فیروز رشید کے ڈرامے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-06

فیروز رشید کے ڈرامے

Ummeed-Dramas by Feroz Rasheed
وہ دن ہوا ہوئے جب اردو ڈرامے بڑے رکھ رکھاو سے پیش کیے جاتے تھے اور بڑے اہتمام سے لوگ دیکھا بھی کرتے تھے لیکن آج اردو ڈرامہ جاں کنی کے عالم میں ہے۔حیدرآباد دکن میں تو خا ل خال ہی ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں۔قادر علی بیگ فاونڈیشن نے یقیناًڈرامے کے فن کا احیا کیا ہے مگر یہ کاوش سماج کے کریمی طبقہ تک محدود ہے۔البتہ مہاراشٹرا ابتدا ہی سے ڈرامے کے لیے زرخیز واقع ہوا ہے آج بھی وہاں معیاری ڈرامے کھیلے جاتے ہیں۔شہر ناندیڑ بھی ڈرامہ کا ایک اہم مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔گزشتہ دنوں پروفیسرانیس الحق قمر کے ڈراموں کا مجموعہ " ہمالہ کی چاندی پگھلتی رہے" شائع ہوا جبکہ حالیہ دنوں میں ناندیڑ کے ہی نامور شاعر فیروز رشید کے ڈراموں کا مجموعہ "امید" منظر عام پر آیا تواردو ڈرامہ کے روشن مستقبل پر ہلکی سی امید جاگی ہے۔
فیروزرشید بنیادی طور پر معلم ہیں اور ایک سچا معلم زندگی میں کئی کئی کردار نبھاتا ہے تاکہ طلباء کی بہتر طور پرِ ذہن سازی ہوسکے اورصالح معاشرے کی تشکیل عمل میں آئے۔ایک ٹیچر کو ہرفن مو لا ہونا چاہیے۔فیروزرشید ایک ہمہ پہلو شخصیت کے حامل ہیں۔وہ ایک معتبر شاعر ہیں، بہترین ناظمِ مشاعرہ ہیں، مشفق استاد ہیں، اچھے تنقید نگار ہیں، کامیاب ڈرامہ نگار ہیں ان سب سے بڑھ کر وہ ایک اچھے انسان ہیں۔انسان دوستی ان کا عقیدہ ہے۔ملک و ملت کا اتحاد ان کا مسلک ہے اور سماج کی اصلاح ان کا مشن ہے۔وہ اپنے بچپن سے ہی نہ صرف شاعری کی طرف متوجہ ہوئے بلکہ ڈراموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے تبھی تو ان کے اب تک شاعری کے دو مجموعے "آدھی رات کے آنسو" اور" آئینہ کی آنکھ" شائع ہوکر مقبول عام و خاص ہوچکے ہیں جبکہ ڈراموں کا مجموعہ "امید" بھی شائع ہوچکا ہے۔ڈاکٹر مجید بیدار کے اشتراک سے "ڈھولک کے گیت" بھی ترتیب دے چکے ہیں اس کے علاوہ ان کے تنقیدی مضامین، تبصرے اور غزلیات ملک کے نامور اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈرامہ نگاری ایک مشکل فن ہے ۔ڈرامہ نگار ، نہ صرف ڈرامہ تحریر کرتا ہے بلکہ اسے اسٹیج بھی کرکے دکھاتا ہے ذرا سی لغزش یا لا پرواہی ڈرامہ کی جان لے لیتی ہے۔اس پُر آشوب دور میں فیروز رشید نے ڈرامہ بھی لکھا اور اسے اسٹیج پر پیش بھی کیا ہے۔ان کا ایک ڈرامہ " زہر" تاریخی ڈرامہ ہے۔تاریخی واقعات پرڈرامے لکھنا کوئ آسان کام نہیں ہے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کو کون نہیں جانتا؟مسلمانوں کے لیے یہ ایک آئیڈیل سلطان ہے۔جنھوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سربلندی اور دشمنانِ اسلام کی سرکوبی میں گزاردی ہے۔سلطان کا دبدبہ، تحکمانہ انداز، پختہ ایمان ، راسخ العقیدہ ، اتحاد کا شیدا ، شبِ خوں کا موجد ، جاسوسی کا امام ، یہود و نصاریٰ کا کھلا دشمن ، سب کچھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہیں۔ایسے لازوال کردار پر ڈرامہ لکھنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔فیروز رشید نے نہایت حزم و احتیاط مگر حوصلے کے ساتھ یہ ڈرامہ لکھا ہے خصوصاَ سلطان ایوبی اور ہرمن(صلیبوں کا جاسوسی چیف) کے درمیان جو مکالمے ہیں وہ بھی قابلِ توجہ ہیں۔ میدان جنگ میں سپہ سالاروں کا حوصلہ بڑھانے اور جنگ جیتنے کے مختلف گر سکھانے کا ایوبی کا انداز ملاحظہ ہو۔
میرے رفیقو!۔۔۔جنگ کثیر تعداد میں فوج کے بل بوتے پر نہیں جیتی جاتی۔۔۔جنگ جیتنے کے لیے اعلیٰ جنگی سازوسامان کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔جنگ جیتی جاتی ہے عقیدے کی وجہ سے ۔۔۔جذبے کی وجہ سے۔۔۔مقصد کی وجہ سے۔۔۔ہمارے سامنے ہمارا مقصد ہے۔۔۔ہم خدائ پیغام کو پوری دنیا میں پہنچانا چاہتے ہیں۔۔۔بیت المقدس کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ ( امید۔ص 22)
پورے ڈرامہ میں ایمان کی شمعیں یوں ہی جلتی رہتی ہیں۔اس ڈرامہ میں مصنف اس اہم نکتے کی وضاحت کرتا ہے جس کی وجہ سے مسلمان ہر میدانِ زندگی میں پچھڑتے جارہے ہیں۔ایوبیؔ اور ہرمن ؔ کے یہ مکالمے ڈرامے کی جان ہیں اور یہی موڑ ڈرامہ کا نقطء عروج ہے۔جب سلطان ، یہودی ہرمن ؔ کو کھل کر گفتگو کرنے کی اجازت دیتا ہے تو ہرمن بھی نہایت بے باکی اور ایمانداری سے امت مسلمہ کی اس کمزوری پر اظہار خیال کرتا ہے۔
" ۔۔۔ بہت غور و فکر کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو ختم کرنا ہوتو پہلے ان کے ایمان کو ختم کرو ۔۔۔ایمان ختم ہوجائے گا تو مسلمان خود ہی ختم ہوجائیں گے۔۔۔ہم نے آپ کی قوم میں ایسا بیج بو دیا ہے کہ مسلمان اپنے ایمان سے دور ہوجائیں گے۔۔۔اب ہم آپ کے زمینوں پر نہیںآپ کے ذہنوں پر قبضہ کریں گے۔"
آگے وہ کہتا ہے:
ہم مسلم تہذیب میں ایسی دراڑیں ڈالیں گے کہ مسلمان اپنی تہذیب سے بیزارگی کا اظہار کریں گے اور ہماری تہذیب کو اپناکر فخر محسوس کریں گے۔۔۔ہر معاملے میں وہ مغرب کے طور طریقوں پر عمل کریں گے۔ہم مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا محاصرہ کریں گے۔ذہنی طور پر انھیں تقسیم کردیں گے۔
اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو مسلمان یکسر فراموش کردیں گے۔۔جب کسی مذہب کے اصولوں اور تعلیما ت پر عمل نہیں ہوتا تو اس مذہب کے ماننے والوں کی تہذیب ختم ہوجاتی ہے۔۔۔مسلمانوں کی تہذیب ہی ختم ہوجاے گی تو انہیں ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔وہ تو خود بخود ختم ہوجا ئیں گے۔۔۔۔وہ وقت ضرور آئے گا محترم سلطان۔۔۔وہ وقت آپ نہیں دیکھیں گے۔۔میں نہیں دیکھوں گا۔۔لیکن وہ وقت ہماری روحیں ضرور دیکھیں گے"
(امید ص 33)

فیروز رشید کا ایک اور ڈرامہ "امید " ہے جس کا تھیم حب الوطنی ہے جب ڈرامہ کا آغاز ہوتا ہے تو بیک گراونڈ سے آواز گونجنے لگتی ہے کہ میں ہندوستان ہوں ۔۔۔ تو ہمیں فلم مغل آعظم کی یاد آجاتی ہے۔اس ڈرامہ میں نیتا ، تاجر، ٹیچر، ڈاکٹر، ملازم سرکار اور ایک عام آدمی کا کردار ہے۔یہ کردار دراصل پورے ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔نیتا۔۔جو جمہوری اقدار کی نمائندگی کرتا ہے،لیکن آج لوٹ کھسوٹ کا اہم ذریعہ بن گیا ہے۔تاجر ، جو عوام کو واجبی داموں میں بہتر مال مہیا کراتا ہے مگر آج ملاوٹ اور چور بازاری میں مصروف ہے۔بہتر سماج کی تشکیل میں ٹیچر کا اہم رول ہوتا ہے مگر اس نے بھی تعلیم کو تجارت بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر ، جو عوام کی صحت کا ضامن ہے مگر وہ بھی پیسہ کمانے کی مشین بن گیا ہے۔ملازم سرکار جو عوام اور سرکار کے درمیان کی اہم کڑی ہوتا ہے لیکن وہ بے ایمانی اور رشوت خوری کا دوسرا نام بن گیا ہے۔ایک عام آدمی جس کا ان تمام سے سروکار رہتا ہے وہ بھی تو مخلص نہیں ہے۔وہ چاہے تو ان تمام کی اصلاح کر سکتا ہے مگر وہ اپنی طاقت کو پہچان نہیں پارہا ہے۔
یہ مختلف کردار دراصل ملک کی آزادی کا جشن منانا چاہتے ہیں اور ہر کردار خود کو ہی سچا دیش بھکت ثابت کرنے کے در پہ ہے۔ ڈرامہ نگار نے ان تمام کرداروں کے توسط سے ان کی مفوضہ ذمہ داریوں کو یاد دلا یا ہے پھر ایک بزرگ کا کردار بھی ہے جو دراصل آزاد ہندوستان کی نمائندگی کرتا ہے اور وہ ان تمام کرداروں سے آزادی کا جشن منانے سے روک دیتا ہے کیوں کہ وہ اس کام کے اہل نہیں ہیں پھر عام آدمی اس کاز کے لیے آگے بڑھتا ہے تو اسے بھی روک دیا جاتا ہے۔بزرگ شخص کا کہنا ہے کہ
" تمہیں ہر ایک کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے تھا۔۔ہر ایک ظالم کا ڈٹ کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا لیکن سب کچھ تم برداشت کرتے رہے۔تم نے ظلم کے پودے کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔۔اس طرح کیا تم بھی ظالموں میں شامل نہیں ہو۔۔۔اپنی اس کمزوری کو دور کرو اور میرے سامنے میرے سچے سپاہی بن کر آؤ۔۔۔تب ہی تم میری سال گرہ منانے کے حق دار ہوسکتے ہو۔"(ص55)
ڈرامہ نگار نے نہایت دلچسپ مکالوں کے ذریعے ملک کے ہر شہری کو ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کامیاب کو شش کی ہے ورنہ ہر کوئ سال میں ایک مرتبہ دیش کی آزادی کا جشن منالینے کو ہی دیش کا حق ادا کرنا سمجھ بیٹھا ہے۔
فیروز رشید اپنے ڈراموں میں کو ئ نہ کوئ سماج کے سلگتے موضوع کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ سماج کی بروقت اصلاح ہو سکے۔ان کا ایک خوبصورت ڈرامہ " بیٹی " ہے۔آج کے دور میں بیٹی کی پیدایش کو معیوب سمجھا جاتا ہے ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے بیٹا ہو تاکہ اس کے خاندان کا سلسلہ آگے بڑھے۔کیا ہندو کیا مسلم، کیا امیر کیا غریب ، ہر ایک کا نقطۂ نظر یہی ہے۔یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مادرِ رحم میں کون پل رہا ہے؟اگر بیٹی ہے تو پھر شیطانیت کاننگا ناچ شروع ہوجاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ بیٹی کو مادرِ رحم میں ہی ختم کردیاجائے۔آج کے مہذب سماج کا یہ ایک المیہ ہے۔۔۔؟نجمہؔ بھی اسی مہذب سماج کا ایک کردار ہے جس کے رحم میں ایک بیٹی نمو پارہی ہے۔ساس، خسر حتیٰ کہ شوہر کو بھی یہ گوارہ نہیں کہ ان کے یہاں بیٹی پیدا ہو ۔نجمہ لاکھ مخالفتوں کے باوجود اسے حمل ساقط کروانے کے لیے راضی کروایا جاتا ہے۔ڈرامہ نگار نے مخلف واقعات اور کرداروں کے ذریعے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ محض بیٹے کی چاہ میں بیٹی کا قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے مگر گھر والوں پر اس کا کوئ اثر نہیں ہوتا۔حتیٰ کہ وقفہ وقفہ سے ایک ننھی منی لڑکی علامتی طور پر اسٹیج پر نمودار ہوتی ہے اور وہ اپنے باپ یا دیگر افراد کے ان وسوسوں کا جواب دیتی رہتی ہے جس کی بنا پر اسے قتل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک دفعہ وہ اپنے والد سے یوں جذباتی اندازسے مخاطب ہوتی ہے۔
پپا !۔۔مجھے قتل ہونے سے بچالیجیے۔۔مجھے قتل مت کیجیے۔۔میں آپ کی بیٹی ہوں پپا۔۔۔آپ کی گود میں کھیلنا چاہتی ہوں۔۔۔آپ کے آنگن میں بہار
لاناچاہتی ہوں۔۔۔آپ چلتے چلتے تھک جائیں گے تو میں آپ کے پیر دباؤں گی۔۔۔آپ کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کروں گی اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گی۔۔۔میرے ہاتھ کے نوالے کا مزہ آپ کو جنت کی یاد دلائے گا۔۔۔آپ سے اتنا پیار کروں گی کہ آپ زندگی کے سارے دکھ درد بھول جائیں گے۔۔میں آپ کے لیے رحمت ہوں پپا۔۔۔زحمت نہیں۔۔۔ میں آپ کا نام روشن کروں گی۔۔تعلیم میں۔۔۔کھیل میں ۔۔۔سیاست میں ۔۔۔ تجارت میں۔۔۔زمین پر ۔۔خلا میں۔۔۔ہر جگہ میں ہی آ پ کو نظر آؤں گی۔۔۔آپ دیکھیے تو سہی۔۔۔آپ تو دیکھتے ہی نہیں۔۔۔"
(امید ص 70)

فیروز رشید نے اس ڈرامہ میں بہترین جذبات نگاری کو پیش کو کیا ہے۔آخر کار اس ننھی جان کا قتل کردیاجاتا ہے۔اور کچھ دنوں بعد نجمہ کا یہاں ایک لڑکا ہوتا ہے ۔خاندان والوں کی مراد پوری ہوجاتی ہے۔ساجد کی پنشن ہوجاتی ہے ۔نجمہ کا انتقال ہوجاتا ہے۔بیٹے بہو کو ساجد کا وجود غیر ضروری لگنے لگتا ہے۔روزانہ کھٹ پھٹ چلتی رہتی ہے۔ایک دن حد ہوجاتی ہے کہ بیٹا بہو دونوں ملک کر ساجد کو بے گھر کردیتے ہیں۔۔۔آخر میں وہی علامتی لڑکی اسٹیج پر نمودار ہوتی ہے اور مسکراتے ہوئے اپنے باپ سے کہتی ہے کہ : " پپا ! آپ کو بیٹا چاہیے تھا نا۔۔۔۔"یہ آخری جملہ ڈرامہ کا کلائمیکس ہے جس میں تیزکاٹ ہے، گہرا طنز ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اب ایک بیٹی نہیں بول رہی ہے بلکہ ڈرامہ نگار بول رہا ہے۔کیوں کہ محبت کرنے والی بیٹی اپنے باپ سے کبھی انتقام نہیں لیتی، باپ کی مفلوک الحالی پر مسکراتی نہیں، مجبور باپ پر طنز نہیں کرتی بلکہ اس حال میں بھی اپنی بانہیں پھیلادے گی اوراپنے باپ کی تمام بلائیں اپنے سر لے گی۔بہر حال یہ ڈرامہ ایک بہترین پیغام عوام تک پہنچاتا ہے۔ جس کے لیے ڈرامہ نگار مبارک بادی کا مستحق ہے۔
فیروز رشید کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ماحول سے ڈراموں کے و اقعات کو چنتے ہیں پھر تخیل کی بھٹّی میں انھیں چمکاتے ہیں تبھی تو یہ موضوع سماج کا اپنا موضوع بن جاتا ہے۔مثلاً ان کا ایک ڈرامہ "روٹی" جو انسان کی بنیادی ضرورت بھی ہے اور فتنۂ دہن و ذہن بھی!اس ڈرامہ میں مولاناؔ ، پنڈتؔ اور فادؔ ر کے کردار ملک کے تین بڑے مذاہب کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایک بھکاری ان سے باری باری روٹی کی بھیک مانگتا ہے مگر مذہب کے یہ ٹھیکیدار اسے روٹی اس لیے نہیں دیتے کہ اس کا تعلق ان کے مذہب سے نہیں ہے۔حالاں کہ خدا اپنے بندوں کو کبھی بھوکا پیٹ نہیں سلاتا کیوں کہ ہر ایک کو رزق دینے کا اس نے وعدہ فرمایا ہے مگر یہ ٹھیکیدار انسانوں کو مختلف خانوں میں بانٹتے ہیں تاکہ اپنی دکان چمکا سکیں۔پھر ایک پر ی جو علامتی بھارت ماتا ہے وہ ان تینوں مذہبی پیشواؤں کو مذہب کے بجائے انسانیت کا درس دیتی ہے۔
تخلیق میں تخلیق کار کا نہ صرف پرتو شامل ہوتا ہے بلکہ اس کا خاندانی پس منظر ، سماجی، سیاسی، معاشرتی اور نفسیاتی عناصر کے عوامل کی کارفرمائ بھی رہتی ہے۔ اور ایک سچا قلمکار اسی سے اپنا تخلیقی مواد اکٹھا کرتا ہے۔واقعات، کردار، مناظر و مکالمے اسی ماحول سے مستعار لیے جاتے ہیں۔فیروز رشید جو ایک سرکاری مدرسہ کے معلم رہے ہیں اس لیے انھوں نے یہیں سے ڈرامہ " جیسا پیڑ ویسا پھل"کے لوازمات کویکجا کیا ہے۔یہ ہلکا پھلکا شگفتہ ڈرامہ ہے جو گُدگداتا بھی ہے اور چٹکیاں بھی لیتا ہے۔اور پھر مصنف کا خود یہ کہنا ہے کہ " اس ڈرامہ کے تما م وا قعات اور کردار فرضی ہیں جس کے لیے مصنف یا کسی اور پر کوئ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی" ۔۔۔ کئی ایک اسرار و رموز کو وا کرتا ہے اور جہاں دیدہ لوگ ان فرضی کرداروں میں حقیقی افراد کی نشاندہی کرتے نہیں چوکتے۔یہ ڈرامہ کسی سرکاری مدرسے کا منظر پیش کرتا ہے جہاں تعلیم و تربیت کے سوا سب کام ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ درس و تدریس ایک حلال روزی کا ذریعہ ہے بشرطیکہ اساتذہ اپنے پیشے سے انصاف کریں۔بعض اساتذہ مدرسے میں ڈی۔اے، انکریمینٹ، انٹیریم ریلیف ، فیسٹول لون ، ایجوکیشنل لون، گرائجویٹی ، رخصتیں اور تعطیلات کا حساب کتاب کرنے میں خود کی عمر عزیز اور طلباء کا مستقبلضائع کرتے رہتے ہیں۔ڈرامہ نگار نے طنز ومزاح کے ذریعے ان تمام نکات پر گفتگو کی ہے۔
فیروز رشید کے تمام ڈرامے اصلاحی پہلو لیے ہوئے ہیں وہ مختلف کرداروں اور واقعات کے توسط سے نہ صرف سماجی ناسور کاتذکرہ کرتے ہیں بلکہ اس کے خاتمہ کی تجاویز بھی دیتے ہیں۔زخموں کی نشاندہی کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس پر مرہم لگانا بھی ضروری ہے۔ان کے کردار فرضی نہیں حقیقی ہوتے ہیں تبھی تو ان کی تخلیق۔ ع
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
کی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔مکالمے ، ڈرامہ کی جان ہوتے ہیں۔ مکالموں کی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہوں اور قابل فھم ہوں۔فیروز رشید کے بعض مکالمے بہت طویل ہیں۔ بعض مکالے دیڑھ صفحے پر مبنی ہیں۔فنکاروں کے لیے اس قدر طویل مکالمہ کی ادائیگی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگی مگر فیروز رشید ان کرداروں کو جوئے شیر لانے کا فن بھی سکھاتے نظر آتے ہیں۔یہ تمام ڈرامے یقیناً اسٹیج کو مد نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں جنہیں باآسانی اسٹیج کیا جاسکتا ہے۔یقینِ کامل ہے کہ فیروز رشید کے مزید اچھے اچھے ڈرامہ ہمیں پڑھنے اور دیکھنے کو ملیں گے۔ ڈراموں کا مجموعہ "امید" کی اشاعت پر میں انھیں مبارکباد دیتا ہوں۔

***
dramsf[@]yahoo.com
موبائل : 09849377948
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

A Review on book 'Ummeed' by Feroz Rasheed. Reviewer: Dr. Syed Fazlullah Mukarram

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں