آزادی اور انقلاب مارچ اسلام آباد کی جانب رواں دواں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-16

آزادی اور انقلاب مارچ اسلام آباد کی جانب رواں دواں

اسلام آباد/لاہور
پی ٹی آئی
وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی حکومت کو بے دخل کرنے کے عزم کے ساتھ آج ہزاروں احتجاجیوں نے دو علیحدہ قافلون کی شکل میں اسلام آباد کی جانب مارچ کیا ۔ کرکٹر سے سیاستداں بنے اپوزیشن لیڈر عمران خان کے حامیوں کے ساتھ تصادم کے واقعات اس وقت پھوٹ پڑے جب احتجاجی مارچ کرنے والوں نے دعویٰ کیا کہ حکمران پاکستان مسلم لیگ۔ نواز کے کارکنوں نے عمران خان کی گاڑی( کنٹینر) پر فائرنگ کردی۔ عمران خان کے آزادی مارچ پر گجرانوالہ میں پتھرا کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے سرکاری کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں حکومت اور اتحریک انصاف کے درمیان رابطے ہوئے ہیں ۔ ان رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں مخدوم جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی سے بات کی ہے اور انہیں گوجرانوالہ واقعہ کے بارے میں وضاحت پیش کی ہے ۔ خواجہ سعد رفیق نے بتایا ہے کہ حکومت کی ہدایت پر اس تصادم میں تحریک انصاف نے جن جن مسلم لیگی کارکنوں کو نامزد کیا تھا ، تمام کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ سعد رفیق کے مطابق اس تصادم کا ذمہ دار تحریک انصاف نے پومی بٹ نامی مسلم لیگی کارکن کو قرار دیا تھا، جنہوں نے از خود گرفتاری دے دی ہے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا ایک ریکارڈ شدہ بیان بار بار مختلف نجی چینلز پر نشر کیاجارہا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے گوجرانوالہ کے واقعے کا نوٹس لیا ہے اور پولیس کوہدایت کی ہے کہ مارچ کے راستے میں تمام مسلم لیگ نواز کے دفاتر بند کردئیے جائیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے کارکنوں سے مشتعل نہ ہونے اور صبر سے کام لینے کی تلقین کی ہے ۔ عمران خان نے گوارانوالہ میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے کارکنوں کے درمیان ہونے والے تصادم کو حملے سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مسلم لیگ کی اعلی قیادت پرعائد کی تھی۔ عمران خان کے اس بیان کے بعد وفاقی حکومت میں خاصی تشویش پائی جارہی ہے ۔ وزیرا عظم نواز شریف نے اس صورتحال پر مشورے کے لئے اپنے قریبی رفقاء کو طلب کرلیا ہے ۔ اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق لاہور سے اسلام آ باد پہنچ رہے ہیں ۔ حکومتی رہنماؤں کا خیال ہے کہ پتھراؤ کے اس واقعے سے بظاہر تو کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن عمران خان کے لانگ مارچ کے دوران سیاسی ددرجہ حرارت اچانک بڑھ گیا ہے ۔ جو اچھا شگون نہیں ہے ۔ دو اپوزیشن گروپوں میں سے ایک گروپ کی قیادت عمران خان نے کی اور دوسرے گروپ کی قیادت کنیڈا سے آئے ہوئے عالم دین طاہر القادری نے کی۔ یہ احتجاجی گروپس ، اسلام آباد میں جمع ہونے کا منصوبہ رکھتے ہیں تاکہ جلد انتخابات کے لئے نواز شریف سے اپیل کریں۔ زائد از ایک سال قبل پاکستان میں منعقدہ انتخابات میں نواز شریف نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ پاکستان تحڑیک انصاف پارٹی کے صدر عمران خان نے کہا کہ’’پی ایم ایل۔ این ورکرس نے میری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ اگر مجھے گولی لگتی تو میری پارٹی کے کارکنوں کو رد عمل کے اظہار سے کون روک سکتا تھا۔‘‘ انہوں نے پارٹی ورکرس پر زور دیا کہ وہ پر امن رہیں۔ اگر حکومت کے اقدامات کے بعد مارشل لا نافذ کردیا گیا تو ان کی پارٹی کو مورد الزام ٹھہرادیاجائے گا ۔ عمران خان نے کہا کہ گوارانوالہ واقعہ کے لئے حکومت، ہم پر الزام دھر رہی ہے ۔ حکومت کے ایسے اقدامات پر اگر مارشل لاء نافذ کردیا جائے تو بھی ہم پر الزام دھرا جائے گا۔ عمران خان نے وہ ویڈیو فوٹیج بھی پیش کی جس میں پی ایم ایل۔ این کارکنوں کو ان کی گاڑی پر حملہ کرتے، سنگباری کرتے، جوتے پھینکتے اور گاڑی میں بیٹھے افراد کو دبکتے دیکھا گیا ۔
پی ٹی آئی ترجمان شیریں مزادی نے بتایا کہ گوارانوالہ میں ہوئے تصادم کے واقعات میں کم از کم8پارٹی کارکن زخمی ہوگئے تھے ۔ جن میں سے3شدید زخمیوں کو ہسپتال میں شریک کیا گیا ہے ۔ عمران خان کا آزادی مارچ لاہور میں زماں پارک میں واقع ان کی قیام گاہ سے شروع ہوا جب کہ علامہ طاہر القادری کا انقلاب مارچ لاہور کے ماڈل ٹاؤن علاقہ سے شروع ہوا۔ طاہر القادری نے انقلاب مارچ کے اغراض و مقاصد کی وضاحت کی اور کہا کہ اس مارچ کا بنیادی مقصد جمہوریت کی بحالی اور غربت کا انسداد ہے ۔ عمران خان کا قافلہ لاہور سے80کلو میٹر دور گوارانوالہ پہنچ چکا ہے جب کہ طاہر القادری کا قافلہ جہلم پہنچ چکا ہے ۔ یہ علاقہ بھی لاہور سے80کلو میٹر دور ہے ۔ ان دونوں مارچوں کا آغاز کل ہوا تھا ۔ گوارانوالہ واقعہ کے بارے میں متضاد اطلاعات ملی ہیں کہ وہاں تصادم کیسے ہوا ۔ صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہود نے بتایا کہ پی ٹی آئی کارکنوں نے پی ایم ایل ۔ این کے دفترپر حملہ کیا جس کے بعد تصادم کی نوبت آگئی ۔ طاہر القادری کا قافلہ ان معنی میں عمران خان کے قافلہ سے آگے بڑھ گیا ہے کہ طاہر القادری کے حامی پر امن رہے ہیں۔ اور ان کے سفر کے دوران تشدد کے کسی واقعہ کی اطلاع نہیں ملی ۔ عمران خان اور طاہر لقادری نے ابتداءً ایک مشترکہ ریالی نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن بعد میں دونوں کے درمیان اختلافات ابھر کر آئے اور عمران خان طاہر القادری کا انتظار کئے بغیر ان کی قیام گاہ سے واپس ہوگئے ۔ اس سبب شعلہ بیان عالم دین طاہر القادری ناراض برہم ہوگئے ، علامہ طاہر القادری اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ علاقہ میں ایک علیحدہ احتجاج منظم کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں جب کہ عمران خان کے کارکنوں کو اسلام آباد کے آپ پاڑہ چوک میں ایک اسٹیج قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ عمران خان کے بعض حامی پہلے ہی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں اور صدر پارٹی کا انتظار کررہے ہیں ۔ امن و ضبط کی برقراری کے لئے ہزاروں پولیس جوانوں اور نیم فوجی فورس کے سپاہیوں کو متعین کردیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں احتجاجی مارچوں کے داخلہ میں سہولت کے لئے حکومت نے سڑکوں پر تمام رکاوٹیں ہٹالی ہیں ۔ جیسے جیسے یہ مارچ آگے بڑھ رہے ہیں، احتجاجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ عمران خان کے قافلہ میں اب تک50ہزار افراد شامل ہوگئے ہیں ۔ اور لگ بھگ اسی تعداد میں لوگ طاہر القادری کے مارچ میں بھی شریک ہیں ۔

PAT Inquilab March proceeding towards Islamabad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں