زکوۃ اور اس کے فائدے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-13

زکوۃ اور اس کے فائدے

Zakat-and-its-benefits
قرآن مجید میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃ کا ذکر82 مقامات پر آیا ہے۔(مظاہرحق ، ترجمہ مشکوۃ از نواب قطب الدین خان دہلوی)چنانچہ اقیمو الصلوۃ و اٰتوالزکوۃ سے پورا قرآن بھرا ہوا ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے اوصاف جہاں جہاں بیان کئے گئے ہیں وہاں بھی یقیمون الصلوۃ ویوتون الزکوۃآیا ہے رسول اللہﷺ نے زکوۃ کو اسلام کے بنیادی ارکان میں شمار فرمایا ہے ۔ آپؐ کا ارشاد ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے(1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔(2)نماز قائم کرنا(3)زکوۃ دینا(4) حج کرنا۔(5)رمضان کے روزے رکھنا۔ آپ ؐ سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، فرض نماز قائم کرو ، زکوۃ ادا کرو ، اور رمضان کے روزے رکھو ۔ حضرت ضمان بن ثعلبہؓ نے رسول اللہ ؐ سے دریافت کیا کہ میں آپ سے قسم دلا کر پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا کہ آپ ؐ ہمارے اغنیا سے زکوۃ حاصل کریں اور فقراء میں تقسیم کردیں۔ آپؐ نے فرمایا ہاں بالکل۔
اس موضوع پر اتنی زیادہ حدیثیں ہیں کہ جن کا شمار کرنا ناممکن ہے وہ حد تواتر تک پہنچ گئی ہیں اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ زکوۃ نماز کے ساتھ لازم و ملزوم ہے ۔ اسلام نے جو زکوۃ مسلمانوں پر فرض کی ہے وہ ہمدردی، غمخواری اور حسن سلوک کی کم سے کم حد ہے ۔ یہ ایسافریضہ ہے جس سے رو گردانی اللہ تعالیٰ کو کسی صورت میں منظور نہیں۔ اسلامی شریعت نے نہایت جزم اور سختی کے ساتھ اس کا مطالبہ کیا اور اس کو اسلامی شریعت میں مسلمانوں کا شعار اور دین کے بنیادی ارکان میں سے قرار دیا جیسا کہ قرآن مجید میں ۃے ۔ مفہوم: لیکن اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوۃ دینے لگیں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہوجائیں گے (سورہ توبہ) جو اس کا منکر ہوگا یا اس کی ادائیگی سے جان بوجھ کر رو گردانی کرے گا وہ اسلام کے دائر ہ سے خارج اور جمہور امت سے علیحدہ سمجھاجائے گا۔
زکوۃ کی اہمیت:زکوۃ کی اسلام کے اندر کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ عہد صدیقی کے اس واقعہ سے معلو ہوتا ہے کہ جب رسول اللہؐ کی وفات کے بعد کچھ قبائل جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے انہوں نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا تھا حالات کی نزاکت کو دیکھ کر حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہؓ نے مصالحانہ رویہ اپنانا مناسب سمجھا مگر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے جوش ایمانی نے اس کو گوارہ نہیں کیا کہ دین کے بنیادی ارکان میں اس طرح من مانی کرنے کی اجازت دیدیں۔ انہوں نے فرمایا:
اینقص الدین وانا حی۔
کیا میرے جیتے جی دین میں کتربیونت کی جائے گی۔ خدا کی قسم ایک رسی کا ٹکڑا جسے وہ لوگ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں دیتے تھے اگر اب نہیں دیں گے تو اس کے لئے بھی ان سے جہاد کروں گا ۔(مشکوۃ شریف)اور زکوۃ کی اہمیت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ زکوۃ اسلام کا پل ہے ۔
زکوۃ کا مقصد: زکوۃ کا اصل مقصد بظاہر تو یہ ہے کہ غربا اور مساکین کی امداد ہوسکے اور آپس میں میل محبت پیدا ہو اور دوسری چیز یہ کہ سوسائٹی کا معیار معیشت معیار مطلوب سے نیچے نہ گرنے پائے ۔ لیکن اگر اس کی باطنی حیثیت پر غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کے متعین کرنے کا اولین اور سب سے بڑا اجتماعی مقصد یہ ہے کہ اس سے منکرات و مفاسد کا ازالہ ہوتا ہے ۔ یہ چیز ہر شخص جانتا ہے کہ بخل ، حرص وطمع ، اور تنگ دلی اور حرام مال کا کمانا، انسانیت کی پستی اور تباہی کے پیش خیمے ہیں، ان سب کا بہترین اور موثر علاج اس کے سوااور کچھ نہیں ہوسکتا کہ انسان دنیاوی مال و متاع کی محبت اپنے دل سے ختم کر کے آخرت کا فکر مند بنے اور زکوۃ پر التزام کے ساتھ عمل کرتا رہے جب تک انسان اپنے محبوب مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ نہ کرے گا اس وقت تک ہدایت اس سے پوری طرح وابستہ نہیں ہوگی ۔ زکوۃ اور اللہ کے دیگر احکام کو جب کوئی بندہ پوری مستعدی سے ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہر نیک کاموں کی طرف مائل کردیتا ہے اور اس کے دل سے تمام برائیاں بھی ختم کردیتا ہے اور جب زکوۃ کا اثر ہیئت اجتماعیہ پر پڑنے لگے تو پھر نہ صرف انسان انفرادی رذائل سے نجات پاسکتا ہے بلکہ اجتماعی مفاسد سے اسے نجات مل سکتی ہے کیونکہ اس دنیا ئے فانی میں دوہی چیزیں عام طور پر ہلاکت و بربادی کا سبب بنتی ہیں مال اور اولاد ۔ ارشاد ربانی ہے۔ مفہوم: مال اور بیٹے رونق ہیں دنیا کی زندگی میں اور باقی رہنے والی نیکیوں کا بہتر بدلا ہے تیرے رب کے پاس اور بہتر ہے توقع۔(سورہ کہف،آیت 46)
زکوۃ کے دنیوے فائدے: زکوۃ کا اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام آخرت میں ملے گا اس کے علاوہ اس دنیوی زندگی میں بھی اس سے بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ زکوۃ ادا کرنے والے مومن کا دل بڑا خوش اور مطمئن رہتا ہے ، غریبوں کو حسد نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کی بہتری چاہتے ہیں اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں اوراس کی طرف محبت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔ عام دنیا کی نظروں میں بھی ایسے شخص کی بڑی وقعت ہوتی ہے اور سب لوگوں کی محبت و ہمدردی ایسے شخص کو حاصل ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے مال میں بڑی برکتیں دیتا ہے زکوہ خدا کا خوف اور اطاعت ہے ۔ رسول اللہ ؐ نے بھی زکوۃ کی تعریف فرمائی ہے اور مسلمانوں کے مال میں اس کی وجہ سے جو خیر و برکت ہوتی ہے اس کا ذکر کیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے ۔ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم تو میرے غریب و حاجت مند بندوں پر اور نیکی کے دوسرے کاموں میں میرا دیا ہوا مال خرچ کیے جاؤ میں تجھ کو برابر دئیے جاؤں گا یعنی زکوۃ جو شخص دیگا اس کے مال میں کمی نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دے گا۔
زکوۃ کا ثواب: اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے یہ کہ اس نے زکوۃ کا بہت بڑا ثواب مقرر کیا ہے حالانکہ زکوۃ دینے والا بندہ جو کچھ دیتا ہے اللہ تعالیٰ ہی کے دئے ہوئے مال میں سے دیتا ہے اس لئے اگر اللہ پاک اس پر کوئی ثواب نہ دیتا تو بالکل حق تھا مگر اسکا کرم ہی کرم ہے اس کے دئیے ہوئے مال میں سے ہم جو کچھ اس کے حکم سے زکوۃ کے طور پر اس کی راہ میں خر چ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس سے بہت خوش ہوتا ہے اور اس پر بڑے بڑے ثوابوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔ مفہوم: جو شخص اللہ کو قرض حسن دے اللہ اس کے لئے اس اجر کو کئی گنا زیادہ کردیتا ہے۔(سورہ بقرہ،پ3) دوسری جگہ قرآں مجید میں ارشاد ہے۔ مفہوم: جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کرنے کی مثال اس دانہ کی سی ہے جس سے پودا اگے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اور اللہ بڑھاتا ہے جس کے واسطے چاہے ، وہ بڑی وسعت والا ہے سب کچھ جانتا ہے جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر نہ وہ احسان جتاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں انکے واسطے انکے رب کے پاس بڑا ثواب ہے اور انہیں قیامت میں کوئی خوف و خطرہ نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سورہ بقرہ)
زکوۃ نہ دینے کا دردناک عذاب: زکوۃ نہ دینے والوں کا جو برا انجام ہونے والا ہے اور جو سخت سزا ان کو ملے والی ہے وہ اتنی سخت ہے کہ اس کو سن کر ورنگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔ مفہوم: جو لوگ سونا چاندی(مال ودولت) جوڑ کے رکھتے ہیں اور اس کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی ان پر جو زکوۃ وغیرہ فرض ہے اس کو ادا نہیں کرتے) اے رسول اللہؐ تم انہیں سخت دردناک عذاب کی خبر سنا دو جس دن کے تپایا جائے گا ان کی اس دولت کو دوزخ کی آگ میں پھر داغی جائیں گی اس سے ان کی پیشانیاں اور ان کی کروٹیں اور پیٹھیں اور کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ مال ودولت ہے جس کو تم نے جوڑا تھا اپنے واسطے پس مزہ چکھو اپنی جوڑی ہوئی دولت کا(سورہ توبہ) حضرت ابو ہریرہؓ رسول اللہؐ سے روایت کرتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوۃ ادا نہیں کی اس کا مال قیامت کے دن ایک سانپکی شکل میں لایا جائے گا جس کی دو زبانیں ہوں گی اور اس کی گردن میں ڈال دیاجائے گا اس کو اپنے دونوں جبڑوں میں جکڑے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں پھر آؤ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
ولا یحسبن الذین یبخلون
خلاصہ: یہ ہے کہ جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت کا روپیہ ہو اور وہ زکوۃ ادا کررہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو ثواب دے گا اور اگر نہیں ادا کرے گا تو عذاب دے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پوری پوری زکوۃ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Zakat and its benefits

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں