تبصرۂ کتاب - ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-17

تبصرۂ کتاب - ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات

Dr-Sheela-Raj-ki-taarikhi-wo-Adabi-Khidmaat
کتاب: ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات
مصنف: ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مبصر: ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم

وہ دن ہوا ہوئے جہاں معاشرے میں مذہبی رواداری ،غم گساری،غم خواری اور امدادِ باہمی کے عملی نمونے دیکھنے کو ملتے تھے۔اب تو نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ انسان کو سوائے خود کے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔شہروں میں کہیں کوئی حادثہ ہو جائے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایکسیڈینٹ کرنے والے کا مذہب کیا ہے یا زخمی شخص کا تعلق کس مذہب سے ہے پھر اس حساب سے لوگ جمع ہونے لگتے ہیں اور سیاست کا شرمناک کھیل شروع ہوجاتا ہے ۔اس پُرآشوب دور میں اگر ہم ان شخصیات کا مطالعہ کریں جن کا ایمان مذہبی رواداری تھا۔جن کا عقیدہ انسان دوستی رہا اور جن کا طور طریق غمگساری و غمخواری رہا ہو تو ہمیں کچھ نہ کچھ روشنی حاصل ہوکر رہ گی اور ہمارے ذہن و قلب کو طمانیت نصیب ہوگی ۔ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹر شیلا راج کی ہے۔
ڈاکٹر شیلا راج حیدرآبادی تہذیب و معاشرت کی ترجمان رہی ہیں ۔انھیں اردو زبان و ثقافت سے گہری محبت تھی۔وہ قومی یکجہتی کا علمبردار سمجھی جاتی رہی ہیں ۔ویسے حیدرآباد کے کائست گھرانوں نے اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے۔ڈاکٹر شیلا راج کا تعلق بھی ایسے ہی علمی گھرانے سے رہا ہے۔وہ ایک عظیم اسکالر،تاریخ داں اور آصف جاہی عہد کی تاریخ پراتھاریٹی سمجھی جانے والی خاتون ہیں۔انھوں نے نہ صرف ارد و ادب اور تاریخ سے ایم اے کیا بلکہ کچھ دنوں کے لئے محبوبیہ کالج میں اردو کی لیکچر ر بھی رہیں۔انہوں نے بے شمار ادبی،تاریخی،تہذیبی و ثقافتی مضامین وتصانیف رقم کرکے ایک نئی تاریخ بنائی ہے۔ایسی ہمہ پہلو سخصیت پر ایم فل یا پی ایچ ڈی سطح پر کام ہونا تو طئے تھاآخر کار اس کا قرعہ ڈاکٹر عزیز سہیل کے نام نکلااور انھوں نے نہایت مستعدی سے اپنا مقالہ نہایت کم وقت پروفیسر فاطمہ پروین کی نگرانی میں میں تحریر کیا جس پرعثمانیہ یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے انہیں نوازا۔اور ایک سال کے اندر اندر پی ایچ ڈی کے مقالے کی اشاعت کی مثالیں شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ڈاکٹر عزیز سہیل ایک نوجوان محقق اور مبصر ہیں۔اس سے قبل عزیز سہیل کی پہلی تصنیف "ادبی نگینے"شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہے۔اب یہ ان کی دوسری تصنیف ہے جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز نئی دلی سے شائع ہوئی ہے۔لیکن اپنے پیشِ لفظ میں یہ نہیں بتایا کہ آیا ڈاکٹر شیلا راج پر کسی اور یونیورسٹی میں ایم فل یا پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا گیا ہے یا نہیں؟
مصنف نے اپنی تصنیف "شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات "کو جملہ نو ابواب میں تقسیم کیا ہے۔پہلا باب خاندانی پس منظر کے لئے وقف ہے جس میں مصنف نے نہایت شرح وبسط سے ڈاکٹر شیلا راج کے خاندان کا تعارف کروایا ہے۔دوسرا باب،حیات و شخصیت کا احاطہ کرتا ہے۔جس میں انھوں نے ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخِ ولادت ،مقامِ پیدائش،تعلیم،شادی،انعامات و اعزازات اور دیگر سماجی خدمات پر روشنی ڈالی ہے۔کتاب کا تیسرا با ب ڈاکٹر شیلا راج کے تاریخی و ادبی کارناموں کی تفصیل بیان کرتا ہے ۔مصنف نے نہایت غیر جانب داری سے ڈاکٹر شیلا راج کی مختلف تصانیف پر تبصرہ کیا ہے جس میں عہدِ وسطیٰ سے عہدِ حاضر ،ایک عہد کی کہانی ،شاہانِ آصفیہ کی رواداری اور ہندو مسلم روایات اور ایک غیر مطبوعہ تصنیف پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔چوتھے باب میں ڈاکٹر شیلا راج کی مرتب کردہ تصانیف جیسے دیوانِ محبوب ا ور دیوانِ حالی کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے ۔
زیر نظر تصنیف کا پانچواں باب ڈاکٹر شیلا راج کے تراجم کو محیط ہے جس میں نہ صرف شیلا راج کی ترجمہ نگاری پر بحث کی گئی ہے بلکہ ان کے تراجم پر سیر حاصل گفتگو بھی کی گئی ۔ان تراجم میں توشہ عاقبت ، شاہی شادی اور مملکتِ آصفیہ لائقِ ذکر ہیں۔ چھٹا باب ڈاکٹر شیلا راج کی مضمون نگاری کے لیے
کے لیے مخصوص ہے ۔مصنف نے نہ صرف ڈاکٹر شیلا راج کا پہلا مطبوعہ مضمون ڈھونڈھ نکالا بلکہ انگریزی اور اردو میں لکھے گئے مضامین کی بھی فہرست تیار کی ہے ۔ آصف جاہی عہد اور ڈاکٹر شیلا راج کے عنوان سے ساتواں باب رقم کیا ہے۔چوں کہ ڈاکٹر شیلا راج اس موضوع پر اتھاریٹی تصور کی جا تی ہیں اس لیے اس باب میں ان تمام پہلووں کو روشن کیا گیا ہے ۔آٹھواں باب ڈاکٹر شیلا راج سے متعلق مشاہیر کی آرا پر مبنی ہے جبکہ نویں باب میں پوری کتاب کا عمومی جائیزہ لیا گیا ہے۔
پرنس مفخم جاہ بہادر نے ڈاکٹر شیلا راج کی تصنیف " عہد وسطیٰ سے عہدِ حاضر تک حیدرآباد کی معاشی و تہذیبی تاریخ" پر تبصرہ کرتے ہوے کہا تھا کہ:
" ڈاکٹر راج کی تصنیف ریاشت حیدرآباد کی تصویر ایک سماجی ، معاشی اور تہذیبی تصویر ہے۔یہ ایک نہیں بلکہ
دو وجوہات کی وجہ سے بے حد قیمتی ہے۔ایک تو یہ کہ ہندوستان کے سابق والیان ریاست کی ابتدائ تاریخ کو
انہوں نے اس وقت کے پیچیدہ اور پر آشوب دور کو سمجھ کر تصویر کشی کی،ہماری ملکی تاریخ میں انہوں نے ہمارے
تاریک ماضی کو روشن کیا ہے اور ایک ہندوستانی ریاست کے سیاسی و شخصی چوکھٹے پر خصوصی اور کارآمد توجہ کی ہے۔
اس موضوع پر اس طرح کے کام کی سخت ضرورت تھی اور ان کے کمال کے سلیقے سے ڈاکٹر راج اپنی صلاحیتوں
کے لیے ستائش کی مستحق ہیں۔"

ڈاکٹر عزیز سہیل ایک منکسرالمز اج شخصیت کے مالک ہیں اس لیے انھوں نے پورا مقالہ نہایت ادب و احترام مگر حق گوئ و بے باکی کے ساتھ تحریر کیا ہے۔انھوں نے مختلف ذرائع سے مواد اکٹھا کیا،افرادِ خاندان سے انٹرویو لیے اور اپنی راے بھی لکھی اور نہایت تہذیب و ترتیب کے ساتھ مقالہ کی صورت گری کی ہے ۔ڈاکٹر شیلا راج کی نادر تصاویر کو بھی شاملِ تصنیف کیا ہے۔اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے انہوں نے مختلف محققوں اور نقادوں کی آرا کو بھی نقل کیا ہے ۔کتاب میں شامل اقتباسات کا دیانت داری کے ساتھ ان کا حوالہ بھی درج کیا ہے۔عمومی جائیزہ میں مصنف نے ڈاکٹر شیلا راج سے متعلق یہ راے قائم کی ہے۔:
"ڈاکٹر شیلا راج علاقہ دکن کی ایک معتبر نام ہے، انہیں دکن کی پہلی تاریخ داں خاتو ن قرار دیا جاتاہے،انہوں نے
اپنی تصانیف کے ذریعے ریاست حیدرآباد اور آصف جاہی حکمرانوں کے کارناموں کو اجاگر کیا ہے۔وہ ایک
سیکولر مصنفہ تھیں،ان کا تعلق ہندو مذہب کے ایک کائستھ خاندان سے تھا لیکن انہوں نے ایک مثال قائم کرتے
ہوے آصف جاہی حکمرانوں کی مذہبی رواداری کو کھول کھول کر بیان کیا ہے،جس کی نہ صرف ہندوستان بلکہ
بیرون ملک بھی ستائش کی گئی۔"
(ص 326)

یہ بات بلا شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ حیدرآباد کے کائستھ خاندان خصوصاً ڈاکٹر شیلا راج اور ان کے افرادِ خاندان کی اردو زبان وادب کی بے انتہا اور بے لوث خدمت کی ہے اور انہوں نے اردو تہذیب و معاشرت کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ اس کے تحفظ میں کوئ کسر نہیں چھوڑی ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر شیلا راج اور ان کے افرادِ خاندان کی طرف سے مختلف جامعات میں تاریخ ،ہندی زبان اور ویمن اسٹڈیز کے مضامین میں گولڈ میڈل دیے جارہے ہیں۔مگر یہ حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی جامعہ میں ان کے خاندان کی جانب سے اردو ادب کے مضمون پر کوئ گولڈ میڈل نہیں دیا گیا ہے ۔ڈاکٹر شیلا راج کے افرادِ خاندان کو اس جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یقینِ کامل ہے کہ ڈاکٹر شیلا راج میموریل گولڈ میڈل کسی نہ کسی جامعہ میں اردو ادب کے طالب علم کو بھی نوازا جاے گا۔
زیر تبصرہ تصنیف کا پیش گفتار پروفیسر فاطمہ پروین نے تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر شیلا راج اور ڈاکٹر عزیز سہیل کا تعارف کروایا ہے جبکہ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے اپنے پیش رس میں ڈاکٹر شیلا راج کی حیات و خدمات کے اہم پہلووں کو روشن کرکے مصنف کی ہمت افزائ کی ہے۔
ڈاکٹر اسلم فاروقی نے عزیز نامہ لکھ کر حق دوستی ادا کیا ہے جبکہ مصنف نے دیباچہ میں اپنے اساتذہ اور تمام دوست واحباب(سواے راقم) کا شکریہ ادا کیا ہے ۔
بہترین کمپوزنگ ، نفیس طباعت ، معیاری کاغذ،خوبصورت ٹائیٹل، تقریباً(350) صفحات مجلد کتاب کی قیمت (350) روپیےِ رکھی گئی ہے، جسے نرہری پرشاد چیارٹیبل ٹرست حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع کیا گیا ہے ۔ کتاب کے حصول کے لیے مصنف (9299655396) سے ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس خوبصورت تصنیف کی اشاعت پر مصنف مبارکباد کا مستحق ہے۔

***
dramsf[@]yahoo.com
موبائل : 09849377948
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

A Review on book 'Dr Sheela Raj ki taarikhi wo Adabi Khidmaat' by Dr M.A.Aziz Sohail. Reviewer: Dr. Syed Fazlullah Mukarram

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں