لیبیا میں جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کے وفد کے مذاکرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-10

لیبیا میں جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کے وفد کے مذاکرات

نیویارک
پی ٹی آئی
اقوام متحدہ کے ایک وفد نے لیبیا میں متحارب ملیشیا گروپوں کے مابین فائر بندی کے لئے مذاکرات کیے ہیں۔ بات چیت کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ خونریز لڑائی میں مصروف حریف مسلح گروپوں کو اپنی کارروائیاں روک دینے پر آمادہ کرنا ہے ۔ مسلسل مسلح جھڑُوں میں مصروف ملیشیا گروپوں کی وجہ سے خاص طور پر دارالحکومت طرابلس اور بن غازی کے شہر میدان جنگ بن چکے ہیں۔ اس مذاکراتی وفد کی قیادت لیبیا میں عالمی ادارے کے مشنUNSMILکے ایک نمائندے نے کی۔ عالمی ادارے کے لیبیا مشن کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اقوام متحدہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اس شمالی افریقی ملک میں دیر پا فائر بندی کے لئے بھرپور کوششیں کررہا ہے ۔ لیبیا کے کئی شہروں میں مختلف ملیشیا گروپوں کے مابین حالیہ خونریزی سے وہاں پائی جانے والی سیاسی تقسیم اور بھی شدت اختیا ر کرگئی ہے ۔ اسی خونریزی اور سیاسی تقسیم کے پس منظرمیں جمعے کے روز طرابلس، بن غازی اور مصراتہ میں ہزارہا افراد نے نومنتخب مالکی پارلیمان کے خلا ف مظاہرے کیے۔ اس نئی پارلیمان سے مغربی دنیا کو امید ہے کہ وہ ملک میں مصالحتی عمل میں معاون ثابت ہوسکے گی ۔UNSMILکے بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے وفد کے مذاکرات کا مقصد لیبیا میں خونریزی کا خاتمہ ، اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی واپسی میں مدد کرنا اور اشیائے خوراج سمیت بنیادی سہولیات کی پریشان کن صورتحال کو بہتر بنانا ہے ۔ لیبیا کو اس وقت جس خونریزی کا سامنا ہے ، اس کے پیش نظر اقوام متحدہ اور زیادہ تر مغربی ممالک اس عرب ریاست سے اپنے سفارتکاروں کو واپس بلاچکے ہیں ۔ موجودہ خونریز جھڑُپیں لیبیا میں تین سال قبل معمر قذافی کی اقتدار سے بر طرفی کے بعد سے اب تک کی سب سے ہلاکت خیز جھڑپیں بن چکی ہیں ۔ طرابلس میں جمعے کا دن مقابلتاً پرسکون رہا لیکن حریف ملیشیا گروپوں کے مابین وقفے وقفے سے شیلنگ کا تبادلہ پھر بھی جاری رہا ۔
یہ لڑائی مصراتہ بریگیڈز کہلانے والے اسلام پسند اتحادیوں اور مغربی شہر زنتان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے اس گروپ کے ارکان کے مابین ہورہی ہے ، جسے طرابلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا کنٹرول بھی حاصل ہے ۔ سابق آمر معمر قذافی کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد سے ملک کی انتہائی کمزور حکومت ان سابق باغیوں کے گروپوں کو ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہی ہے ، جو مختلف ملیشیا گروپوں کے طور پر خود کو تحلیل کرنے سے انکاری ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ اور دیگر گروپ ایسے بھی ہیں جو ایک دوسرے کے حریف ہیں ، اور لیبیا میں بعد از جنگ دور میں اپنے لئے زیادہ اثرورسوخ اور غلبے کے لئے کوشاں ہیں۔ اسی دوران لیبیا میں ایک نو منتخب پارلیمان تو وجود میں آچکی ہے ، جو جنرل نیشنل کانگریس کی جگہ لے چکی ہے لیکن خود اس پارلیمان کے لئے بھی یہ ممکن نہیں کہ اس کا اجلاس دارالحکومت طرابلس میں ہوسکے ۔اب تک اس پارلیمان کے اجلاس مسلح جھڑپوں کی زد میں آئے ہوئے دونوں بڑے شہروں سے دور طبرق کے مشرقی شہر میں ہوئے ہیں ۔ اس نئے ایوان نمائندگان کا مطالبہ ہے کہ لیبیا میں ایک متحدہ قومی حکومت قائم ہونی چاہئے ۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملک کی زیادہ تر اسلام پسند سیاسی قوتیں اس ایوان کے طبرق میں ہونے والے اجلاسوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کرتی ہیں ۔ اس پس منظر میں لیبیا کے قائم مقام وزیر اعظم عبداللہ الثنی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اس وقت ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑا ہے اور مغربی ملکوں کو لبیا کی فوج اور ریاستی اداروں کی تشکیل نو کے عمل میں بھرپور مدد کرنی چاہئے ۔

UN seeks Libya ceasefire talks; protesters oppose Congress

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں