شب قدر کی عظمت و برکت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-17

شب قدر کی عظمت و برکت

The-greatness-of-Shab-e-Qadr
اللہ تعالیٰ کی آخری اور جامع کتاب قرآن مجید کی نسبت کی وجہ سے شب قدردیگر راتوں سے زیادہ باعظمت و بابرکت ہے جس رات کو قرآن پاک نے لیلۃ القدر سے موسوم کیا ہے جس کے معنی حضرت امام زہریؒ (متوفی۔۱۲۴ھ) کے پاس مرتبہ کے ہیں چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے اس لئے اسے لیلۃ القدر کہاجاتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے مروی ہے چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر کے فیصلے کے قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے اس وجہ سے یہ رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے اس رات کو قدرکے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قابل قدر کتاب اپنے محبوب ﷺ کی قابل قدر امت کے لئے صاحب قدر رسول ﷺ کی معرفت نازل فرمائی ۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ قدر میں لفظ قدر تین مرتبہ آیا ہے ۔ قدر کے معنی تنگی کے بھی آتے ہیں اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی رات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے امام ابو بکر وراق ؒ قدر کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے ،اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہ تھا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص نے شب قدر میں اجروثواب کی امید سے عبادت کی اس کے سابقہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ بخاری و مسلم۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا شب قدر میں جبرئیل امین ؑ فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے بیٹھے کسی بھی حال میں اللہ تعالیٰ کویاد کرتا ہے اس بات کو سورۃ القدر میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ فرشتے اور جبرئیل امین اسی رات میں اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں ۔
رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا یہ جو ماہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ہو۔
اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی و پوشیدہ ہونے کی متعدد حکمتیں ہیں جس طرح اسم اعظم اورجمعہ کے روز قبولیتِ دعا کی گھڑی مخفی و پوشیدہ ہے اسی طرح شب قدر کو بھی پوشیدہ رکھا گیا ہے اگراس کو پوشیدہ نہ رکھاجاتا تو عمل کی راہ مسدود ہوجاتی ہے اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کرلیاجاتا۔ اور ذوق عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکارا نہیں کیا گیا اللہ تعالیٰ کو چونکہ اپنے بندوں کارات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب و پسندیدہ ہے ، اس لئے رات کا تعین نہ فرمایا تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزاریں ۔ عدم تعیین کی وجہ گناہگاروں پر شفقت بھی ہے کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کاجرم بھی لکھا جاتا۔
اس متبرک رات یعنی شب قدر کے تعین کے بارے میں تقریباً پچاس اقوال ہیں ان میں سے کچھ اقوال نہایت ہی قابل توجہ ہیں ، شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے بخاری شریف جلد اول میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
ابو داؤد شریف میں حضرت عبداللہ بن انیسؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک ایسا شخص ہوں جو ویرانے میں رہتا ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے نماز ادا کرتاہوں آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں کون سی رات آپ کے ہاں مسجد نبوی میں بسر کرنے کے لئے آؤں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا رمضان کی تئیسویں رات آجاؤ ، یہ صحابی ہمیشہ تئیسویں رات کو مسجد میں آکر جاگا کرتے ۔ لوگوں نے آپ کے صاحبزادے سے پوچھا کہ بتاؤ آپکے والد اس رات کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہا کہ وہ عصرکے بعد سے صبح تک مسجد سے بغیر کسی حاجت کے باہر نہ آتے اور صبح اپنی سواری پر سوار ہوکر مسجد کے دروازے سے اپنے دیہات کی طرف روانہ ہوجاتے۔ تعین شب قدر کے بارے میں حضور اکرم ﷺ کا آگاہ فرمانا صرف دور صحابہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اپنے محبوب غلاموں پر اس شفقت کا سلسلہ تا قیامت جاری ہے ۔
محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ نقشبندیؒ نے اپنی تصنیف گلزار اولیاء میں تلاش شب قدر کے لئے حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی ؒ (متوفی۴۲۵ھ) کا ایک مکاشفہ تحریر فرمایا کہ اگر ماہ رمضان کی پہلی تاریخ شنبہ کے دن ہو تو شب قدر تئیسویں رات اور پہلی تاریخ پنجشنبہ ہو تو شب قدر پچیسویں رات اور پہلی تاریخ دو شنبہ اور جمعہ کو ہو تو ستائیسویں رات شب قدر اور اگر پہلی تاریخ یکشنبہ یا چہار شنبہ ہو تو انتیسویں رات شب قدر ہے ۔
سرتاج مفسر قرآن حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ ستائیسویں شب کو شب قدر قرار دیتے ہوئے تین دلیلیں بیان فرماتے ہیں(۱)لیلۃ القدر کے الفاظ نو حروف پر مشتمل ہیں اور یہ الفاظ اس سورہ مبارکہ میں تین مرتبہ آئے ہیں جن کا مجموعہ ستائیس بن جاتا ہے امام فخر الدین رازیؒ آپ کی دلیل ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ لیلۃ القدر کے نو حروف ہیں اور اس کا تذکرہ تین دفعہ ہوا ہے اور مجموعہ ستائیس ہوگا ۔ سورہ القدر کے کل تیس الفاظ ہیں جن کے ذریعہ شب قدر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے لیکن اس سورہ میں جس لفظ کے ساتھ اس رات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ لفظ’’ ھِیَ‘‘ ہے جو شب قدر کی طرف اشارہ ہے اور یہ سورہ کا ستائیسواں لفظ ہے اور اس دلیل کو امام ابو بکر الوراق نے بھی اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۔

The greatness of Shab-e-Qadr

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں