انتخابی شکست بعد آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں بڑی تبدیلی کا امکان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-29

انتخابی شکست بعد آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں بڑی تبدیلی کا امکان

نئی دہلی
پی ٹی آئی
زبردست انتخابی شکست سے دوچار ہونے کے بعد آل انڈیا کانگریس کمیٹی( اے آئی سی سی) میں بڑی تبدیلی کا امکان نظر آرہا ہے ۔ نسلی تبدیلی دیکھنے مل سکتی ہے کیونکہ کانگریس کو مد مقابلہ میں لانے کے لئے اس کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری جناردھن دویدی کا یہ تبصرہ کہ ستر سال سے زائد عمر کے لیڈران کو پارٹی کے سر گرم عہدوں سے دور رکھا جائے تبدیلی کا اشارہ دے ریا ہے ۔ پارٹی کے ایک اور سینئر کارکن نے پست صورتحال کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’نوشہ دیوار بالکل واضح ہے ۔ اس قسم کی پست کارکردگی کے بعد گرم خون یعنی نوجوانوں کے ذریعہ ہی فعال سیاست کا احیاء ہوسکتا ہے ۔ نوجوان ہی سیاسی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اے آئی سی سی کے تمام سکریٹریز جن کا راہول گاندھی نے پچھلے سال تقرر کیا تھا، کی عمریں45سال سے کم ہیں ۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کوئی ایسا لیڈر ہو جو ستر کے ہندسے کو پار کرچکا ہو لیکن ذہنی و جسمانی طور پر مضبوط ہو تو؟ انہوں نے کہا کہ عمر پر پابندی لگائی گئی ہے ذہنی صلاحیت پر نہیں ، اس کے متعلق رائے مثبت ہونی چاہئے ۔ بہت جلد اس بات کا ادراک ہوجائے گا کہ نوجوانوں کے لئے راہ ہموار کرنے میں ہی بہتری ہے ۔ انتخابی سیاست میں عمر جیسے عوامل کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔ میری رائے یہی ہے کہ عمر کے مسئلے پر غور ہونا چاہئے ۔ بعد ازاں انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی برا ء ت ظاہر کردی کہ’’یہ میری ذاتی رائے ہے ۔ ‘‘ یہ تبصرے اس لئے اہم کیوں کہ اے آئی سی سی کے اکثر سینئر اہلکاروں کی عمریں یا تو ستر سے زیادہ ہیں یا ستر کے قریب ہیں ۔ دویدی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ کچھ عہدے عمر کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے جب جوشی راجستھان کے پی سی سی چیف تھے ، تو انہوں نے مقابلہ جاتی انتخابات میں70سال کی عمر پر پابندی عائد کردی تھی ۔2010میں کانگریس کے براری سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈگ وجئے سنگھ اور پی چدمبرم نے یاد دلایا کہ مرحوم راجیو گاندھی کس طرح نوجوان لوگوں کو سامنے لائے، اسی وقت راہول گاندھی کو نئی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔
اے آئی سی سی لیڈر نے یہ کہتے ہوئے ان تجاویز سے انکار کردیا ہے بی جے پی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد کانگریس بھی نسلی تبدیلی پر غور کررہی ہے ، پارٹی میں طویل عرصہ سے یہ ہوتا آرہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ راہول گاندھی کو بہت پہلے ہی اس بات کا اندازہ کرلیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو آگے لانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس عوامی پارٹی ہے نہ کہ بی جے پی کی طرح مخصوص لوگوں کی پارٹی ۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی مثال پیش کی کہ وہ1999میں جنوبی دہلی سے لوک سبھا الیکشن ہار گئے تھے جب کہ ایل کے اڈوانی کو گاندھی نگر سے کامیابی ملی تھی ۔ انتخابی سیاست میں نسلی تبدیلی ہونی ضروری ہے ، ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اڈوانی بی جے پی کو فتح کی راہ پر گامزن نہیں کرسکتے ۔ جب کہ نریندر مودی میں یہ صلاحیت ہے ۔ کانگریس سے مقابلہ میں ان کی سیاست بالکل راست انداز میں کام کرتی ہے ۔ لیڈر ان کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ملک میں15کروڑ نوجوان رائے دہندگان ہیں کیا کمزور لیڈران سرگرم سیاست میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بہت ساری ریاستیں ہیں جہاں پارٹی کا احیاء نہیں ہوسکتا جیسے کہ تامل ناڈو جہاں پارٹی نے1967سے اب تک کامیابی حاصل نہیں کی ہے یہاں پارٹی کو بنیاد سے کام کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح اتر پردیش ، بہار اور مغربی بنگال میں ایسے نوجوان لیڈروں کی ضرورت ہے جو مقابلہ کرسکیں ۔ کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔انہوں نے اور بہت سے شعبہ جات کی مثال پیش کی جہاں بزرگوں نے نوجوانوں کو ذمہ داری سونپ دی ہے۔ جناردھن دویدی نے کہا اسی طرح سیاست میں بھی نسلی تبدیلی لازم ہے ۔ سیاسی تنظیموں میں عمر کے ایک خاص مرحلہ میں پہنچنے کے بعد لوگ سر گرم عہدوں پر کام نہیں کرسکتے ۔ یہ تبصرہ اس وقت سامنے آیا جب اے آئی سی سیٹ اپ میں ہونے والی نسلی تبدیلی سے متعلق ماحول گرم ہے ۔

Congmen blame infighting for poll defeat

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں