نیت - قلبی کیفیت یا زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-04

نیت - قلبی کیفیت یا زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ

Supplication for intention of fasting
ہر شرعی کام کے لئے نیت ضروری ہے ۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: "اعمال کا دارومدار نیت پر ہے ۔"
روزہ بھی چونکہ ایک دینی فریضہ ہے لہذا اس کے لئے بھی نیت ضروری ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
"جس شخص نے فجر سے پہلے پہلے روزے کی نیت اور پختہ ارادہ نہ کیا، اس کا روزہ نہیں۔
(ابوداؤد،ترمذی)
ابن ماجہ اور دار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں ہے:
"اس شخص کا کوئی روزہ نہیں جو رات کو اسکا پختہ ارادہ نہ نیت نہ کرے ۔"

ان اور ایسی ہی بعض دیگر احادیث سے رات کے وقت یا قبل از فجر روزے کی نیت کرلینے کی اہمیت کااندازہ کیاجاسکتا ہے۔
نیت کیا ہے ؟ نیت محض دل کے قصد و ارادہ کا نام ہے اور اسے ادا کرنا (تلفظ) ثابت نہیں ، خصوصاً نماز ، روزہ اور غسل و وضو وغیرہ کی نیت زبان سے کرنا نبی اکرم ﷺ ،خلفائے راشدین اور عام صحابہؓ اور تابعین کرام ؒ ، و ائمہ عظام میں سے کسی سے بھی منقول نہیں البتہ حج و قربانی اورعمرہ کی نیت کا تلفظ (زبان سے ادا کرنا) ثابت ہے ۔

جن اعمال کے لئے زبانی نیت ثابت ہے ان کی نیت تو زبان سے کی جاسکتی ہے جبکہ جن کی ثابت نہیں ان کی نیت بھی زبان سے کرنا صحیح نہیں ۔ عبادات کے معاملات میں، اتباع سنت و اطاعت رسول ﷺ یہی ہے کہ جہاں آپ ﷺ نے کچھ کیا وہاں آپ بھی کریں اور جہاں آپ ﷺ نے کچھ نہیں کیا وہاں آپ بھی کچھ نہ کریں ۔

بعض کتابوں میں عموماً روزہ رکھنے کی جو نیت لکھی ہے کہ
"میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی"
یہ الفاظ نبی اکرم ﷺ نے نہ خود کہے اور نہ تعلیم فرمائے۔ یہ نہ خلفاء و صحابہ سے منقول ہیں اور نہ ہی تابعین و ائمہ میں سے کسی سے ثابت ہے ۔ کتب حدیث و فقہ کا سارا ذخیرہ چھان ماریں یہ الفاظ کہیں نہیں ملیں گے اور جن عام سی کتابوں میں ملیں گے ان میں بھی قطعاً بے سند مذکور ہونگے ۔ معلوم نہیں کہ یہ الفاظ کس نے جوڑ دئیے ہیں، ویسے اگر تھوڑے سے غور و فکر سے کام لیاجائے تو خود ان الفاظ میں ہی ان کے جعلی و من گھڑت ہونے کی دلیل موجود ہے ۔
سحری کھانے سے قبل یہ کہنا کہ
"میں نے کل کے روزے کی نیت کی" تو یہ قول واقع اور حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ فجر تو ہوچکی اور یہ روزہ جس کی وہ سحری کھانے لگا ہے کل کا نہیں بلکہ آج کا ہے ۔ لہذا یہاں "ویَصَوْمِ الْیَوم"جیسے الفاظ ہونے چاہیں تھے کہ
"میں نے آج کے روزے کی نیت کی"
کیونکہ کتب لغت میں غدٍ کا معنی آئندہ کل یا وہ دن جس کا انتظار ہے۔

نیت کے مروجہ الفاظ جہاں شرعاً ثابت و جائز نہیں وہیں لغوی اعتبار سے بھی صحیح نہیں لہذادل کی نیت اور قصد و ارادے پر اکتفا کرنا ہی بہتر ہے اور یہی ثابت بھی ہے ۔ اس مسئلہ کو اور بھی آسان طریقہ سے سمجھنے کے لئے لفظ نیت کے لغوی و شرعی معنیٰ کا علم بہت ضروری ہے ۔ لہذا آپ القاموس المحیط، فیروزآبادی ، الصحاح للجوہری ، مختار الصحاح رازی یا دوسری کوئی بھی لغت کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں یا المنجد ہی کھول لیں "ن، و، ی" کے مادہ سے بننے والے کلمات کے سلسلہ میں "نویٰ الشئ" کا معنی و مفہوم واضح کرنے کے لئے "ای قَصَدَہ وَعَزَمَ عَلَیْہِ" اس سے ملتے جلتے الفاظ ملیں گے یعنی کسی کام کا قصد و ارادہ اور اس کا عزم کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دل کے افعال ہیں نہ کہ زبان کے ۔

رہا نیت کا شرعی معنی تو اس سلسلے میں اہل علم نے مختلف الفاظ سے ایک ہی بات کہی ہے جو حافظ ابن حجر کے الفاظ سے ملتے جلتے ہیں جو انہوں نے نیت کے شرعی مفہوم کو بیان کرنے کے لئے فتح الباری میں لکھے ہیں چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
"شریعت نے نیت کے الفاظ کو رضائے الہی کے لئے کسی کام کے ارادے کے ساتھ خاص کردیا ہے۔"

گویا اعمال میں قلبی نیت (اور قصد و عزم) کا اعتبار ہوگا۔ زبان سے کہے ہوئے الفاظ خصوصاً جبکہ وہ خود ساختہ ہیں معتبر نہیں ۔ کبار ائمہ دین کی تصریحات سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ نماز روزہ وغیرہ کی نیت کو زبان سے ادا کرنا خود ساختہ و من گھرٹ فعل ہے چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں :
"جہری (زبان سے) نیت نہ واجب ہے نہ مستحب نہ امام ابو حنیفہؒ کے مذہب میں اور نہ ہی دیگر ائمہ اسلام میں سے کسی کے مذہب میں بلکہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جہری نیت جائز نہیں ۔ جو ایسا کرتا ہے وہ خطا کار ہے اور مخالفِ سنت بھی۔ اسپر تمام ائمہ دین کا اتفاق ہے"۔

اس کے علاوہ بھی شیخ الاسلام نے متعدد دیگر مقامات پر کئی سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے زبان سے نیت کرنے کے عدم جواز اور اس کی کراہت و بدعیت کا تذکرہ کیاہے اور بتایا کہ:
"نیت کامقام دل ہے نہ کہ زبان اور تمام ائمہ اسلام کا تمام عبادات میں ایسی ہی نیت کے بارے میں اتفاق ہے۔"

علامہ ابن قیم ؒ نماز کے لئے زبان سے نیت کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:" نبی اکرم ﷺ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو صرف اللہ اکبر کہتے۔ اس سے پہلے (نیت وغیرہ کیلئے) کچھ نہ کہتے تھے اور نہ ہی زبان سے نیت کے الفاظ نکالتے تھے "۔

علامہ موصوف مروجہ نیت کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ کسی صحیح تو کیا کسی ضعیف حدیث میں بھی اور مسند تو کیا کسی مرسل حدیث میں بھی نبی ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام میں سے بھی کسی سے منقول نہیں اور نہ ہی تابعین اور ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اسے مستحسن کہا ہے۔

نماز یا روزہ کی نیت کے بارے میں یہ بات امام نوویؒ ، امام ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ اور دیگر محقق علماء کے کہنے تک ہی محدود نہیں بلکہ کسی حدیث سے اس کا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے علماء و فقہائے احناف بھی زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کو معتبر شمار نہیں کرتے ۔
معروف حنفی عالم مشکوۃ شریف کی فارسی شرح "اشعۃ اللمعات" میں نماز کی نیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
"علماء کا نماز کی نیت کے بارے میں اختلاف ہے جبکہ اس امر پر سبھی متفق ہیں کہ جہراً نیت کرنا تو ناجائز ہے ۔ اختلاف ان میں ہے کہ لفظوں(زبان سے) نیت کرنا نماز کے صحیح ہونے کی شرط ہے یا نہیں؟ اور صحیح بات یہ ہیکہ یہ شرط نہیں اور اسے شرط ماننا غلط ہے ۔"

فقہ حنفیہ کی معروف کتاب ہدایہ کے باب شروط الصلوۃ میں علامہ برہان الدین مرغینانی لکھتے ہیں:
"نیت ارادے کانام ہے اور شرط یہ ہے کہ آدمی دل سے جانتا ہو کہ وہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے ۔ رہا زبان سے نیت کرناتو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔"

ایسے ہی کبار علمائے احناف میں سے مولانا عبدالحئی لکھنویؒ عمدۃ الرعایۃ ،حاشیہ شرح وقایہ میں لکھتے ہیں:
" بالاتفاق دل سے نیت کرلینا ہی کافی ہوجاتا ہے اور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ سے یہی طریقہ منقول اور مسنون و ماثور ہے اور یہ کہنا کہ میں نے فلاں نماز اور فلاں وقت کی نیت کی یا کرتا ہوں یہ کسی ایک سے بھی منقول نہیں۔"

علمائے احناف کی کتب کے ان اقتباسات کا مفاد یہی ہے کہ عبادات خصوصاً نماز و روزہ کی مروجہ نیت سراسر خانہ ساز ہے۔ ان میں سے بعض نصوص صرف نماز کی زبان سے نیت کے بارے میں ہیں جب کہ نماز کی طرح روزے کی نیت بھی ہے اور جس طرح نماز کے لئے یہ نیت کرنا ثابت نہیں ہے کہ میں نے فلاں نماز کی اتنی رکعتوں کی نیت کی اور اس نماز کے قبلہ رو ہو کر پڑھنے اور امام کی اقتداء میں یا انفرادی طور پر پڑھنے کی صراحتیں منقول نہیں بالکل اسی طرح ہی روزے کی نیت بھی قطعاً ثابت نہیں بلکہ یہ جعلی و بناوٹی اور خانہ ساز و من گھڑت چیز ہے۔

Supplication for intention of fasting

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں