اتر پردیش میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی قابل مذمت اور قابل تشویش - ایس ڈی پی آئی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-11

اتر پردیش میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی قابل مذمت اور قابل تشویش - ایس ڈی پی آئی

نئی دہلی
( پریس ریلیز)
سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے ریاست اتر پردیش میں بڑھتی ہوئی فرقہ وانہ کشیدگی اور منافرت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست جس ماحول سے دوچار ہے وہ قابل مذمت اور قابل تشویش ہے۔ خاص طور پر یہاں کی اقلیتی طبقات مسلمان ، سکھ اور دلت برادری کے درمیان جو فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے جو فسادات،آتش زنی اور قتل کے واردات رونما ہوئے ہیں اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ایس ڈی پی آئی نے الزام عائد کیا ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لیے اقلیتی طبقات کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کررہی ہیں ۔اس ضمن میں ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر اے سعید نے اترپردیش کے صورتحال پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور سماج وادی پارٹی نومبر میں ریاست اترپردیش کی 12ودھان سبھا نشستوں کے لیے ہونے والی ضمنی انتخابات کے مدنظر ووٹروں کو لبھانے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی میں مبتلا ہیں۔ پارٹی قومی صدر نے اپنے اخباری بیان میں اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ فروری میں اس وقت کے مرکزی وزیر آر پی این سنگھ نے راجیہ سبھا کو بتا یا تھا کہ سال 2013میں ریاست اترپردیش فرقہ وارانہ فسادات میں سر فہرست ہے ۔اس وقت اتر پردیش میں لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں ہورہی تھیں، جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب بھی انتخابات نزدیک ہوتے ہیں اترپردیش میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش میں مذہب کے نام پر تقسیم کا کام2014کے لوک سبھا انتخابات سے قبل شروع ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک 2017میں بی جے پی جیت نہیں جاتی۔ اتر پردیش میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں ، جس میں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ حکومت نچلی سطح تک ایک مخصوص ذات کے افسران پر زیادہ انحصار کرتی آرہی ہے اور حکومت ریاست اترپردیش میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے دیگر سیاسی پارٹیوں کو شامل کرنے سے گریز کررہی ہے۔ قومی صدر نے اس بات کی طرف خصوصی نشاندہی کی ہے کہ جن علاقوں میں دلت اور مسلمان ایک ساتھ رہتے ہیں، ان علاقوں میں اشتعال انگیز ی کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں فرقہ وارانہ تقسیم کی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا مئی16 اور25جولائی کے درمیانی مدت جس کے دوران بی جے پی نے لوک سبھا انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے، اس دوران 605چھوٹے موٹے فسادات ہوئے ہیں، جس کو پولیس نے فرقہ وارانہ فسادات قرار دیا ہے، ان فسادات میں تقریبا 200فسادات12حلقوں میں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں رونما ہوئے ہیں اور بقیہ 200فسادات دیگر علاقوں میں رونما ہوئے ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فاشسٹ عناصر نے ان فسادات میں دلتوں کو استعمال کیا ہے، جو فساد زدہ علاقوں میں املاک کوتباہ کرنے میں 70فیصد ملوث ہیں،اس کے علاوہ اترپردیش کے فسادات میں ایک نیا پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات میں شدت اب بنیادی طور پر یا مکمل طور پر دیہی علاقوں میں پھیل چکا ہے۔ افواہوں کے ذریعے بھی فسادات کو مزید بھڑکانے اور عوام میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرکے بھی فسادات کو مزید بھڑکا یا گیا ہے۔ متعدد واقعات ایسے بھی رونما ہوئے ہیں فرقہ وارانہ تشدد ایسے علاقوں میں فرقوں کے درمیان تقسیم کا باعث بنا ہے ، جہاں آپسی دشمنی کی نہ کوئی تاریخ رہی ہے ، بلکہ ان علاقوں میں دونوں فرقے کئی دہائیوں سے ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آرہے ہیں۔ قومی صدر اے سعید نے کہا ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی اور سماج وادی پارٹی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ بی جے پی سن 1989تا1996کے درمیان ہوئے اسمبلی انتخابات میں 57سے174اسمبلی سیٹیں اور لوک سبھا انتخابات میں 8سے52لوک سبھا سیٹیں پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اب 2014کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی لوک سبھا نشستیں کی تعداد بڑھ کر 73ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف سماج وادی پارٹی نے بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اس کی اپنی پہلی حکومت قائم کی ہے۔ سن 1993میں سماج وادی پارٹی نے 109اسمبلی سیٹیں جیتی تھیں اور سن 1996کے اسمبلی انتخابت میں معمولی اضافہ ہوا۔ لیکن اس کے بعد 16لوک سبھا نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ فی الحال اترپردیش میں 2012کے ودھان سبھا انتخابات میں 224سیٹوں میں شاندار کامیابی حاصل کرکے سماج وادی پارٹی حکمران جماعت ہے۔
قومی صدر اے سعید نے الزام عائد کیا ہے کہ اکھلیش حکومت اتر پردیش میں فسادات کو قابو میں لانے میں ناکام رہی اور بی جے پی رہنماؤں کے خلا ف کارروائی کرنے سے ڈرنے کی وجہ سے فساد زدہ علاقوں میں صورتحال اور بھی بدتر ہوگیا۔ ایس پی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اتر پردیش میں تقریبا 451فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئیں ہیں۔ یہ ملائم سنگھ یادو کی حکومت کی نااہلی ہے کہ وہ نہ فسادات کو کنٹرول کر سکے اور نہ ہی فسادات کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔ بجائے اس کے کہ فسادیوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے، ایس پی حکومت سیاسی چالبازی کے ذریعے اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھنے کے لیے اقلیتوں کے ساتھ دھوکہ دہی کررہی ہے۔ قومی صدر اے سعید نے اترپردیش کی مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ یو پی حکومت فسادات کو قابو میں لانے کے لیے مناسب کارروائی کرے اور مستقبل میں پر تشدد فسادات کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔انہوں نے کھلیش حکومت سے سختی سے مطالبہ کیا ہے کہ اکھلیش حکومت اپنے قوت ارادی کا ثبوت دیتے ہوئے ، ان خاطیوں پر کارروائی کرے چاہے وہ کوئی بڑا سیاسی لیڈر ہی کیوں نہ ہو ،تاکہ ریاست میں فسادات کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے اور ریاست میں امن و امان قائم کیا جاسکے۔

SDPI condemned rising communal tensions in Uttar Pradesh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں