رمضان کی سماجی و دعوتی تفہیم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-12

رمضان کی سماجی و دعوتی تفہیم

Social-propagation-of-Ramadan
اسلام اپنے ماننے والوں کو سماجی و معاشرتی بناتا ہے ، انسانی سماج کی ترقی ، بھلائی اور خیر خواہی سے ان کا تعلق جوڑتا ہے ، ان میں سے ہر ایک کو صرف اپنی ترقی نہیں بلکہ دوسروں کے دکھ درد اور مصیبت و آفت میں ہاتھ بٹانے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے ۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو غریبوں، مفلسوں ، ناچاروں ، محتاجوں ، بیواؤں اور یتیموں وغیرہ کی زکوۃ، فطرہ، خیرات و صداقات کے ذریعہ نہ صرف امداد کرتا ہے بلکہ اپنے ماننے والوں کو پورے ایک مہینہ ماہ رمضان میں بھوکا اور پیاسا رکھ کر اس کا یقینی اور زمینی طور پر احساس بھی کراتا ہے تاکہ ایک امیر بھی بلبلاتے انسان کی بھوک اور تڑپتے آدمی کی پیاس کو محسوس کرسکے اور جب بھی کسی بھوکا یا پیاسا کو دیکھے تو برضا و رغبت اس کی امداد کرے اور بھوکے کو کھانا کھلاکر یا پیاسے کو پانی پلا کر اللہ کے نزیک سرخرو بنے ۔
اس کے علاوہ رمضان ہی سے اللہ کے بندوں کو غذاؤں کی قدروقیمت بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ غذائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں نہایت ہی عظیم اور قوت بخش نعمتیں ہیں ، اگر وہ منعم حقیقی یہ غذائیں دنیا سے اٹھا لے تو ہم ماہی بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر مرجائیں ۔ اس سے بندوں کے اندر اللہ کے لئے شکر گزاری کا مادہ بھی پیدا ہوتا ہے ، کہ جو منعم حقیقی غذاؤں جیسی نعمتیں ہمیں دیتا ہے اس کا ضرور شکر ادا ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ روز ے دار کو پانی جیسی بے نظیر نعمت کی اہمیت کا بھی بھرپور احساس ہوتا ہے۔ غریبی ختم کرو ، اور پانی بچاؤ ، کی اہمیت آج دنیا کے سامنے واضح ہوئی ہے لیکن اسلام نے اس قسم کی مہمیں تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی چھیڑ رکھی ہیں اور عبادتوں میں ان مہموں کا رمز چھپا کر انہیں پائے داربنایا ہے ۔
اس کے علاوہ دیکھیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ بہت ہی ہلکی پھلکی چیزوں سے روزہ افطار کیا کرتے تھے ۔ حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ اکثر اوقات کھجوروں سے افطار کیاکرتے تھے ، اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرمالیتے تھے ۔ حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ آن حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے ، کیونکہ اس میں برکت ہے ۔ اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے، کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے(الترمذی ، باب الصدقۃ علی ذی القرابۃ)
اس میں بھی امت کو یہ تعلیم ہے کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر ایسا نہ کیاجائے کہ افطار کے وقت بہت زیادہ کھایا جائے تاکہ دن بھر کھایا پیا نہ تھا تو افطار کے وقت اس کی کسر نکال لی جائے۔ بلکہ افطار ہلکی پھلکی چیزوں ہی سے کیا جائے تاکہ روزہ روزہ ہی رہے ۔ مطلب بھوک پیاس کا احساس باقی رہے تاکہ بندہ اس احساس کے سایے تلے نعمتوں کا شکر بجالاتا رہے ، منعم حقیقی کی عبادت میں مصروف رہے ، بھوکوں اور پیاسوں کا درد و کرب محسوس کرے اور انکی طرف دست تعاون بڑھائے ۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ رمضان المبارک میں سال کے باقی گیارہ مہینوں کی بہ نسبت زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کیا کرتے تھے ، اس مہینہ میں صدقات و خیرات میں اتنی کثرت ہوتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ: جب حضرت جبرئیل علیہ السلام آجاتے تو رسول اللہ ﷺ بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔(بخاری ، کتاب الصوم باب اجود ماکان النبی ﷺ یکون فی رمضان)
مزید برآں رمضان کے روزوں کا صدقہ فطر بھی نکالا جاتا ہے، صدقہ فطر کی مقدار دو کلو پینتالیس گرام گیہوں یا اس کی قیمت ہے ، لیکن بہتر ہے کہ فطرہ میں قیمت ہی ادا کی جائے کیونکہ اس سے محتاجوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے ، صدقہ فطر ہر اس آزاد مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچتا ہو، اصلی حاجت سے زائد اور قرض سے فارغ ہو اس میں مال کے مالک کا عاقل بالغ یا مال نامی ہونا شرط نہیں ، یہی وجہ ہے کہ نابالغ یا مجنون اگر مالک نصاب ہیں تو ان پر صدقہ واجب ہے ، ان کا ولی ان کے مال سے ادا کرے ، اگر ولی نے ادا نہیں کیا اور نابالغ بالغ ہوگیا یا مجنون کا جنون جاتا رہا تو اب یہ کود ادا کریں، مالک نصاب مرد پر اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر واجب ہے ۔
حدیث پاک میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر متعین کیا ہے تاکہ وہ روزہ دار کے لئے بے ہودہ اور لغو باتوں سے پاکی کا ذریعہ ہو اور مساکین کے لئے غذا۔( سنن ابی داؤد ، باب زکاۃ الفطر،۲؍۱۱)
اس کے ساتھ اسلام ایک جامع ترین مذہب ہے جس میں کرنے اور نہ کرنے کے کام پوری وضاحت کے ساتھ بتا دیے گئے ہیں ، کرنے کے کاموں کا اوامر اور نہ کرنے کے کاموں کو نواہی کہاجاتا ہے ، نواہی میں ایک مسلمان کو صرف یہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ ان کاموں کو نہ کرے بلکہ ترک کردے کہ ان کے ترک ہی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے ، جبکہ اوامر کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے ، اوامر کی بجا آوری کرنی ہوتی ہے، ان پر عمل کرنا ہوتا ہے اور انہیں انجام دے کر اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنی ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے عمل کے لئے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور تربیت کے دوران جن کی تربیت کی جاتی ہے انہیں انعامات اور اعزازات سے نوازاجانا ایک عمدہ و ترغیبی عمل ہے تاکہ تربیت لینے والے پوری خوشدلی سے ان کاموں کی تربیت لیں جو کہ مطلوب ہیں ۔ آپ اس زاویہ نظر سے رمضان کو دیکھیں گے تو رمضان بھی ایک ماہ تربیت نظر آئے گا جس میں ہر سال مومنوں کو نفل کا ثواب فرض کے برابر، ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر اور دوسرے نیک اعمال کا اجر عام دنوں کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ کر کے اعمال صالحہ کی تربیت کرائی جاتی ہے تاکہ وہ پورے سال اس ربانی تربیت کے بعد اعمال صالحہ کو انجام دیتے رہیں ۔
احادیث میں ہے: جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ اس دن کی طرح گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے جب کہ اسے اس کی ماں نے جنا ہو ۔(سنن نسائی،۳؍۱۲۹) جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کیے۔(کنزالعمال۸،۵۳۰) جو ایمان و احتساب کے ساتھ شب قدر میں قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔(صحیح البخاری ) اور جس نے رمضان میں کسی روزے دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے ، اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی نہ کی جائے گی، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہم میں سے ہر آدمی کو یہ وسعت نہیں کہ افطار کرائے، فرمایا اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرماتا ہے جو دودھ کے شربت، یا ایک کھجور ، یاپیاس بجھانے کی مقدار پانی سے افطار کرائے ۔(شعب الایمان، باب فضائل شھر رمضان)
رمضان مبارک میں مسلمانوں کی دینی و سماجی ور فاہی و عملی تربیت سے آپ کے ذہن میں یہ بات بھی آنی چاہئے کہ مسلمان چوکہ ایک داعی قوم ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ مدعو یعنی ہر فرد مسلم مسلمان ہونے کے ناطے حتی المقدور داعی بھی ہے، اس کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت بھر اپنے دین کی دعوت و تبلیغ کا بھی کام انجام دے ، کفار ومشرکین جن تک دین ہی نہیں پہنچا ہے ان تک نفس دین پہنچائے ، اور مسلمانوں میں جو بے عمل ہیں ان میں تبلیغ کا کام یہ ہے کہ ان کی عملی اصلاح کرے ۔
اس تناظر میں ایک داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود ان تمام خوبیوں سے آراستہ ہو جن کی وہ دعوت دینا چاہتا ہے ۔ اس لئے ہر سال رمضان آتا ہے اور مسلمانوں کو ایمان و ایقان پر مضبوطی اور اعمال صالحہ کی تربیت دے کر دعوت کے لئے تیار کرجاتا ہے ۔

Social propagation of Ramadan. Article: Md. Shahbaz Alam Misbahi (anandhindis[@]gmail.com)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں