سمینار - عصر حاضر کی اردو شاعری رحجانات و امکانات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-11

سمینار - عصر حاضر کی اردو شاعری رحجانات و امکانات

Seminar-trends-n-prospects-of-contemporary-Urdu-poetry
شہر حیدرآباد جنوبی ہند کا ایک عظیم ادبی مرکز ہے یہاں ہر آئے دن اردو کے فروغ اورٹکنالوجی سے اردو کو جوڑ نے کی متعداد سرگرمیاں انجام دی جاتی رہی ہیں۔جامعہ عثمانیہ کی ادبی خدمات نہ صرف حیدرآباد بلکہ ساری اردو دنیا میں اہمیت کی حامل رہی ہیں۔عصر حاضر کی اردو شاعری اور جدید رحجانات پر بات کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ حیدرآباد کی جدید یت سے وابستہ شعراء سے بھی واقفیت رکھی جائے۔سیلمان اریب،شاذ تمکنت ‘مخدوم محی الدین‘شمس الدین تابان،اقبال متین،مغنی تبسم،روف خلش،غیاث متین،اعتماد صدیقی،حسن فرخ،علی ظہیر،ڈاکٹر محسن جلگانوی ،روف خیر،یوسف آعظمی، علی الدین نوید یہ ایسے نام ہے جنہوں نے اردو شاعری کو عصری رحجانات سے ہم آہنگ کیاہے۔ ان میں سے چند شعراء کا تعلق ترقی پسند سے رہاہے لیکن جدیدیت کی طرف ان کا میلان بھی رہا ہے۔
شعبہ اردوجامعہ عثمانیہ حیدرآباد کی جانب سے بروز جمعہ 8 اگسٹ 2014کو اردو ہال حمایت نگر میں ایک روزہ قومی سمینار’’ عصر حاضر کی اردو شاعری،رحجانات وامکانات‘‘کا میاب انعقاد عمل میں لایا گیا۔اس سمینار کے آغاز کا وقت 3:30دوپہر مقرر تھا لیکن اختیاری تعطیل اور جمعہ کے پیش نظر سمینار کا آغاز ٹھیک6 بجے عمل میں آیا۔ وقت مقررہ سے ہی سامعین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔سمینار کی نظامت کیلئے جناب نذیر احمد صاحب صدر شعبہ اردو ویمنس کالج کوٹھی نے مائیک سنبھالہ اور سامعین کو ہال کے اندر تشریف لانے کی دعوت دی۔استقبالیہ وسمینار کے انعقاد کے مقصد اور مہمانوں کے تعارف کو پیش کرنے کی ذمہ داری بلبل دکن محترمہ پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ کی تھی انہوں نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں جامعہ عثمانیہ کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور مختلف موقعوں پر ہونے والے سمینار کی تفصیلا ت فراہم کی ساتھ ہی آج منعقد ہونے والے سمینار سے متعلق اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مولانا خواجہ الطاف حسین حالی ؔ نے اپنے مجموعہ کلام سے پہلے مقدمہ شعر وشاعری لکھا اسی طرز پرآج ڈاکٹر معید جاویدؔ نے اپنے شعری مجموعہ سے پہلے اردو شاعری کے عصری رحجانات و امکانات پر سمینار کا انعقاد عمل میں لاتے ہوئے عصر حاضر میں اردو شعری کی اہمیت کو ثا بت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔پہلے مقالہ نگار کی حیثیت سے ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم ‘چیر پرسن‘بورڈ آف اسٹڈیز‘اورینٹل لینگویجس‘ عثمانیہ یو نیورسٹی نے ’’عصر حاضر کا گوشہ نشین شاعر قطب سرشار‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ سائنس وٹکنالوجی کی ترقی نے انسان کی معلومات میں اضافہ کیا ہے اور ہمیں دور دراز مقامات کے حالات سے آگہی تو رہتی ہے لیکن ہم اپنے قریب وجوار میں رہنے والے اہم شعرا و ادبا کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔عصر حاضر کی اردو شاعری میں قطب سرشار ایک اہم نام ہے۔قطب سرشار نے اپنے تخلیقی سفر کے 50سالوں کی تکمیل کی ہے۔ان کا لب ولہجہ اپنی انفرایت رکھتا ہے ان کے کلام کے مطالعہ سے عصری رحجانات کا اندازہ ہوتا ہے وہ ایک سادہ مزاج اور پرکار شاعر ہے ان کی شاعری میں کلاسیکی رچاو کے ساتھ ساتھ جدید طرز اظہار اور جدید موضوعات کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں مقالہ نگار نے بیسوں اشعار کے حوالے سے گفتگو کی۔
دوسرے مقالہ نگار روف خیر نے ’’عصر حاضر کی اردو شاعری رحجانات و امکانات‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ پڑھا اور کہا کہ عصر حاضر میں کچھ ایسے نظم نگار بھی ہیں جو نظم اور بد نظمی میں تمیز نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ لکھنوی مکتب فکر ذہن کو متاثر کرتا ہے اور دہلوی مکتب فکر دل کو متاثر کرتا ہے اور لکھنوی طرز کو خوب پسند کیا جاتا ہے دہلوی مکتب فکر زبان وادب کے مروجہ اصولوں کو ملحوظ رکھتا ہے۔روف خیر نے اردو شاعری کے اختلافی مسائل کی بہترین عکاسی کی جو ایک مخصو ص طرز ادا کے ذریعہ سامعین کومحظوظ کیا انہوں نے جدید اصناف سخن کا جائزہ لیا اور کہا کہ کچھ لوگوں نے ایک مصری نظم کا شوشا چھوڑا اور روف خیر نے ایک مصری نظم کی بنیاد ڈالی۔اردو شاعری میں ایک مصری نظم کے امکانات کافی روشن ہے۔
تیسرے مقالہ نگار کی حیثیت سے شہر حیدرآباد کے مشہور ومعروف شاعر ڈاکٹر محسن جلگانوی نے اپنا مقالہ’’عصر حاضر میں اردو شاعری کے رحجانات و امکانات‘‘ پر پڑھا اور کہا کہ عصری ادب کی تفہیم کیلئے عصری زندگی کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔نقادوں کے اختلافات قاری کو تذبذب میں مبتلا
کرتے ہیں۔انہوں ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے حوالے سے بات کو پیش کرنے کی کوشش کی جدیدیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ زندگی کو ایک مکمل اکائی کی طرح دیکھنے کا رحجان جدید ادب میں پایا جاتا ہے۔ ہر دور میں شاعری میں خارجی و داخلی رحجانات پائے جاتے ہیں انہوں نے 1857ء سے دور حاضر تک کی اردو شاعری کے رحجانات کا جائز ہ پیش کیا۔
چوتھا مقالہ جامعہ عثمانیہ کے سابق صدر شعبہ پروفیسر مجید بیدار صاحب نے’’عصری اردو شاعری رحجانات اور امکانات ‘‘پر مقالہ سنایا اور کہا کہ عصر ی رحجانات انفرادی اور اجتماعی ہوتے ہیں۔سیاسی پس منظر میں عصری رحجانات کو مرکزیت سے لا مرکزیت کی طرف لایا جارہا ہے ادب میں بھی یہ خصوصیت آرہی ہے۔اخلاق کی شکست و ریخت کا عنصر عصری رحجانات میں غالب ہے۔ انہوں نے غزل کے پس منظر میں گفتگو پیش کی۔انہوں نے کہا کہ دھوکہ دہی،فریبی اور استحصال کا جذبہ ادب میں پروان چڑھ رہا ہے۔انہوں نے رفیق جعفر کی شاعری کے حوالے سے جدید رحجانات کو پیش کیا۔
اس سمینار کی صدارت کرناٹک سے تشریف لائے مہمان جناب م۔ن۔سعیدصاحب سابق صدر نشین کرناٹک اردو اکیڈیمی نے انجام دی اور کہا کہ سمینار میں شرکت سے ہماری محدود معلو مات میں اضافہ ہوتا ہے اردو شاعری کے عصری رحجانات سے متعلق نئے زاویہ آ ج کے اس سمینار میں پیش کئے گئے اردو ادب میں تحریکیں ،میلانات اور رحجانات کی اہمیت ابتداء سے ہی رہی ہے۔بیسویں صدی میں ترتی پسند تحریک نے اردو شاعری کو متاثر کیا اور عصری موضوعات اردو شاعری میں در آئے۔ بعد کے دور میں جدیدیت کا غلبہ رہاجدیدیت پسندوں نے اردو شاعری میں نئی علامتوں اور جدید تراکیب کو استعما ل میں لایا اور نئے تجربات پیش کئے گئے۔عصر حاضر میں اردو شاعری کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور امکانات بھی ہے کہ عصر حاضر کے شعراء اپنی شاعری کے زریعہ زندگی کے مسائل کو پیش کرینگے اور عوام کو بیدار کرنے کیلئے شعری اصناف کو استعمال میں لائیں گے۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں مقالہ نگاروں کا تجزیہ پیش کیا۔ سمینار کے اختتام کے فوری بعد ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی کے شعری مجموعہ ’’ دل کہہ رہا ہے‘‘ کا رسم اجرائتقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔اس تقریب کی نظامت پروفیسر تاتار خان صاحب نے انجام دی۔’’دل کہہ رہا ہے‘‘ کا اجراء بدست پروفیسر اشرف رفیع و عزت مآب جناب محمود علی صاحب ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر جناب محمود علی صاحب نے طویل خطاب فرمایا۔پروفیسر ایس۔ اے۔ شکور صاحب ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش نے بطور مہمان شرکت کی اور ڈاکٹر معید جاوید کے فنِ شعری اور کلام پر اظہار خیال فرمایا اور شخصی مراسم کا اظہارکیا۔
پروفیسر۔ م۔ن ۔سعیدسابق صدر نشین کرناٹک اردو اکیڈ یمی،ڈاکٹر محسن جلگانوی،جناب روف خیر نے شعری مجموعہ پر اپنے تاثرات پیش کئے۔ سید عبدالباسط شکیل ہدی بک ڈسٹربیوٹر نے اردو کتب بینی اور اردو کتابوں کی فروخت پر اپنے احساسات کا اظہار فرمایاپروفیسر پرتاپ ریڈی رجسٹرار عثمانیہ یونیورسٹی،پروفیسربی۔ ستیہ نارائنا،و دیگر معزز مہمانوں نے اس ادبی محفل کو اپنی شرکت سے رونق بخشی،پروفیسر عطیہ سلطانہ،ڈاکٹر عتیق اقبال،ڈاکٹر اطہر سلطانہ ، ڈاکٹر جعفر جری،ضیاء الدین نیئر صاحب،ڈاکٹر سیادت علی،سیلم فاروقی(جدہ)،مصطفی علی سروری،علی مصری (جدہ)‘ڈاکٹر شیخ سلیم و دیگر ادباء شعراء،ریسرچ اسکالرس،محبان اردو،طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور سمینار سے مستفید ہوئے۔ سمینار کے کامیاب انعقاد میں ڈاکٹر سید حامد،شیخ فہیم اللہ،سلیم ساحل، مرزا اسمیعل و دیگر ریسرچ اسکالر نے سرگرم حصہ لیا۔اس پروگرام کا اختتام ڈاکٹر معید جاوید صا حب کے شکریہ پر عمل میں آیا۔تہذیبی اعتبار سے یہ ایک مثالی ادبی محفل رہی۔

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

Osmania Univ Seminar - trends and prospects of contemporary Urdu poetry. Reportaz: Dr. M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں