اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس - ملزمین کے خلاف یو اے پی اے قانون کے اطلاق کی منظوری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-09

اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کیس - ملزمین کے خلاف یو اے پی اے قانون کے اطلاق کی منظوری

ممبئی
یو این آئی
دہشت گردی کے ایک مقدمہ اورنگ آباد اسلحہ ضبطی معاملے میں آج یہاں مہاراشٹر کی ریاستی حکومت کے محکمہ داخلہ کے جوائنٹ سکریٹری نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے ملزمین کے خلاف یواے پی اے قانون کے اطلاق کی جو منظوری دی تھی وہ ریاست کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل کی ہدایت پر دی تھی۔ واضح رہے کہ یو اے پی اے(غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والا قانون) اور دیگر خصوصی قوانین کے ملزمین پر اطلاق کے لئے محکمہ پولیس یا محکمہ داخلہ کے اعلی افسر کی اجازت ضروری ہوتی ہے اور س کی اجازت کے بعد ہی ملزمین رپ سخت قوانین کے تحت کارروائی کی جاتی ہے اور جس کی سزائیں سزائے موت سے لے کر سزائے عمر قید تک ہوتی ہیں۔ قانون کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اجازت نامہ دئیے جانے سے قبل افسراس بات سے مکمل طور پر بذات خود مطمئن ہوجائے کہ جس ملزم یا ملزمین کے خلاف خصوصی قانون کے اطلاق کی اجازت دی جارہی ہو وہ ایک گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے پایا گیا ہو اور اس کے خلاف ٹھوس ثبوت و شواہد دستیاب ہو ۔ خصوصی مکوکا عدالت کے جج جی ٹی قادر کے روبرو ملزمین کی پیروی کرنے والے جمعیۃ علماء (ارشد مدنی) کے وکیل عبدالوہاب خان نے آج یہاں محکمہ داخلہ کے اعلی افسر آر این دیشمکھ سے جرح کی جس کے دوران انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ جس وقت متذکرہ افسر نے ملزمین کے خلاف خصوصی قانون کے اطلق کی اجازت دی تھی اس وقت اسے یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ ملزمین کے خلاف یو اے پی اے قانون کے استعمال کی اجازت دے ۔ دوران جرح افسر دیشمکھ نے اعتراف کیا کہ اس معاملے میں محکمہ داخلہ کے اعلی افسران سمیت وزیر داخلہ نے دلچسپی دکھائی تھی اور انہیں کی ایماء پر ملزمین کے خلاف ان سخت دفعات کے اطلاق کی اجازت دی گئی تھی ۔ وکیل دفاع نے جب فی الوقت ہوم ڈپارٹمنٹ میں نوڈل آفیسر کے فرائض انجام دینے والے دیشمکھ سے دریافت کیا کہ آیا انہیں اس بات کا علم ہے کہ ملزمین کو کس جرم کے ارتکاب میں گرفتار کیا گیا ہے تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کے سامنے8جولائی2006کو اے ٹی ایس نے کچھ دستاویزات پیش کئے تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمین غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے حالانکہ انہوں نے بذات خود اس بات کی تحقیقات نہیں کی تھی کہ ملزمین کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا تھا ۔دفاعی وکیل عبدالوہاب خان نے گواہ استغاثہ پر الزام عائد کیا کہ اس نے اے ٹی ایس کے اشاروں پر ریڈی میڈ ڈرافٹ پر دیوزل پر دستخط کردی تھی کیونکہ اسے معاملے کی نوعیت کا علم ہی نہیں تھا جسے آفیسر نے ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ تمام قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ملزمین پر یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی اجازت دی تھی ۔گواہ استغاثہ سے سرکاری وکیل وبھے بگاڑے نے بھی مختلف سوالات کئے جس کا گواہ نے اس کی ریکارڈ فائل میں دیکھ کر بخوبی جواب دیا جسے عدالت نے اپنے ریکارڈ میں درج کیا ۔ اسی درمیان گواہ سے فریقین کے سوال و جواب کا اختام عمل میں آیا جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کردی۔ عدالت میں جمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈوکیٹ انصار تنبولی ، ایڈوکیٹ آصف نقوی ،ایڈوکیٹ شاہد ندیم انصاری ، ایڈوکیٹ توصیف شیخ ، ایڈوکیٹ ریشب دکھاریہ و دیگر موجود تھے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں