مانتی ہیں۔ کیونکہ یہاں ایک لاکھ پچیس ہزار مسلم رائے دہندگان موجود ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی ممبئی کے مضافات میں دو ایسی نشستیں ہیں جہاں مسلم رائے دہندگان کی تعداد ممبا دیوی کے مقابلے میں انیس بیس ہے لہذا ایسے انتخابی حلقوں کے مسلمانوں کو بلا تفریق سیاسی پارٹی ایک پلیٹ فارم پر ہوکر متحد فیصلہ کرنا چاہئے نیز جب تک مسلمانوں کو اقتدار میں حصہ حاصل نہیں ہوگا تب تک مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوپائیں گے ۔
واضح رہے کہ ریاست کا شمار ملک کے چوتھے نمبر کی سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست میں ہوتا ہے۔ اتر پردیش ، ویسٹ بنگال ، اوربہار کے بعد مہاراشٹرا کا ہی نمبر آتا ہے جہاں کی آبادی9تا10فیصد ہے ۔ مہاراشٹرا میں12اراکین اسمبلی مسلم تھے جب یہ تعداد2000میں11ہوگئی اور2009کے انتخابات میں بھی10مسلم اراکین اسمبلی منتخب ہوئے جن میں سے6اراکین کا تعلق عروس البلاد ممبئی سے بقیہ4اراکین کا تعلق اندورن مہاراشٹر سے ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھگوا سیاسی پارٹیوں کے امیدوار ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ۔ سیکولر جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان گھمسان سے مقابلہ کافائدہ براہ راست مسلم رائے دہندگان کا ہوسکتا ہے ۔ اور اگر وہ متحد ہوکر کسی مسلم امیدوار کے حق میں اپنے جمہوری حق کااستعمال کرتے ہیں تو یقیناًمسلم نمائندگی میں اضافہ ہوگا۔

مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات میں7ہزار امید وار میدان میں
ممبئی سے پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب مہاراشٹرا اسمبلی کے15اکتوبر کو منعقد شدنی انتخابات کے لئے زائد از7401امیدواروں نے پرچہ جات نامزدگیاں داخل کئے ہیں۔288حلقوں میں5رخی مقابلہ متوقع ہے ۔ پرچہ نامزدگی کے ادخال کی کل آخری تاریخ تھی ۔ ریاستی الکٹورل آفس کے مطابق تقریباً7401امیدواروں نے اپنے پرچے داخل کئے ہیں۔ چند حلقوں سے امید واروں کی قطعی فہرست انتخابی دفتر کو ابھی تک موصول نہیں ہوئی ہے ۔ سب سے زیادہ91نامزدگیاں ناندیڑ ساؤتھ حلقہ سے داخل کی گئیں جب کہ سب سے کم9نامزدگیاں گوہا نگر(رتنا گری) ماہم(ممبئی) اور کدل( سندھودرگ)سے داخل کی گئی ہیں۔ کانگریس انتخابی مہم کمیٹی کے سربراہ نارائن رانے کدل حلقہ سے مقابلہ کررہے ہیں ۔نامزدگیوں کے ادخال کے کل آخری دن چیف منسٹر پرتھوی راج چوان ، وزیر داخلہ آر آر پاٹل نے اپنے پرچے داخل کئے ۔ چوان نے کردساؤتھ سے پرچہ داخل کیا۔1999کے لوک سبھا انتکابات میں کرد سے شکست کے بعد چوان کا یہ پہلی انتخابی جنگ ہے جہاں سے وہ 3مرتبہ نمائندگی کرچکے ہیں ۔ ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں ۔، انہوں نے چند ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ ریاست کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیں گے ۔ کانگریس نے تمام288حلقوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ این سی پی نے286حلقوں سے امیدوار وں کو ٹکٹ دئیے ہیں ۔ بی جے پی نے257امیدوار میدان میں اتارے ۔
بی جے پی نے31حلقے اپنے حلیفوں کو دئیے ہیں ۔ شیو سینا سربراہ ادھو ٹھاکرے مقابلہ نہیں کررہے ہیں۔ اگرچہ ان کی پارٹی نے انہیں چیف منسٹر کے عہدہ کے دعویدار کے طور پر پیش کیا ہے۔ شیو سینا نے286حلقوں کی فہرست جاری کی ہے۔ شیو سینا نے جن دو حلقوں سے امید کھڑے کئے ہیں ان میں پرلی سے گوپی ناتھ منڈے کی دختر پنکارہ امیدوار ہیں جب کہ بیکلا سے ارون گوری کی دختر گیتا مقابلہ کررہی ہیں۔ پرچہ جات نامزدگی کی تنقیح29ستمبر کو ہوگی جب کہ دستبرداری کی آخری تاریخ30ستمبر تک مقرر ہے ۔ مجلس اتحاد المسلمین بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور25حلقوں سے اپنے امیدوار ٹھہرائے ہیں ۔

Decreasing number of Muslim MLAs in Maharashtra

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں