انہوں نے سوال اٹھایا کہ بی جے پی کیوں اور اس کے ہندوتوکے ملحقہ تنظیمیں اس معاملہ کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے اور خاص طور پر مغربی اترپردیش میں انتخابی فوائد حاصل کرنے کے لیے فرقہ وارانہ مسائل کو ہوا دے رہے ہیں ؟ قومی صدر اے سعید نے اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ سنگھ پریوار مذہب کے نام پر سیاست کرکے خواتین کے حقوق کو کچلنا چاہتا ہے۔ سری راما سینا سے لیکر بابو بجرنگی اور ہم خیال عناصر جو مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کا ذمہ دار ہیں وہ سب اس بنیادپر اپنا کام کرتے ہیں کہ عورتیں مردوں کی ملکیت ہیں اور ان کی زندگیوں پر مردوں کا کنٹرول ہونا چاہئے۔ سچائی یہاں مسئلہ نہیں ہے، بلکہ معاشرے کی سوچ میں افسانوی تصور کو تھونپا جارہا ہے۔ اس قسم کے سماجی سوچ کو آر ایس ایس اور اس کے ملحقہ تنظیمیں گھر گھر پہنچ کر فرقہ وارانہ نفرت کا زہر پھیلانے کے مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ پنچایتوں کو متحرک کرکے کھلے عام اسلحہ جات کی نمائش کرکے مظفر نگر فسادات کی سازش کی گئی ہے۔ مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے نہ صرف "ہماری عورتیں اور تمہاری عورتیں"کا حربہ استعمال کیا گیا ہے بلکہ مظفر نگر فسادات سے قبل ہندو مسلم برادریوں میں اختلافات اور دوریاں پیداکرنے کے لیے مختلف اشتعال انگیز سرگرمیوں کا سہار ا لیا گیا ہے۔ قومی صدر اے سعید نے مزید کہا ہے کہ جس طرح کی اشتعال انگیزمہم موجودہ دور میں چلائی جارہی ہے وہ اتر پردیش میں سن 1920میں ہندو تجدیدی منصوبوں کے مہم سے مماثلت رکھتی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ سن 1920 میں ہندو آریہ سماج اور دیگر ہندو تجدید کارتنظیموں نے "اغوا" اور مذہبی تبدیلی کے نام پر ایک مہم کا آغاز کیا تھا، جس سے وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے اخباری اعلامیہ میں مزید کہا ہے کہ جہاد اور محبت کے دو متضاد عقائد کو منسلک کرکے سنگھ پریوار نے ایک نئے تازہ ترین صفت " لو جہاد" کے نام سے ایجاد کیا ہے۔ جس سے وہ ہندو مسلم برادری کے درمیان مذہبی منافرت پھیلانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ سن 2009میں کیرلا ہائی کورٹ اور سن 2010میں کرناٹک ہائی کورٹ نے پولیس کو کہا تھا کہ وہ "لو جہاد "کے تعلق سے تحقیقات کریں، تاہم دونوں معاملات میں پولیس نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ مسلم لڑکوں کے طرف اس طرح کی کوئی منظم تحریک موجود نہیں ہے۔ دریں اثناء انہوں نے سوال اٹھا یا کہ سن 2004میں اندور کی عدالت میں پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق سابق فلم اسٹار اور بی جے پی لیڈر دھرمیندر نے اداکارہ ہیما مالنی جو اب بی جے پی کی رکن پارلیمان ہیں ان سے شادی کی تھی۔ کیا اس معاملہ میں دھرمیندر جہادی نہیں ہیں ؟ دھرمیندر کو اس محبت کے جرم میں کیا سزا دیا جانا چاہئے اس کا فیصلہ سنگھ پریوار کو کرنا چاہئے۔ این ڈی ٹی وی کے طرفسے حاصل کردہ اعدادو شمار کے مطابق مغربی اتر پردیش میں جہاں مسلمان مردوں کی طرف سے ہندو خواتین کے مبینہ غلط استعمال کے الزام کی حقیقت سے پردہ اٹھا یا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ امسال خواتین کو خود انہیں کے برادری کے مردوں نے حملہ کیا ہے اور ان کی عصمت دری کی ہے۔ اتر پردیش کے 9اضلاع میں 334عصمت دری کے مقدمات میں 25مقدمہ میں مسلم مرد ملزم ہیں اور ہندوخواتین متاثر ین میں شامل ہیں۔ 23مقدمات میں ہندو مرد ملزم ہیں اور مسلم خواتین متاثریں میں شامل ہیں۔ 96مقدمات میں مسلم مرد ملزم ہیں اور مسلم خواتین متاثر ین میں شامل ہیں۔ اسی طرح 109عصمت دری کے مقدمات میں ہندو مرد ملزم ہیں اور ہندو خواتین متاثرین میں شامل ہیں۔ قومی صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ دو فرقوں کے درمیا ن نفرت پھیلانے والے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑ ا کیا جانا چاہئے۔ لیکن ملک کو چلانے والے سربراہان اس لیے خاموش ہیں کہ ان سماج دشمن عناصر کی ملی بھگت سے ان کو فائدہ حاصل ہورہا ہے۔ یہ سوچ اور منطق صحیح نہیں ہے کہ مسلمان ، مسلم نوجوانوں کو یہ ترغیب دینگے کہ وہ ہندو لڑکیوں سے شادیاں کریں کیونکہ کوئی مسلمان باپ یہ نہیں چاہے گا اس لڑکا ہندو لڑکی سے شادی کرلے اور مسلم لڑکوں کی عدم دستیابی سے ان کی بیٹیاں غیر شادی شدہ ہی بیٹھی رہیں۔قومی صدر اے سعید نے آخر میں کہا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بھارت کے تمام فرقوں کی ترقی کے لیے کام کریں گے، لیکن وہ "لو جہاد"کے معاملے میں بالکل خاموش ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں اپنے موقف کی وضاحت کریں ، تاکہ اس ملک میں ہندو اور مسلم برادری ہم آہنگی سے زندگی بسر کرسکیں۔
defaming Muslims in the name of Love-Jihad is objectionable: SDPI
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں