ہند و پاک سفارتی تنازعہ میں شدت - مذاکرات کی منسوخی بدبختی - امریکہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-20

ہند و پاک سفارتی تنازعہ میں شدت - مذاکرات کی منسوخی بدبختی - امریکہ

نئی دہلی
یو این آئی
ہندوستان‘پاکستان کے درمیان سفارتی نزع نے آج اس وقت مزید شدت اختیار کرلی جب سخت گیر علحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی اور جے کے ایل ایف لیڈر یٰسین ملک نے ہائی کمشنر پاکستان عبدالباسط سے ملاقات کی ۔اس بیچ یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ پاکستان اپنے ہائی کمشنر متعینہ نئی دہلی کو واپس بلالے ۔ ہندوستان نے کل ایک سخت قدم اٹھاتے ہوئے اسلام آباد میں آئندہ25اگست کو ہونے والی ہند پاک معتمدین خارجہ کی مجوزہ بات چیت منسوخ کردی ۔ کیونکہ کل عبدالباسط نے کشمیری علیحدگی پسند قائدین کو یہاں اپنے ہائی کمیشن پر مدعو کیا تھا اور ہندوستان کے شدید اعتراضات کے باوجود ان علیحدگی پسند قائدین سے بات چیت کی تھی۔ عبدالباسط نے میر واعظ عمر فاروق ، شبیر شاہ اور یسین ملک سے بھی ملاقات کی ۔ گیلانی اور یٰسین ملک نے ہائی کمشنر پاکستان سے آج ملاقات کی ۔ صورتحال پر مختلف سیاسی گوشوں سے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا گیا ۔بعض گوشوں نے نریند ر مودی حکومت کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا اور بعض نے اس کو بدبختانہ قرار دیا ہے ۔ دفتر خارجہ پاکستان کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ عبدالباسط اور کشمیری علیحدگی پسند قائدین کی ملاقات’’ سفارتی آداب کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔‘‘ایسی ملاقاتیں پہلے بھی ہوئی ہیں ۔ تسنیم اسلم نے کہا کہ پاکستان نئی دہلی میں متعین اپنے قاصد( ہائی کمشنر) کو باز طلب نہیں کرے گا ۔ اسی دوران بی جے پی کے سینئر لیڈر روی شنکر پرساد نے کہا ہے کہ معتمد خارجہ کی سطح تک مجوزہ بات چیت منسوخ کرنے کا حکومت کا فیصلہ صحیح ہے ۔ پاکستان کو حکومت ہند اور علیحدگی پسندوں، دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ (قبل ازیں معتمد خارجہ ہند سجاتا سنگھ نے بھی کہا تھا کہ حکومت ہند یا کشمیری علیحدگی پسندوں میں سے کسی ایک کو چنا جائے ۔) پرساد نے کہا کہ یہ سوچنا پاکستان کا کام ہے کہ آیا وہ حکومت ہند کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں یا علیحدگی پسندوں کے ساتھ۔‘‘ اس دوران کانگریس نے حکومت پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ہند، ہائی کمشنر پاکستان کو واپس بھیج دے ۔ کانگریس کے ترجمان آنند شرما نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ نمٹنے میں حکومت ہند کے اقدامات میں ارتباط ہونا چاہئے۔ ہائی کمشنر پاکستان عبدالباسط کو واپس بھیج دیا جانا چاہئے۔ یہاں یہ بات بتادی جائے کہ سید علی شاہ گیلانی نے نئی دہلی روانہ ہونے سے قبل سری نگر میں اخبار نمائندوں کو بتایا کہ معتمد خارجہ کی سطح پر بات چیت کی منسوخی ’’بدبختانہ اور غیر جمہوری‘‘ ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب کہ ہند۔ پاک تعلقات کو آگے بڑھانے کے لئے مرکز کی جانب سے سنجیدہ کوششیں جاری تھیں، پاکستان کے ہائی کمشنر نے حریت کے نام نہاد قائدین کو مدعو کیا ۔ اس دعوت سے پاکستان کی دیانتداری کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے ہیں اور یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ ہندوستان کے داخلہ معاملات میں مداخلت کی اس کی کوششوں اور منفی طریقے کسی’’روک ٹوک کے بغیر‘‘ جاری ہیں۔ یسین ملک نے عبدالباسط سے ملاقات سے پہلے کہا تھا کہ پہلے بھی ایسی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ’’کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ (ہندوستان کے)سابق وزیر اعظم سب غلطی پر تھے اور صرف موجودہ وزیر اعظم( مودی)صحیح ہیں؟ پی ڈی پی لیڈر محبوبہ مفتی نے حکومت کے اقدام کو’’ دکھاوا‘‘ قرار دیا اور کہا کہ نریندر مودی نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے تدبر جیسے تدبر کا فقدان ہے۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ معتمدین خارجہ کی سطح کی بات چیت کو منسوخ نہیں کیاجانا چاہئے تھا۔ صدر نشین عوامی مجلس عمل میرواعظ عمر فاروقو نے امید ظاہر کی ہے کہ نریندر مودی حکومت اپنے فیصلے پر ’’غور مکرر‘‘ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر کوئی معاشی مسئلہ نہیں ‘‘جس کو پیکیجس کے ذریعہ حل کیاجاسکتا ہے ۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کو صرف بات چیت کے ذریعہ ہی حل کیاجاسکتا ہے ۔
آئی اے این ایس کے بموجب قائد جے کے ایل ایف یسین ملک نے آج دعویٰ کیا کہ ہندوستان کے7سابق وزرائے اعظم نے ہندستان میں کشمیر میں علیحدگی پسند قائدین اور دورہ کنندہ پاکستانی قائدین کے درمیان ملاقاتوں میں ’’سہولت‘‘ پید اکی تھی ۔ یسین ملک نے پوچھا کہ کیا وہ سب غلط تھے اور نریندر مودی حکومت’’مسٹر رائٹ‘‘ ہیں۔ ٹائمز ناؤ چینل کو یسین ملک نے بتایا کہ’’گزشتہ 24سال سے تمام وزرائے اعظم بشمول وی پی سنگھ ، اندر کمار گجرال، اٹل بہاری واجپائی سے لے کر منموہن سنگھ تک سبھی نے دورہ کنندہ پاکستان قائدین اور کشمیری علیحدگی پسندوں کے درمیان ایسی ملاقاتوں میں سہولت پیدا کی تھی ۔‘‘ حتی کہ اب موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ وہ واجپائی کے نقش قدم پر چلیں گے ، جب(صدر پرویز مشرف)آگرہ چوٹی ملاقات2001کے لئے آئے تھے تب انہوں نے کشمیری قائدین سے ملاقات کی تھیں۔ سابق وزرائے اعظم نے ایسی ملاقاتوں میں سہولت پیدا کی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی ایسا کیا تھا ‘کیا ایسی ملاقاتوں میں سہولت پیدا کی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی نے بھی ایسا کیا تھا ، کیاسب غلط تھے اور یہ’’مسٹر رائٹ‘‘ ہیں۔ ادھر امریکہ نے ہند۔ پاک خارجی سطح کی بات چیت کی منسوخی کو’’بدبختی‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں سعی و کوشش کرتے رہیں چاہے کچھ بھی نتیجہ نکلے ۔ امریکہ کے ترجمان ماری ہارف نے بتایا کہ’’ہند پاک کے درمیان جاری گفتگو کا اچانک رک جانا یقیناًبد بختی کی بات ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہمیشہ چائیں گے کہ دونوں ممالک کے درمیان گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھے اور اس ضمن میں دونوں ممالک کو ہمارا تعاون ملتا رہے گا ۔ ہارف نے کہا کہ ہمیں اس بات سے کوئی واسطہ نہیں کہ گفتگو کیوں رک گئی اور اس کے کیا وجوہات ہیں؟ ہمیں صرف اس بات میں دلچسپی ہے کہ دونوں ممالک پھر سے تعمیری گفتگو کا آغا ز کریں جو دو طرفہ بہتر تعلقات پر مبنی ہو ۔ اس ضمن میں ہم اپنا خیال واضح کرچکے ہیں ۔ ہارف نے اس بات پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ کشمیر کے ضمن میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی ردو بدل نہیں ہوا ہے ۔ ہارف نے مزید کہا کہ ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ ہند پاک مزاکرات ان دونوں ممالک کے لئے ہی بہتر ثابت ہوں گے ۔ ہم پر امیدہیں کہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگا۔

India Pak Diplomatic Row Intensifies Over Separatists

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں