مدرسہ عالیہ فتح پور دہلی کے متعلق وقف بورڈ کی سرد مہری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-09

مدرسہ عالیہ فتح پور دہلی کے متعلق وقف بورڈ کی سرد مہری

نئی دہلی
ایس این بی
مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پور دہلی کا قدیم ترین دینی تعلیمی ادارہ ہے ، جہاں بڑے بڑے علمائے کرام نے مسند تدریس کورونق بخشی ہے ۔ اور یہاں فارغ التحصیل طلباء کی ایک بڑی تعداد ملک اور بیرون ملک علمی، دینی ، سماجی اور سیاسی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ آج یہ مدرسہ اپنی زبوں حالی پرآنسو بہا رہا ہے اور ملی رہنماؤں کو اس دینی تعلیم گاہ کے فروغ کے لئے جو اقدامات کرنے تھے وہ انہوں نے نہیں کئے ۔ مدرسہ عالیہ کے صدر مدرس مولانا عبدالکریم اور دیگر اساتذہ کی جانب سے مسلسل یہ کوشش جاری ہے کہ مدرسہ میں دینی تعلیم کے ساتھ شام کے اوقات میں کمپیوٹر اور عصری تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیاجائے ۔ اس کے علاوہ مدرس کی جانب سے کئی بار دہلی وقف بورڈ کو درخواست دی جاچکی ہے کہ مدرسہ میں شام کے وقت طلباء کو کمپیوٹر ٹریننگ دینے اور انہیں عصری تعلیم سے واقف کرانے کے لئے کمپیوٹر اوراساتذہ کا بندوبست کیاجائے لیکن سوائے یقین دہانیوں کے وقف بورڈ نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اور اس تعلق سے اس کی سرد مہری یونہی برقرا ر ہے۔
مدرسہ عالیہ کے دفتری امور کے انچارج مولانا اسرارالحق نے روزنامہ راشٹر یہ سہارا کو بتایا کہ مدرسہ کے اساتذہ کی تنخواہ کو آج تک کوئی گریڈ ہی طے نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ اتنا پرانا مدرسہ ہونے کے باوجود یہاں باقاعدہ کوئی کلاس روم نہیں ہے اور اساتذہ مسجد کے دالان میں بیٹھ کرہی پڑھاتے ہیں جب کہ مسجد فتح پوری کی عمارت میں ایم سی ڈی کے دو اسکولوں کی جگہ خالی پڑی ہے جہاں بچے ہیں ہی نہیں ۔ ان میں ایک جگہ کٹرا بڑیان کی جانب کے گیٹ کے پاس اور دوسری کھاری باولی کی جانب اوپر ہے ۔ اگر وقف بورڈ چاہے تو اس جگہ کو مدرسہ عالیہ کو دے سکتا ہے لیکن اس جانب بھی کبھی توجہ نہیں کی گئی ۔مولانا اسرار الحق نے کہا کہ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں جو طلباء اپنے گھروں کو نہیں جاتے اور مدرسہ میں ہی رہ جاتے ہیں۔ان کے لئے وقف بورڈ کی جانب سے سحری اور افطار کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔ مدرسہ میں کوئی مطبخ نہیں ہے ۔
اس سلسلے میں وقف بورڈ کے نگراں مساجد حافظ محفوظ محمد نے بتایا کہ مدرسہ عالیہ کو نوبل ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے2007-08میں طلباء کو کمپیوٹر تعلیم دلانے کے لئے10کمپیوٹر اور ٹرینر دینے کا فیصلہ کرلیا تھا اور ان کے رکھ رکھاؤ اور خرچ وقف بورڈ کو برداشت کرنا تھا ۔ اس وقت کے لیفٹننٹ گورنر تجبندر کھنہ نے بھی خط بھیج کر اس قدم کی ستائش کی تھی ۔ نوبل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے صدر سراج الدین قریشی کی صرف یہ درخواست تھی کہ مدرسہ کے اوقات میں مدرسہ کے طلباء کمپیوٹر ٹریننگ لیں گے اور مدرسہ کے اوقات کے بعد غریب مسلم لڑکوں کو مفت ٹریننگ دی جائے گی ، اس پر مدرسے کے ذمہ دار آمادہ نہیں ہوئے اور یہ منصوبہ نامکمل رہ گیا۔ حافظ محفوظ نے مدرسہ کو جگہ فراہم کرائے جانے کے تعلق سے کہا کہ اس پر وقف بورڈ میں غور ہوچکا ہے لیکن ابھی تو اس جگہ کو ایم سی ڈی سے خالی کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ خالی ہوجانے کے بعد مدرسہ کو دی جاسکتی ہے ۔رمضان میں طلباء کے سحر و افطار کا انتظام کئے جانے سے متعلق انہوں نے کہاکہ وقف بورڈ کے علم میں تو یہ بات ہے کہ رمضان میں طلباء اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں ، بورڈ کو ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ مدرسہ میں طلبا رکے ہوئے ہیں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں