یوم آزادی تقریب - قلعہ گولکنڈہ کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی کوشش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-05

یوم آزادی تقریب - قلعہ گولکنڈہ کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی کوشش

حیدرآباد
آئی اے این ایس
یوم آزادی تقریب قلعہ گولکنڈہ میں منعقدکرنے حکومت تلنگانہ کے فیصلہ نے تاریخی قلعہ کو پھر ایک بار سب کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے ۔ یہ قلعہ مسلسل حکومتوں کی جانب سے نظر انداز کئے جانے اور غیر مجاز قبضوں کے بعد اپنی خسہ حالی کو پہنچ چکا ہے ۔ جاریہ سال2جون کو ملک کی 29ویں ریاست کی حیثیت سے منصۂ شہود پر آنے کے بعد یہ تلنگانہ کا پہلا یوم آزادی ہے اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تہذیبی ورثہ کی دولت سے مالا مال تلنگانہ کی ایک بڑی یادگار قلعہ گولکنڈہ میں قومی پرچم لہرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے جوکے سی آر کے نام سے مقبول ہیں ۔ سکندر آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں یوم آزادی تقریب منانے کئی دہوں قدیم روایت کو الوداع کہہ دیا ہے۔ کئی ممتاز شہریوں اور ماہرین آثار قدیمہ نے ٹی آر ایس کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ اقدام صرف علامتی نہیں ہوگا بلکہ ٹی آر ایس حکومت گولکنڈہ قلعہ کی عظمت رفتہ کو بحال کرے گی اور اس سلسلہ میں اسے یونیسکو کے عالمی تہذیبی ورثہ کا درجہ دلائے گی ۔ اس طرح نہ صرف قلعہ کا تحفظ ہوجائے گا بلکہ اس کا مستقبل بھی محفوظ ہوجائے گا۔ آثار قدیمہ کے تحٖفظ کے لئے کام کرنے والی ایک ممتاز جہد کارپی انورادھا ریڈی نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ چیف منسٹر کا فیصلہ ایک نئی شناخت کے ساتھ جشن منانا ہے ۔ یہ شناخت ایک تاریخی شناخت ہے جسے ہم نے فراموش کردیا تھا۔ یوم آزادی تقریب منانے قلعہ گولکنڈہ کا انتخاب اہمیت کا حامل ہے ۔ انورادھا ریڈی کا ماننا ہے کہ اس فیصلہ سے تلنگانہ کی دنیا بھر میں شناخت کے لئے تاریخی یادگاروں کے رول کو بڑھاوا ملے گا۔ ان کا احساس ہے کہ سیاحتی نقطہ نظر سے بھی تاریخی گولکنڈہ کی اہمیت میں اضافہ ہوجائے گا ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تلنگانہ کی کئی غیر دریافت شدہ یادگاریں بھی اب منظر عام پر آئیں گی اور انہیں ایک مسلمہ حیثیت عطا کرنے میں یہ پہلا قدم ہوگا۔ امید ہے کہ حکومت اپنے علامتی اقدام کو ایک وسیع پروگرام میں تبدیل کردے گی جس کے ذریعہ تلنگانہ کے تہذیبی ورثہ کی عظمت کو بحال کیاجاسکے گا ۔
انورادھا ریڈی دی انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچر ہیرٹیج( گریٹر حیدرآباد چیاپٹر) کی کنوینر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئی حکومت تہذبی ورثہ کی قدروقیمت کو ایک مقام عطا کرنا چاہتی ہے ۔ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت تہذیبی ورثہ کے تحفظ کے لئے صحیح سمت میں کام کرے ۔ قلب شہر حیدرآباد کے مغرب میں10کلو میٹر دور400میٹر بلند پہاڑی پر موجود یہ قلعہ کا کتیہ حکمرانوں نے تعمیر کی اتھا ۔ قلعہ کی تعمیر گچی سے کی گئی تھی۔ جنوبی دفاعی پروگرام کے تحت اس کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔ قطب شاہی سلطنت میں اس کی توسیع و ترقی عمل میں آئی ۔ یہ قلعہ1590تک قطب شاہی سلطنت کے دارالحکومت کے طور پر کام دیتا رہا۔ اس کے بعد صدر مقام حیدرآباد کو منتقل کردیا گیا۔ قلعہ کے اطراف10کلو میٹر طویل فصیل ہے ۔ اس کے 8دروازے ہیں جب کہ4خندقیں ہیں ۔ قلعہ میں کئی شاہی دربار ، منادر، مساجد اسلحہ خانے اور اصطبل موجود تھے ۔ کئی دہوں تک اسے نظر اندا ز کردیا گیا ۔ اس کے تحفظ کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اور غیر مجاز قبضوں نے اسے سیکٹر دیا۔ اس طرح اس کے تہذیبی ورثہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ گیا ۔ قطب شاہی باد شاہوں نے اس پر170برس حکومت کی تھی ۔ ایک زمانہ میں ناقابل تسخیر سمجھاجانے والا یہ قلعہ ہیروں کی تجارت کے لئے بھی مشہور تھا ۔ مورخین کے بموجب گولکنڈہ ہیروں کی تجارت کے لئے عالمی دروازہ سمجھاجاتا تھا۔ دنیا بھر میں مشہور ہیرے گولکنڈہ سے ہوکر ہی اپنی عالمی منزلوں تک پہنچنے تھے ۔ مشہور زمانہ کوہ نور ہیرا یہیں سے نکلا۔ جب غیاث الدین بلبن نے1323میں کاکتیہ راجاؤں کو شکست سے دو چار کیا تو وہ کوہ نور کو اپنے ساتھ لے گیا ۔ اس کے بعد کئی بادشاہوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا یہ ہیرا1850میں برطانیہ کی ملکہ کے تاج میں جڑ گیا ۔ تب سے یہ ہیرا وہیں ہے ۔ مورخین اور آثار قدیمہ کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے جہد کاروں کا طویل عرصہ سے مطالبہ ہے کہ قلعہ گولکنڈہ کو یونیسکو ورلڈ ہیرٹیج کا درجہ عطا کیاجائے ۔ مرکزی وزارت ثقافت اور یونیسکو کے ادارہ انٹر نیشنل کونسل برائے یادگار مقامات کے ارکان نے2012میں قلعہ کا دورہ کیا تھا۔ اس مقع پر انورادھا ریڈی بھی موجود تھیں ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس وقت کی حکومت نے قلعہ کو تہذیبی ورثہ کا درجہ دلانے یونیسکو کی شرائط پوری کرنے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئی حکومت اس سلسلہ میں ضروری اقدامات کرے گی۔ قلعہ گولکنڈہ کو عالمی تہذیبی ورثہ کا درجہ دلانے کی کوششوں میں غیر مجاز قبضے بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ کئی جہد کار قلعہ کے بالکل قریب ایک وسیع و عریض گولف کورس کی تعمیر کی بھی سختی سے مخالفت کررہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قلعہ کی بنیادوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں