نبی کریم ﷺ نبوت ملنے کے بعد 13سال تک مکہ معظمہ ہی میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم سناتے رہے پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سے احکام آنے شروع ہوئے ۔ اسلام کے ارکان میں سب سے پہلے نماز فرض ہوئی ، پھر زکوۃ ، اس کے بعد روزہ فرض ہوا۔ اولاً سب سے پہلے عاشورہ یعنی محرم کی10تاریخ کا روزہ فرض تھا ۔ ہجرت سے ڈیڑھ سال بعد10شعبان المعظم 2ہجری کو مدینہ منورہ میں رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوا اب ان کے علاوہ کوئی روزہ فرض نہ رہا یہ کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے ۔(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج:۱،ص:۸۷۲)
روزے کا حکم: رمضان المبارک کے پورے روزے ہر عاقل ، بالغ ، مقیم( جو مسافر نہ ہو) مرد اور عورت جس میں روزے رکھنے کی طاقت ہو فرض عین ہے ۔ جب تک کوئی عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہیں لیکن اگر عورت حیض و نفاس آتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہئے ۔ بعد میں اس کی قضا رکھے اسی طرح جب معذور کا عذر ختم ہوجائے تو وہ بھی قضا رکھے۔(عالمگیری ، ص:۱۹۵،ج:۱)
روزہ کی فضیلت: یہی وہ متبرک مہینہ ہے جس میں ہر نیکی کا ثواب ستر گنا ہوتا ہے ۔(متفق علیہ)یہی وہ بابرکت مہینہ ہے جس کے روزہ کو رسول اللہ ﷺ نے دوزخ سے بچنے کی ڈھال اور قلعہ بتلایا ہے ۔(صحیح مسلم،ص:۳۶۳) یہی وہ محترم مہینہ ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پیاری ہے ۔ قیامت کے دن روزے کابے حد ثواب ملے گا ۔ یہی وہ پاکیزہ مہینہ ہے کہ روزہ رکھنے والے کے لئے قیامت کے دن عرش کے نیچے دسترخوان چنا جائے گا اور وہ لوگ اس پر بیٹھ کر کھانا کھائیں گے بقیہ سب لوگ ابھی حساب ہی میں پھنسے ہوں گے، اس پر وہ کہیں گے کہ یہ سب کیسے کھاپی رہے ہیں اور ہم ابھی حساب ہی میں پھنسے ہوئے ہیں ، ان کو جواب ملے گا کہ یہ لوگ روزہ رکھا کرتے تھے اور تم لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے ۔
روزہ کی نیت : نیت کرنا فرض ہے دل سے روزہ کا قصد وارادہ کرنا ہی نیت ہے ، نیت آدھے دن سے قبل کرلینا ضروری ہے۔(عالمگیری،ص:۱۹۵،ج:۱)
سحری کھانا: سحری کھانا سنت ہے حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ سحری کھایا کرو اس میں برکت ہوتی ہے۔(متفق علیہ)
افطار: سورج ڈوبتے ہی روزہ کھولنا اور ابر کے دن تھوڑی تاخیر کرنا سنت ہے ، چھوہارہ یا کھجور سے افطار کرنا بہتر ہے، جو شخص ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ کھلوادے تو اس کو روزہ دار کے مانند ثواب ملتا ہے اور روزہ رکھنے والے کے ثواب میں کمی نہیں ہوتی ۔
دعا افطار:اَللّٰھُمَّ لَک صُمْتُ وَعَلیٰ رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ۔(ابوداؤد)
روزے کے بارے میں ضروری احکام:مسافر اور مریض کو قضا رکھنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے اور اگر وقت ملا ، لیکن بغیر ادا کرئے مرگیا تو مناسب ہے کہ وارث ہر روزہ کے بدلے بقدر صدقہ فطر فدیہ ادا کرے اور اگر مال چھوڑ کر گیا ہے اور روزہ کے فدیہ کی وصیت کرگیا ہے تو ادا کرنا لازم اور واجب ہے۔(طحطاوی علی المراقی،ص:۳۷۶)
قضا روزے کی نیت طلوع صبح صادق سے پہلے ہی کرنا ضروری ہے ، رمضان شریف میں اتفاقاً کسی کا روزہ ٹوٹ گیا تو روزہ ٹوٹنے کے بعد بھی دن میں کچھ کھانا پینا درست نہیں ۔ (طحطاوی علی المراقی) بھول کر کھانا، پینا ، قے آنا، قے آکر لوٹ جانا، قصداً قے کرنا اگر منہ بھر سے کم ہو، احتلام ہونا، آنکھ میں دوا ڈالنا، انجکشن لگوانا۔
تراویح : تراویح سنت موکدہ ہے بیس رکعت دو ، دو رکعت کر کے پڑھنا چاہئے اور پورا قرآن شریف سننا یا سنانا یا پڑھنا سنت ہے ۔ تراویح بیس رکعت پر اجماع ہے اور احادیث سے ثابت ہے ۔آنحضرت ﷺ نے بھی بیس رکعت پڑھی ہیں( مصنف ابن ابی شیبہ ، طبرانی اور بیہقی میں یہ حدیث موجود ہے)ڈاکٹر عبدالحئی فرمایا کرتے تھے کہ یہ تراویح بڑی عجیب چیز ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو روزانہ عام دنوں کے مقابلہ میں چالیس مقامات قرب مزید عطا فرماتے ہیں ، اس لئے تراویح بیس رکعت ہے جن میں چالیس سجدے ہیں یہی اعلی مقامات قرب ہیں۔
اعتکاف: 20رمضان المبارک کو مغرب سے پہلے عید کا چاند ہونے تک مسجد میں ثواب کی نیت سے ٹھہرے رہنا اعتکاف ہے ۔ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ یعنی اگر ایک شخص بیٹھ گیا تو سنت ادا ہوجائے گی، بغیر شدید ضرورت کے مسجد سے باہر آنا درست نہیں ۔ ضرورت یہ ہے پیشاب، پاخانہ یا ریاح خارج کرنا، غسل جنابت، کھانا کھانے کے لئے اگرکوئی لانے والا نہ ہو ، اعتکاف میں خلوف وجلوت دونوں کے منافع موجود ہیں اور جس نیکی پر قادر نہیں یعنی اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا اس کی اس نے نیت بھی نہ کی ہو تب بھی پورا پورا ثواب ملے گا۔(ابن ماجہ)
شب قدر: یہی وہ متبرک رات ہے جس میں عبادت کرناہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے اسے سارے رمضان میں تلاش کرنا چاہئے بالخصوص اخیر عشرہ میں عبادت یعنی تلاوت و تسبیحات ،استغفار ، و درود شریف وغیرہ اور فرائض کا خوب اہتمام ہو۔
The gift of Ramadan
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں