طوطا یا توتا - فیس بک گروپ کا ایک دلچسپ مکالمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-07-07

طوطا یا توتا - فیس بک گروپ کا ایک دلچسپ مکالمہ

toota or parrot
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم (چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز ، اردو پی۔جی کالج ، جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد) کے قائم کردہ فیس بک گروپ "ادبی محاذ" کا ایک مکالمہ
بتاریخ: اکتوبر 2013

مصطفیٰ علی سروری
برائے کرم کوئی مجھے یہ جواب دے کہ اردو میں طوطا ط سے کیوں لکھا جاتا ہے ت سے کیوں نہیں؟ ایک صاحب کو جواب چاہیے میری مدد کریں تاکہ میری معلومات میں بھی اضافہ ہو

مکرم نیاز
مشہور و مقبول لغت فرہنگ آصفیہ کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
بقول اساتذہ کے ۔۔۔ درست لفظ "توتا" ہے اور "طوطا" غلط العوام ہے۔

غوث ارسلان
انٹڑنیشنل انڈین پبلک اسکول ﴿سیوا﴾ ریاض کی انتظامی کمیٹی کے قابل ترین اور معزز اراکین نے اردو اساتذہ کے لئے منعقدہ انٹرویو میں امیدواروں کو اس بنا پر مسترد کردیا کہ انھوں نے توتا کا املا ٰ ﴿ت﴾ سے بتایا تھا۔ اراکین کی قابلیت اور لیاقت کا اندازہ کیجئے۔ شرفاء کا یہ حال ہے۔

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
'طوطا' غلط العوام ہے پھر یہی مروج ہے ۔ رشید حسن خان نے ایسے کئی الفاظ کی فہرست بنائی ہے اور اس کا صحیح املا بھی دیا ہے مگر نقٓار خانہ میں طوطی(توتی) کی آواز ! اردو املا کا مسئلہ اردو عوام کی طرح بڑا مضحکہ خیز ہے۔ لیکن سچ کہا جائے تو ط سے طوطا ہی اچھا لگتا ہے یعنی اس کی چونچ ط سے قریب قریب مشابہ ہوتی ہے۔

مکرم نیاز
۔۔۔ "" لیکن سچ کہا جائے تو ط سے طوطا ہی اچھا لگتا ہے یعنی اس کی چونچ ط سے قریب قریب مشابہ ہوتی ہے۔""
یہ غالباً عصر حاضر کے سب سے بڑے مزاح نگار یوسفی کا قولِ زریں ہے

ڈاکٹر اسلم فاروقی
لو صاحب میں بھی یہی کہنے والا تھا کہ طوطا ط سے ہی اچھا اور مٹھو بیٹا لگتا ہے ت سے توتو نیلا توتا ملا زہر لگتا ہے

مصطفیٰ علی سروری
جناب مکرم نیاز صاحب میں آپ جناب کا بیحد مشکور ہوں کہ آپ جناب نے کچھ ہی گھنٹوں میں میرے سوال کا جواب مرحمت فرمایا میں آپ کا شکر گزار ہوں

ڈاکٹر اسلم فاروقی
اچھا کیا شکریہ ادا کردیا ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ طوطا چشم ہو گئے

مکرم نیاز
tota proverbs
جی ہاں!! توتا سے متعلق جتنے بھی محاورے ہیں سب "ت" والے توتا سے

ڈاکٹر اسلم فاروقی
اب ایک توتا نامہ لکھنا پڑے گا اس رسم الخط کو صحیح العوام ہونے کے لئے

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
فرہنگ آصفیہ کے اس صفحہ پر کئی لفظوں کا املا قدیم ہے بلکہ اب متروک ہے۔ ان کا کیا کریں؟
املا کبھی سائنٹفک نہیں ہو سکتا۔ اس می تبدیلی آتی رہتی ہے۔ انگریزی زبان بھی اس سے مبرّا نہیں ہے۔

مکرم نیاز
میرے ناقص خیال میں تو املا جامد شے ہے۔ تبدیلی اصطلاحات (ہر عصر کے لحاظ سے) اور مقامی لب و لہجے کی ہوتی ہے۔
مقامی لب و لہجے کی ایک مثال برٹش انگلش اور امریکن انگلش کی ہے جہاں ساکن حرف کو ایک جگہ اڑا دیا جاتا ہے تو ایک جگہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ مثلاً ۔۔۔ برٹش میں colour اور امریکی میں color۔

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
ساکن حروف اڑائیں یا لگائیں املا تو بدل گیا نا ۔ اس صفحہ پر دیکھیں ادنٰے لکھا ہوا ہے جبکہ ہم ادنیٰ لکھتے ہیں۔

مکرم نیاز
بڑی ے اور چھوٹی ی کی بحث ایک دوسری چیز ہے۔ فاروقی صاحب سے رابطہ فرمائیں

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
میرا یہی تو کہنا ہے کہ بحث ضروری ہے۔اب اردو والے اور کیا کریں گے۔

ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل
مصطفیٰ سروری صاحب آج کے ایک سمینار کے سوال کا جواب چاہتے ہیں

مصطفیٰ علی سروری
M.A. Azeez Sohail saheb, you are right this question was raised by our VC.....stating that during several selection committee interviews he asked this question but no body was in a position to answer.

عبدالعزیز عابد
مجھے اچھا یاد ہے کہ میری درسی کتاب مین ایک مضمون "توتا" تھا-- ایک مضمون مین گیان چند جین نے بھی اسکو مانا تھا-- لیکن تاکید کی تھی کہ نقار خانہ مین تو طوطی ہی بولیے گی--

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
فیروزالغات میں توتا اور طوطا دونوں درج ہیں ۔اس سے متعلق جتنے بھی محاورے ہیں وہ ت اور ط دونوں کے تحت دیے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ توتی کے معنی ایک خوش آواز پرندہ ۔ طوطا لکھا ہوا ہے۔

منور فضل اللہ قاضی
ایک مثنوی کا نام طوطی نامہ ہے نہ کہ توتی نامہ

شمس الرحمن علوی
These things are the beauty of the language. How many question the fact that why 'WOULD' and 'COULD' have 'L' or how come ENOUGH has no F though it sounds ENUF. Language and scripts are not like mathematics. In a lighter vein, Tota with To looks better as as an eminent writer had mentioned that when written, it also looks like a TOTA or PARROT because of the shape of ط

جمیل شیدائی
اگر پرندے کا تعلق ہندوستان سے ہے تو "توتا" کہیے اور اگر اسے سر زمینِ عرب سے امپورٹ کیا گیا ہے تو ایسی صورت میں اسے "طوطا" کہیے۔

ڈاکٹر اسلم فاروقی
اور امریکہ سے آئے تو ٹوٹا کہیے

محسن خان
یہ پورے کمنٹس پڑھ کر میرے ہاتھ سے توتے اڑ گئے

مکرم نیاز
ہم تو فرہنگ آصفیہ اور فیروز اللغات کا اعتبار کرتے ہوئے "توتا" ہی لکھیں گے۔ اور جن جن کو "طوطے" کی چونچ پیاری ہے وہ بےشک "ط" سے لکھ لیں

علی مصری
جناب ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب ، تمہارا تو آج کل توتی بول رہا ہے

مصطفیٰ علی سروری
پڑھے لکھے معزز حضرات کی بحث کے باوجود "کیوں" کا جواب نہیں ملا۔

مکرم نیاز
انٹرنیٹ مباحث سے اگر دو جمع دو چار کی طرح جواب ملا کرتا تو آدمی اساتذہ کے پاس جائے کیوں ، ماہرین فن سے رجوع کرے کیوں ، کتب پڑھے کیوں ، عقل استعمال کرے کیوں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔

جاوید نہال حشمی
بھئی ہم تو بچپن سے طوطا پڑھتے آئے تھے۔ لیکن پیام تعلیم والوں نے توتا لکھ کر ہمیں چونکا دیا۔ ویسے ان لوگوں نے گاؤں کو گانو بھی لکھا ہے۔ اگر phonetically دیکھا جائے تو شاید "گانو" ہی ہونا چاہئے۔ کیوں؟

علی مصری
میں نے "کیوں نہیں" کی وضاحت چاہی تھی لیکن مکرم نیاز صاحب (جو وسیع النظر، وسیع القلب، وسیع الظرف، وسیع الذہن، وسیع الدہن وغیرہ وغیرہ اوصاف حمیدہ کے مالک ہیں) کو میرا وضاحت چاہنا "پخ" لگا۔ وہ محترم و معظم و مکرم نیاز ہیں ، ان کے مشوروں کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ ان کو بھی میرا ایک مشورہ ہے کہ تھوڑا سا وقت نکال کر رشید حسن خان صاحب کی معرکۃ الآرا کتاب "اردو املا" کے صفحاب نمبر 124 تا 132 کو پڑھ لیں۔

مکرم نیاز
لیجیے صاحب ۔۔۔ ہم ہی گوگل تحقیق کی زحمت اٹھا لیتے ہیں
نظرِ ثانی شدہ اور اضافہ شدہ نیا ایڈیشن - "املا نامہ"
(سفارشات املا کمیٹی، ترقّی اردو بورڈ)
مرتب: گوپی چند نارنگ
اراکین املا کمیٹی :
ڈاکٹر سید عابد حسین (صدر)
رشید حسن خان
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ (مرتّب)

ت، ط

اردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ت اور ط دونوں سے لکھے جاتے ہیں، ان کے املا میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذیل کے الفاظ ت سے صحیح ہیں:
تپش / تہران / تپاں / تیار / تیاری / توتا / ناتا (رشتہ)

ذیل کے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح ہے:
غلطاں / طشت / طشتری / طمانچہ / طہماسپ / طوطی

مکرم نیاز
جاوید نہال حشمی نے لکھا تھا ۔۔۔۔۔
"پیام تعلیم والوں نے توتا لکھ کر ہمیں چونکا دیا۔ ویسے ان لوگوں نے گاؤں کو گانو بھی لکھا ہے۔ اگر phonetically دیکھا جائے تو شاید ”گانو“ ہی ہونا چاہئے۔ کیوں؟"

اس کا جواب بھی "املا نامہ" کے اسی نظرثانی شدہ نارنگ ایڈیشن میں موجود ہے ۔۔۔ جو کہ یوں ہے ۔۔۔۔
گانو، پانو، گاؤں، پاؤں
اردو میں یہ الفاظ کئی طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے گانو، گاؤں، گانوں، گانئوں، اس انتشار کو دور کرنے کے لیے ان کا ایک املا اختیار کرنا ضروری ہے، دیکھا جائے تو اردو میں گاؤں (اسم) اور گاؤں (مضارع گانا سے) دونوں نون غنّہ سے بولے جاتے ہیں، گانو، پانو، ان لفظوں کا قدیم املا ہے جس کو اردو ترک کر چکی ہے، اس پر اصرار کرنا ایک طرح سے رجعتِ قہقری ہے، چنانچہ جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رائے کو ماننے میں ہمیں تامّل ہے، ایسے تمام لفظوں کو آخری نون غنّہ سے ہی لکھنا مناسب ہے:
گاؤں پاؤں چھاؤں

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
مطلب یہ ہے کہ املا قدیم یا جدید ہوتا ہے ۔نارنگ نے قدیم املا کو ترک کرنا ہی مناسب سمجھا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ کچھ برسوں بعد نئی نسل توطا یا طوتا لکھے گی اور انجوائے کرے گی۔

مکرم نیاز
جس طرح فقہی معاملات میں معتبر و موقر علمائے کرام پرانا فیصلہ ختم کر کے نئے فیصلے کو رواج دیتے ہیں ۔۔۔
بعینہ اسی طرح ادب کے میدان میں بھی ہونا چاہیے۔ یعنی ماہرین فن کو ہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا مسترد کیا جائے اور کیا قبول کیا جائے؟
عوامی رائے کو تو کسی بھی شعبہ میں قبول نہیں کیا جاتا۔

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ "علماے جمہور" سے رجوع کیا جائے ؟

مکرم نیاز
نہیں۔ "علمائے جمہور" نہیں بلکہ فن کے ماہرین!!
ویسے ابھی ایک خیال دماغ میں آیا کہ ۔۔۔ فن کے ماہرین کا علمائے جمہور کی ٹیم میں شامل رہنا اشد ضروری امر ہے؟

ڈاکٹر اسلم فاروقی
کیا ادب میں فیشن نام کی کوئی جیز ہے- ہم فیشن کے نام پر کچھ بھی کر لیتے ہیں املا کے استعمال کا فیشن امریکہ والوں کے پاس نظر آتا ہے یا ان کی سادگی کہۓ کہ وہ color لکھتے ہیں اور بھی دوسری مثالیں ہیں اسی لہر کو استعمال کرتے ہوۓ طوطا کو طوطا ہی کہیں گے نیلا توتا کا توتا نہین۔ اب ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جب جمہور کی آواز ایک ہوجاتی ہے تو غلط العوام لفظ بھی ادب کا یا زبان کا حصہ بن جاتا ہے - اس لے میری رائے ہے کہ اب تک اس پوسٹ پر جن احباب نے گفتگو کی ہے وہ ووٹنگ کردیں کے طوطا طوطا رہے گا یا توتا-

مکرم نیاز
یعنی ۔۔۔ بقول اسلم بھائی کے ۔۔۔ ماہرین فن کی کوئی اہمیت نہیں ، وہ غالباً بھاڑ جھونکتے ہیں یا بقول ابن صفی کے ، توتیے کے ہم قافیہ ہیں جو خواہ مخواہ زبان کے پیچھے اپنا قیمتی وقت اور محنت قوت ضائع کرتے ہیں۔
بس جو بھی ہیں عوام ہیں جمہور عوام ہیں!!
حد کر دی آپ نے

ڈاکٹر اسلم فاروقی
اب توتا کو عام کرنے کے لئے توتا نامہ لکھنا پڑے گا۔ بھائی مکرم صاحب زبان کے ماہریں کو اخبار سے بھی جڑنا ہوگا جو فی زمانہ اصل املا کو خراب کرنے میں پیش پیش ہیں اور لوگ جو اخبار میں پڑھتے ہیں اسی کو درست مانںے اور منوانے لگے ہیں اس لئے ماہریں زبان لکھتے رہیں بولتے رہیں تو درست اردو کا چلن بھی جاری رہے گا-

مکرم نیاز
املا تو ہر دور ہر زمانے میں عوامی سطح پر خراب رہے گا ہی ۔۔۔ جس کسی کو زبان سے دلچسپی ہوگی وہ یا تو متعلقہ زبان کی کتب یا ماہرین زبان کی طرف رجوع کرے گا۔ اخبار یا الکٹرانک میڈیا ماہرین کی جگہ نہیں لے سکتے۔
ماہرین فن اپنی محنت اور وقت فن کے لیے دیتے ہیں تو یہی بہت بہت بڑی بات ہے ۔۔۔ اب یہ زبردستی ہوگی ہم انہیں پی۔آر۔او کے فرائض بھی سونپ دیں ۔۔۔ پھر آپ ہم جیسے لوگ کس کھیت کی مولی رہیں گے؟
کچھ کام تو ہمیں بھی کرنا ہوگا ناں۔ جیسا کہ آپ نے ، فضل بھائی نے ، راقم الحروف نے اور علی مصری بھائی نے اپنی اپنی معلومات بہم پہنچائی ہیں ۔۔۔ جس سے ماہرین فن جیسے مشتاق یوسفی ، رشید حسن ، نارنگ جی کے نام گرامی اور ان کے اقوال سامنے آئے اور صورتحال کچھ واضح ہوئی۔ ورنہ محض عوامی بیٹھک میں بات ہوتی تو وہ بچارے سیاست منصف اعتماد کی خبروں کے حوالے دے کر بضد ہو جاتے کہ بھئی یہاں یہاں لکھا ہے لہذا یہی صحیح ہے

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
ای پیپر کی وجہ سے عالمی برادری تمام اخبارات کو پڑھتی ہے، ایسے میں زبان کا معیاری ہونا ضروری ہے کم از کم مقامی الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔

علی مصری
بھائی مکرم نیاز، میں نے رشید حسن خان صاحب کی جس کتاب کا ذکر کیا ہے وہ "اردو املا" ہے جو 706 صفحات پر مشتمل ہے جسے نیشنل اکیڈمی دہلی نے ترقی اردو بورڈ (وزارت تعلیم و سماجی بہبود حکومت ہند) کے جید پریس بلی ماران سے چھپوا کر شائع کیا۔ اس کتاب میں املا پر کافی تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اردو زبان سے متعلق ہر فرد کو بنظر غائر اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ کتاب مئی-1974 میں شائع ہوئی ہے۔
[نوٹ از مرتب: متذکرہ کتاب کی پی۔ڈی۔ایف فائل کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے دیا گیا ہے۔]

ڈاکٹر فضل اللہ مکرم
اس کتاب کا کچھ حصّہ کسی زمانے میں سہ ماہی فکر و تحقیق نئی دہلی میں شاٹع ہوا تھا۔

ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل
بھائیو، کس نتیجے پر پہنچے ہو؟ اتنی لمبی لمبی تحریریں ہم سے نہیں پڑھی جاتیں۔ برائے مہربانی تلخیص کیجیے نہ کہ مضمون نگاری۔

علی مصری
بھائی عبدالعزیز سہیل، رشید حسن خان صاحب نے اپنی کتاب "اردو املا" کے صفحہ نمبر:131 پر لکھا ہے :
urdu imla rasheed hasan khan
توتا : اردو کے اہم لغت نگاروں نے یہ صراحت کر دی ہے کہ اس کا املا "طوطا" صحیح نہیں۔ اس کو ہمیشہ "توتا" لکھنا چاہیے۔
اس کے دو مرکبات : "توتا چشم" اور "توتا چشمی" کو بھی اسی طرح لکھا جائے گا۔

ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل
چلیے علی مصری صاحب کے حوالے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ گفتگو ختم کیجیے اور نئے موضوعات کو تلاش کیجیے، یہ ناچیز کا مشورہ ہے۔


نوٹ از مرتب:
رشید حسن خان کی کتاب "اردو املا" پہلی بار 1974 میں حکومت ہند کے ادارے 'ترقی اردو بورڈ' کے زیراہتمام نیشنل اکاڈمی (دریا گنج، دہلی) نے شائع کی تھی۔ یہ 706 صفحات کی کتاب ہے۔
اردو کی مشہور و مقبول ویب سائٹ 'ریختہ' پر یہ کتاب یہاں آن لائن پڑھی جا سکتی ہے:
اردو املا - رشید حسن خان

غالباً اسی کتاب کا عکسی ایڈیشن پاکستان سے مئی-2007 میں پہلی بار شائع کیا گیا۔ یہ بھی 706 صفحات کی کتاب ہے جس کے ناشر مجلس ترقی ادب (لاہور) ہیں۔
اسی پاکستانی ایڈیشن کا آن لائن ورژن پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں مشہور ویب سائٹ "آرکائیو ڈاٹ آرگ" سے یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 15 میگابائٹس ہے۔
UrduImlaa-archive.org


The correct Urdu spelling of TOTA, a dialogue on FaceBook.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں