پی ٹی آئی
پاکستان کی بااثر فوج نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے مخالف احتجاجیوں کے درمیان تعطل کو دور کرنے کی کوشش کے سلسلہ میں مداخلت کی ہے اور دونوں فریقین بات چیت کی میز پر واپس آئے ہیں۔ فریقین کے درمیان اس مصالحت سے چند ہی گھنٹے قبل عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی زیر قیادت احتجاجیوں اور حکومت نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے تھے کہ فوج کو مداخلت کے لئے کون ذمہ دار ہے ۔ عمران خان اور طاہر القادری نے کل رات دیر گئے روالپنڈی میں سربراہ افواج جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی ۔ حکمراں پاکستان مسلم لیگ ۔ نواز اور احتجاجی پارٹیوں( پی ٹی آئی ، اور پی اے ٹی) نے یہاں مذاکرات کا انعقا د کیا۔ تاہم بحران کے تصفیہ میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔ پی ٹی آئی کے لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ’’ہم ایک مثبت طریقہ کار کے ساتھ پہنچے ہیں۔ تاہم حکومت نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔‘‘ قریشی نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت میں تعطل برقرار ہے ۔ ’’اعتماد کے فقدان‘‘ کے سبب یہ مذاکرات آگے نہیں بڑھیں گے ۔ اسی دوران وزیر اعظم نواز شریف نے آج قومی اسمبلی کو بتا یا کہ’’ موجودہ سیاسی بحران میں رول ادا کرنے کے لئے نہ تو میں نے فوج سے خواہش کی تھی اور نہ ہی فوج نے مجھ سے کوئی خواہش کی۔‘‘ شریف نے ان میڈیا اطلاعات پر تنقید کی کہ انہوں نے (شریف نے) فوج سے’’درخواست‘‘ کی تھی کہ وہ ان کی مدد کے لئے آئے ۔ نواز شریف نے کہا کہ وہ تو عمران خان اور طاہر القادری تھے جنہوں نے سربراہ فوج راحیل شریف تک رسائی حاصل کی کہ وہ ثالث بنیں۔ نواز شریف کے اس بیان پر کہ احتجاجیوں نے مداخلت کے لئے فوج سے درخواست کی تھی ، صدر پی اے ٹی علامہ طاہر القادری نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جواباً کہا کہ میں پوری وضاحت کے ساتھ یہ کہہ دیتا ہوں کہ وزیر اعظم نے فوج سے مداخلت کی خواہش کی ہے۔ میں ریکارڈ پر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہم نے مداخلت کے لئے فوج سے کوئی درخواست نہیں کی۔ کل ہماری میٹنگ سے قبل میں نے سربراہ افواج سے بات تک نہیں کی ۔ طاہر القادری نے کہا کہ نواز شریف نے جب یہ دیکھا کہ حکومت کا استحکام گھٹ رہا ہے تو انہوں نے (نواز شریف) نے مذکورہ بیان دیا ۔
شعلہ بیان خطیب علامہ طاہر القادری نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف جھوٹ بول رہے ہیں۔ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کے اس بیان پر تنقید کی کہ طاہر القادری اور انہوں نے(عمران خان) نے فوج سے مداخلت کی خواہش کی ہے ۔ عمران خان نے کہا کہ’’میں آپ سے (صحافیوں سے) یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں نے سربراہ افواج سے کیا کہا تھا ۔ میں نے جنرل راحیل شریف سے کہا ہے کہ مجھے نواز شریف پر قطعی بھروسہ نہیں ہے ۔ میں نے جنرل راحیل کو وہ تمام وجوہات بتائیں کہ میں نواز شریف کے استعفیٰ کے بغیر احتجاج کے مقام سے کیوں نہیں ہٹوں گا۔ میں نے فوج سے ثالثی کے لئے نہیں پوچھا ہے ۔ میں کسی بھی لحاظ سے وزیر اعظم کے استعفیٰ کے مطالہب سے دستبردار ہونے والا نہیں ہوں۔ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی دونوں ہی جماعتیں بالخصوص نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبہ پر ڈٹی ہوئی ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ’’انہیں خریدنے کی حکومت کی کوششوں کے آگے نہیں جھکیں گے۔‘‘
قبل ازیں موصولہ اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ طاہر القادری نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد اپنے حامیوں کے زبردست ہجوم سے خطاب بھی کیا اور کہا کہ انہوں نے جنرل شریف سے ملاقات کے موقع پر اپنا انقلابی ایجنڈہ انہیں پیش کردیا ہے ۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج کی وساطت سے(امکانی طور پر) طے پانے والی معاملت میں گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے بارے میں عمران خان کی فکر مندی کو دور کرنے اور علامہ طاہر القادری کے بنیادی مطالبہ پر توجہ دی جائے گی ۔ یہ مطالبہ اس مقدمہ میں انسداد دہشت گردی قوانین میں بعض فقرہ جات کی شمولیت سے متعلق ہے جو وزیر اعظم نواز شریف ان کے بھائی شہباز شریف (وزیر اعلیٰ صوبہ پنجاب) اور دیگر افراد کے خلاف لاہور میں درج کیا گیا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کو توقع ہے کہ نواز شریف اس سیاسی جنگ میں کامیابی کے ساتھ بچ نکلیں گے لیکن وہ کمزور ہوجائیں گے اور س طرح ملک کی خارجہ اور سیکوریٹی پالیسی پر فوج کی گرفت کو چیلنج نہیں کرسکیں گے ۔ پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر) کے ڈائرکٹر جنرل ، میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک مختصر بیان میں وضاحت کی ہے کہ فوج ملک میں جاری موجودہ سیاسی بحران میں حکومت کی درخواست پر ’’سہولت کنندہ‘‘ کا کردار ادا کررہی ہے ۔ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جمعہ کی شام ٹویٹر پر ایک مختصر بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ چیف آرمی اسٹاف سے وزیرا عظم ہاؤس میں گزشتہ روز ملاقات کے دوران ایک سہولت کا ر کا کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔
Political deadlock persists in Pakistan as army plays facilitato
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں