ہم کیوں ڈریں ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-11

ہم کیوں ڈریں ؟

Why-should-we-be-afraid
اکثریت کی پسند کو اقلیت پر تھوپنے کو جمہوریت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ جس طرح اکثریت کے لئے اقتدار کا پہلوہے اسی طرح جمہوریت میں ایک اور اہم پہلو اقلیتوں کے حقوق ہیں۔ دونوں پیروں کی طرح جب یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کام کریں گی تب ہی حکومت لوگوں کی ہوسکتی ہے۔ حکومت کو تشکیل دینے اور عام دلچسپیوں کو پہچاننے کے لئے اکثریت کی رائے کو اہمیت حاصل ہے ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ اہمیت غلط طور پر استعمال نہ ہو۔ حق ایسی چیز نہیں کہ اسے عام انتخابات کے ذریعہ روک دیا جائے خواہ ایک فرد کا حق ہی کیوں نہ ہو۔ پوری دنیا اس بات کو یکساں طور پر مانتی ہے کہ اکثریت کے ہاتھوں اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت ہونی چاہیے۔ یہ خیال عام طور پرمفقود ہونے کے با وجودمظلوموں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی ذمہ داری تو ادا کرتا ہے ۔بلکہ یہاں حقو ق کی لڑائی کے دروازے بھی کھولے رہتے ہیں۔ اس لڑائی میں فیصلہ کن طاقت اقتدار یا افراد کا زور نہیں ہوتا۔ حقوق کا احساس ایک کمزور کوایسی قوت ارادی عطا کرتاہے جس سے وہ کسی بھی چیز سے آگے بڑھ سکتاہے۔بس اسے اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ڈر کی چادر کو چاک کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے۔ساری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ مسلمان ڈر اور خوف کا شکار ہیں۔اس بات میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ میانمارو سری لنکا ، عراق و افغانستان ، فلسطین و پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہر جگہ کی یہی صورت حال ہے۔ ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ سائنٹفک طریقے پر اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی ذمہ داری رکھنے والی قیادت کا نہ ہوناعام انسان کی حالت اور بھی کمزور کردیتی ہے۔اب جو حکومت کی تبدیلی ہوئی ہے ، اس سے بھی ڈر بڑھتا جا رہا ہے۔لوٹ مار، قتل وغارت گری اور قانون کی طرف سے تحفظ فراہم نہ ہونے سے مسلمانوں میں علیحدہ کر دئے جانے کا خیال مضبوط ہوتا جا رہاہے ۔اسی لئے یہ لوگ ملک کے عام نظام پر پوری طرح اعتماد نہیں کر پاتے ہیں۔یہاں مسلمانوں کو خود اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ایسی صورت میں جب ہر چیز کا صحیح جائزہ نہ لیا جائے اورماضی کے تجربات کے ذریعہ اس کا موازنہ نہ کیا جائے تو اور زیادہ خطرہ لا حق ہونے کا امکان ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام صورتحال کو صحیح طور پر سمجھ کر مفید اور کار آمد کارروائی کی جائے۔ ڈر یا جذبات کے غلام بن جانے سے مخالف نتیجہ مرتب ہوگا۔ کیونکہ ڈر اور جذبات سے کسی بھی چیز پر قابو نہیں پا یا جا سکتا۔ ان سب سے ہٹ کراس کام کو انجام دینے والا یہ خیال ہے کہ چند زندگی کے مقاصد،اقدار اور ذمہ داریاں اس کا انتظار کر رہی ہیں۔اقدار سے افراد کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔مخالف حالات کا سامنا کر نے کی ہمت،اور فیصلہ کرنے کی طاقت اس سے ایک فرد کو حاصل ہوتی ہے۔دفاع کے ذریعہ جو انسانی ضرورت ہے مخالف طاقتوں کے خلاف ثابت قدمی کا مظاہر ہ کرسکتے ہیں۔مایوسی اور نا امیدی ان کی اندرونی طاقت کو کمزور نہیں کر سکتی ۔کیونکہ عقیدہ اور ایمان کی شکل میں ان افراد کے اندر ایک زبردست طاقت کا مادہ پایاجاتاہے۔لیکن صرف اس کا ہونا کوئی فائدہ نہیں ۔اس سے بیداری لانا بھی ضروری ہے۔ڈر کو دور کرنے کی صلاحیت ایک چراغ کی طرح ہے۔گھر کے اندر صرف چراغ کے ہونے سے روشنی نہیں ملتی۔اس کو جلانا بھی چاہیے۔جب خطرہ کا امکان دل کے اندر تاریکی پیدا کر دیتی ہے تو اس وقت اگر دل کے اندر کی اس طاقت کو اگر روشن کرلیا جائے۔ اس سے حقیقت سمجھ میں بھی آئے گی اور ڈر کی وجوہات کا بھی اندازہ ہوجائے گا۔سماج میں اخلاقی انقلاب پیدا کرنے اور اقدار کو قائم رکھنے والی یہی روشنی تھی ۔ اس کے بارے میں انبیاء کرام اور نشأ ۃ ثانیہ کے لئے آگے آنے والوں کی زندگی کی شہادت ہمارے سامنے ہے۔ان کی اندرونی روشنی نے محض ان کو ہی نہیں بلکہ ان کے آس پاس کے تمام لوگوں کو راہ دکھانے اور سماج کو اپنے مقصد کو پورا کرنے میں کامیاب بنایا۔جب ایمان اور زندگی اللہ کے حوالے کردیا جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس طاقت میں مزید اضافہ ضرور ہوگا۔ یہ انسان کے اندرچھپ کر رہنے والا سب سے بڑا ہتھیا ر بھی ہے۔
انسان کی کامیابی اور ترقی کے لئے ضروری طور پر اس کے اندر پائے جانے والے صفات ہمت اور نڈر پن ہے۔انسان اگر ڈر کا شکار ہو جا تا تو وہ سمندر اور آسمان میں سفر نہیں کر پاتا۔زمین کھود کر اس کے خزانوں کو باہر نہ نکال پاتا۔جنگلی جانوروں پر قبضہ کر کے اس زمین کو اپنا نہ بنا پاتا۔کمزوروں کو آزادی نہیں مل پاتی ۔حقوق کو نہ چھینا جاتا۔دنیا میں کہیں بھی جمہوریت پائی ہی نہ جاتی ۔نشأۃ ثانیہ نا ممکن سی ہوجاتی ۔نڈرپن کو اللہ تعالی نے انسان اور اس کی کامیابی کے درمیان ایک پل بنا یا ہے۔زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے اس پل سے ہر حال میں گذر نا پڑے گا۔ ڈر کے شکار افراد چیلنجوں کو قبول نہیں کر سکتے ۔اسی وجہ سے سماجی تبدیلی کی ان کے ایجنڈے میں کوئی جگہ ہی نہیں ہوتی۔مخالفین کا سامنا کئے بغیر کس طرح سماجی تبدیلی حاصل ہوسکتی ہے؟عقل مند لوگ تو وہ ہیں جو اپنے زمانے کی انسانی ہمت کو سمجھ کر، اس کے سامنے آنے والی رکاوٹوں کو ناپ تول کرمیدان عمل میں آگے بڑھتے ہیں۔ترقی کی راہ میں خطرے ہوتے ہیں۔اگر ان کا سامنا کر نے کے لئے تیار نہ ہوں تو ترقی حاصل نہیں کر سکتے ۔ان سے بچ نکلنا اس کا حل نہیں ہے۔درد و الم بھی اسی طرح ہے۔ اس کو سامنے دیکھ کر راستہ سے رو گردانی نہ کریں۔یہ جذبہ ہمیں آگے لے جا نا چاہیے کہ درد کے آگے چند سہولتیں انتظار کر رہی ہیں۔زندگی میں اونچ نیچ ہوناایک عام بات ہے۔جو شخص امن و سلامتی سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اسے مصائب و مشکلات کے لئے تیار ہونا چاہیے۔یہ سوچ انسان کو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے کہ خوشی کے بعد غم اور دکھ آنے والا ہے۔
عقل مند انسان خوشی سے آپے سے باہر نہیں ہوتے اور نہ ہی تکالیف سے مایوس ہوتے ہیں۔اسی لئے ان کا دل زندگی کو مکمل طورپر حاصل کرنے کے لئے تیار ہے۔خطرہ خواہ جتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو، اپنے اندر کی ہمت ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی۔اس کے بعد وہ لوگ اس سے بھی بڑھ کر حاصل کرنے کی فکر میں لگ جائیں گے۔ تصورات جب حقیقت کی شکل میں اس کے سامنے آئیں تو بنا کسی تذبذب کے وہ انہیں آگے بڑھ کر حاصل کر لے گا۔ زند گی کی حقیقتوں کا سامنا کر نا چاہیے ۔ عقل مند اس نکتہ کو سمجھتے ہیں۔ان کے سامنے بیزارگی ، سستی یا علیحدگی اختیا ر کرنے کی کو شش کرنے سے صورت حال اور بھی بگڑ جائے گی۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدم توازن اور بڑھ جا ئے گااور سماج بڑی مقدار میں دہشت زدہ لگے گا۔لیکن خطروں کے خلاف ذہنی طور پر آمادگی آج نہیں تو کل دفاع کا راستہ آسان کردے گی۔خدا کا مقصد ہے کہ یہ صفت ہر فرد کے اندر پائی جائے۔ اگر کوئی شخص خود چھوٹا بننے کے لئے تیار نہیں ہوتاتو وہ دوسروں کو بھی چھوٹا نہیں بنا سکتا۔اس کے برخلاف بھی ایسا ہی ہے۔ اگر کوئی شخص خود ترقی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو کوئی اور اسے ترقی نہیں دلا سکتا۔ ایک شخص اپنے دل کو جو ہدایات دیتا ہے وہی اس کے اندر تبدیلی کی بنیاد ہوتی ہے۔دل کو امیدکی ہدایات دیجئے۔اگر ڈر کی جگہ امید پیدا کردی جائے تو تصویر خود بخود بدلتی ہوئی نظر آئے گی۔تمام ادیان نے ہر زمانے میں اسی پالیسی کو اختیا ر کیا تھا۔ اسرائیلیوں کو آزاد ی دلانے کے لئے آواز بلند کرنے والے نبی حضرت موسی ؑ کے نظریے نے فرعون کو لرزہ بر اندام کر دیا تھا۔ اس نے سخت فیصلے کئے ۔اسرائیلی پہلے ہی ڈر کے شکار تھے۔یہی نہیں بلکہ موجودہ سماجی حالت کے مطابق زندگی گذارنے والے بھی تھے۔
انہوں نے زندگی کا سہارا غلامی میں ڈھونڈ نکالا۔انہیں ایسا لگتا تھا ہوگا کہ موسی کی مداخلت نے ان کے چین میں خلل ڈال دیا ہے۔اسی لئے انہوں نے حضرت موسی کی دل سے اتباع نہیں کی۔ساتھ ہی فرعون کی انتقامی کارروائیاں جب بڑھنے لگیں تو ان لوگوں کا اعتماد اور بھی کمزور ہوگیا۔اس موقع کو چند لوگوں نے حضرت موسی کے خلاف ہتھیار اٹھانے میں استعمال کیا۔قرآن اس منظر کو یوں بیان کر تاہے:’’انہوں نے کہاکہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم کو اذیتیں پہنچتی رہیں اور آنے کے بعد بھی ۔ موسی نے کہا قریب ہے کہ تمہارے پروردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور اس کی جگہ تمہیں زمین میں اقتدار عطا کرے ، پھر وہ دیکھتا ہے کہ تم کیسا عمل کرتے ہو‘‘(الاعراف:129)خون بہانے والی تکالیف کے درمیان بھی حضرت موسی نے ان کے اندر اعتماد بحال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس نبی نے انہیں صرف یہ امیدنہیں دلائی کہ ان کا دشمن ہلاک ہوجائے گا۔ بلکہ انہوں نے اقتدار پر بیٹھنے کا منظر ان کے سامنے بیان کیا تھا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ جزوی طور پر ہی سہی اثر انداز ضرور ہوا۔ بسا اوقات انہوں نے اگر چہ کہ نبی کی نا فرمانی کی ۔ لیکن بعد میں وہ نبی کے ساتھ رہے ۔
ابتدائی دور میں جب حضور ﷺ اور معدودے چند صحابہ تھے تو مکہ میں ہونے والی اذیتوں کے خلاف چند لوگ شکایت لیکر پہنچ گئے۔انہوں نے پوچھا :اے اللہ کے نبی ﷺ کیا آپ ہمارے لئے مدد نہیں مانگتے۔کیا آپ ہمارے لئے دعا نہیں کرتے؟یہ سوال محض ایک شکایت یا دعا کی اپیل نہیں ہے۔بلکہ اس سوال کے اندر یہ سب داخل ہیں کہ اللہ کی مداخلت کیوں نہیں ہوتی؟اس پر ایمان لانے کی وجہ سے ہمیں اس قدر تکلیفوں کا سامنا کیوں کر نا پڑ رہا ہے؟اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے ایسے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے اس راستے میں اس سے کہیں زیادہ تکلیفوں کو بر داشت کیا ہے ۔ سر سے لیکر پیر تک آرے سے انہیں کاٹا گیا۔ لوہے کی کنگھی سے ان کے جسموں کو گوشت کو نوچا گیا۔ لیکن یہ سب انہیں دین سے پھرنے کا سبب نہیں بن سکا۔ اللہ تعالی اس منصب کو ضرور پورا کرے گا۔ اتنی امن و شانتی ہوجائے گی کہ لوگ صنعا سے حضرموت تک بنا کسی خوف سے سفر کر نے لگیں گے۔ لیکن تم لوگ جلدی مچا رہے ہو‘‘ان لوگوں نے اپنی اس پریشانی کو اللہ کے نبی کے سامنے بیان نہیں کیا جو انہیں تجارت کے دوران پیش آیا کرتی تھی۔ بلکہ ان پریشانیوں کو انہوں نے اللہ کے نبی کے سامنے رکھا جو انہیں دین کی مخالفت کی وجہ سے ان کے گھروں میں جھیلنا پڑتا تھا۔ جس کی علامتیں ان کی جسموں پر نظر آتے تھے۔ لیکن حضور ﷺ نے سماجی تبدیلی کے بارے میں بیان کیا۔ دین کی مخالفت کابدلہ دین کی مخالفت نہیں ہے۔ بلکہ اسکا مطلب سماجی تبدیلی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ انہیں یہ امیددلارہے تھے کہ تکلیفیں دور ہو جائیں گی۔ اونچ نیچ کا فرق ختم ہوجائے گا۔ ناانصافی کوروک دیا جائے گا۔ حقوق قائم کئے جائیں گے اور بے خوفی و نڈرپن لوٹ آئے گا۔
آپﷺ کے پاس شکایت لیکر آنے والوں کے سامنے آپ پچھلے زمانے کی مثالیں انہیں ڈرانے کے لئے نہیں بیان کر رہے تھے۔بلکہ ان کے اندر سر بلندی پیدا کرنے کے لئے آپ نے ایسا کیا تھا۔ چنانچہ اس احساس نے انہیں اس قدر بلندی عطا کی وہ بھی زندگی میں بہت بڑی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔نبی جس سماجی تبدیلی کو چاہتے تھے ، اس کے لئے انہیں آمادہ کیا۔ہمت ، جوانمردی اور نڈر پن بلندی ہی میں نظر آتاہے۔’’ہم تمہیں تھوڑے سے خوف ، بھوک ، مالی ،جانی اور ثمرات کے نقصان سے آزمائیں گے۔اس آزمائش میں جو لوگ صبر کریں گے انہیں خوش خبری ہے۔چند موقعوں پر وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے بنائے گئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔ (البقرہ:۱۵۵)،خوف کوئی جرم نہیں ہے ۔ اہم بات تو یہ ہے کہ اسکا جواب ہم کیسے دیتے ہیں۔ امیدا ور یاس کے درمیان انسانی زندگی ہے۔انسان کبھی دکھ سہنے کو برداشت نہیں کرتا۔ فقر و فاقہ ، تکالیف، مشکلات اور کمزوری اسے بے چین کردیتی ہے۔اسی طرح اچھی چیزوں کو حاصل کرنے کی اسے خواہش بھی ہوتی ہے۔لہذاہر فرد کو چاہیے کہ وہ ان چیزوں میں پھنس کر اپنے ذمہ داری کو نہ بھولے ۔ایسے بے شمار لوگ ہوسکتے ہیں جو یہ خواب دیکھتے ہیں کہ انہیں زندگی میں کوئی بھی رکاوٹ پیش نہ آئے ۔ایک خواہش پوری ہوتو دوسری خواہش انسان کو گھیر لیتی ہے۔اسی طرح یہ خدشہ بھی کہ کہیں وہ خواہشات ضائع نہ ہوجائیں۔الغرض ! امیداور خدشات اسے کنٹرول کرتے ہیں۔خواہشات سے نجات پانے والا فرد اپنے نظریات کو ایسی چیزوں سے منسلک نہیں کرتا۔اسی نجات کا مفہوم آیت ’’ہم اللہ کے لئے بنائے گئے ہیں۔اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘ میں بیان کیا گیاہے۔ ہر انسان کا مقصد اپنے جسم و جان کو فائدہ پہنچانا ہوتاہے۔لیکن اس کے لئے ایک پل سے گذر نا پڑے گا، وہ ہے بے خوفی یعنی نڈر پن ۔اس چیز کو اٹھانے کی ذمہ داری ایمان والوں پر آتی ہے۔مشکلات میں پھنس کر شکایتیں کرنے والوں کو اللہ کے نبی ﷺ سماجی تبدیلی کے ذریعہ بے خوفی کی ہدایت دی تھی ۔
ایک فرد کی سوچ کا مرکز اس کی ذات ہی میں محدود نہ ہو۔ اسے سماج میں پھیلانا چاہیے۔صرف اپنے آس پاس ہی نہیں ، بلکہ ماضی اور مستقبل کی طرف بھی توجہ دینا چاہیے۔ جب سماج کے مزاج میں تبدیلی کی ضرورت ہوتوفطری طور پر کشمکش اور لڑائیاں ہوتی ہیں۔بے لوث کاموں کے ذریعہ ہی انسانی دل ترقی کرتا ہے۔ ایمان، خدا کا احساس اور دعاؤں کے ذریعہ دلوں میں پیدا ہونے والی خداکی قربت اسے مزید تقویت عطا کرتی ہے۔جولوگ نیکی کے لئے کام کرتے ہیں ان کی مثال ایک درخت کی مانند ہے ۔جس درخت میں پھل ہوتا ہے وہ کسی کو بھی تفریق کی نظر سے نہیں دیکھتا۔وہ سب کو یکساں طورپر پھل دیتاہے۔اس کا مقصدصرف اور صرف اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہوتاہے۔دشمن کی کلہاڑی جب اس پر پڑتی ہے تو اس سے نیچے گرنے والا بھی میٹھا پھل ہی ہوتاہے۔درخت انسان کو یہ پیغام دیتاہے کہ ہر حال میں وہ اپنی ذمہ داری ادا کرتاہے۔ایمان داری ، سچائی اور نڈر پن آپس میں تعلق رکھنے والے صفات ہیں۔زندگی میں ایمان داری نہ ہو تو ثابت قدم رہنا نا ممکن ہوجائے گا۔ وہ ہر چیز سے ڈر نے لگے لگا۔ بزدلوں سے بہادری،ایمان داری اور ثابت قدمی کی امید کرنا کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ قرآن کہتاہے:کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اچھی بات کی مثال ایک اچھے درخت کی مانند بیان کی ہے۔اس کی جڑ مضبوط اور شاخیں آسمان میں ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا رہتاہے۔اللہ تعالی ان مثالوں کو اس لئے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت پکڑیں۔اور ایک گندی بات کی مثال ایک نا پاک درخت کی سی ہے۔ایسا کہ زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے ۔اس کو ذرا بھی قرار و ثبات نہیں۔ خدا مومنوں کو ایک مضبوط قول کے ذریعہ ثابت قدم رکھتا ہے ۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ اور خدا ظالموں کو گمراہ کردیتاہے۔خدا جو چاہتا ہے کرتاہے۔(ابراہیم:۱۴؍۲۴۔۲۷)جب حفاظت کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے تو اپنی نظریاتی بنیاد، اس کی وسعت،اس سے لوگوں کو ملنے والی امید،اور سماج میں ہونے والی تبدیلی ہر زمانے میں مسلمانوں کے اہمیت کے حامل ہیں۔اپنی حفاظت کے بارے میں شکایت کرنے والوں کو تاریخی شعور اور سماجی تبدیلی کا پیغام دینے والے نبی کو اس موقعہ پر شکر گذاری کے ساتھ یاد کریں۔اس میں حیرت انگیز سبق ہے ۔ نئی دنیا جہاں انسانیت ضائع ہورہی ہے اس میں آج بھی اسلام روشنی پھیلا سکتاہے۔ہمارے آس پاس موجود اسلام کی ظاہر ی شکل کے لئے ہوسکتاہے کہ یہ ممکن نہ ہو۔ کسی طرح کی کجی کے بغیرتعجب اور حیرت انگیز قرآن جب ہمارے ہاتھوں میں ہو توپھر ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟نبیوں اور تاریخی افراد نے ہمیشہ اپنے سے زیادہ طاقت اور اثرو رسوخ رکھنے والوں سے مدبھیڑ کی تھی۔وہ لوگ ایسے تھے جن کے پاس رعب و دبدبہ، اقتدا ر اور لوگوں کا اثر رہتاتھا۔آج ہمارے ذہنوں سے یہ شخصیتیں دور ہو گئی ہیں۔ایک مثالی سماج کی تخلیق کے لئے قربانی برداشت کرنے والوں کو دنیا آج بھی یاد کرتی اور ان کی عزت کرتی ہے۔ان کے پاس پالیسی ، واضح و مضبوط نظریہ اور خدائی مدد تھی۔اگر چہ کہ ان کی تفصیلات میں فرق تھا لیکن وہ سب ایک ہی راستے پر تھے۔یہ ایک ایسا راستہ ہے جسے آج بھی انصاف اور حقو ق کو چاہنے والے اختیار کر رہے ہیں۔وہ سماجی تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے۔

***
A. Sayeed
قومی صدر ۔سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا
اے۔ سعید

Why should we be afraid? Article: A. Sayeed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں