جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-10

جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے

the-toppers
ایس ایس سی ، اس کے بعد انٹرمیڈیٹ ، ایمسیٹ پھر آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ اور آئی آئی ٹی جے ای ای IIT-JEE یکے بعد دیگرے سالانہ امتحانات اور انٹرنس کے نتائج سامنے آئے۔ سی بی ایس سی کے نتیجے بھی نکل گئے۔ ان سبھی نتائج کے ہجوم میں ہماری نظریں ڈھونڈ رہی تھی ان خبروں کو جن سے کچھ پتہ چل سکے کہ ان امتحانات میں جن طلباء نے کامیابی اور نمایاں رینک حاصل کئے وہ کون ہیں اور ان کی کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ کیا رہا اور کوئی ایسی عادت یا کورس کا پتہ لگ سکتا ہے جس کو اپنا کر مسلمان بھی نمایاں تعلیمی مظاہرہ کرسکیں۔
عام طور پر تعلیم کے میدان میں اعلیٰ نشانات اور رینک حاصل کرنے والوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ صبح سے شام پڑھتے ہی رہتے ہیں اور بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (AIIMS) ہندوستان بھر کا معیاری طبی تعلیم کا ادارہ ہے جہاں پر داخلہ کیلئے ملک پھر سے لاکھوں طلباء امتحان لکھتے اور ان میں چند ایک خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں داخلہ ملتا ہے۔

ریاست آندھراپردیش سے تعلق رکھنے والی سترہ برس کی لڑکی پی سری ودیا [Pattisapu Srividya] وشاکھاپٹنم میں رہتی ہے ، اس لڑکی نے ایم بی بی ایس میں داخلہ کے کل ہند امتحان میں سرفہرست مقام حاصل کیا۔ ٹائمز آف میں انڈیا میں 27/ جون کو شائع خبر کے مطابق اخبار کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے اس ٹاپر لڑکی نے بتلایا کہ اس کو اچھا رینک آنے کی امید تو تھی لیکن وہ ٹاپ آئے گی اس کا اسے یقین نہیں تھا ۔ ایم بی بی ایس کی تعلیم کے بعد مالیکیولر بیالوجسٹ بننے کا ارادہ رکھنے والی سری ودیا نے اپنی کامیابی کے راز کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
"میں نے اپنی روزانہ آٹھ گھنٹوں کی نیند کے معمول کو کبھی نہیں بدلا اور نہ ہی میں نے اپنے آپ پر بہت ز یادہ بوجھ ڈالا۔"

جی ہاں آل انڈیا سطح کے میڈیکل انٹرنس امتحان میں سرفہرست رینک حاصل کرنے والی لڑکی نے اپنی کامیابی کا راز کچھ اس طرح بیان کیا کہ میں نے اپنی معمول کی نیند کو کبھی نہیں ٹالا ہے یعنی ہمارے ہاں جو روایاتی سوچ ہے کہ اچھی تعلیم اچھے رینک اور آگے پڑھنے کیلئے طالب علم کا کم سے کم سونا صروری ہے وہ سری ودیا کے معاملے میں بالکل ہی غیر ضروری لگتا ہے۔
ہمارے ہاں طلباء کیا کرتے ہیں، امتحانات کی تیاری کیلئے یہ ضروری محسوس کرتے ہیں کہ نیند کو بھگانے کا انتظام کیا جائے اس کے لئے گرما گرم چائے سے لیکر مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں جس سے کہ نیند نہ آئے اور ایک سترہ برس کی کامیاب لڑکی کہتی ہے کہ میری کامیابی کا راز یہ تھا کہ میں نے آٹھ گھنٹے سونے کے معمول کو کبھی ترک ہی نہیں کیا۔

ایسا نہیں کہ سری ودیا کو اتفاقی طور پر (AIIMS) کے امتحان میں ٹاپ رینک آگیا، ایمسیٹ کے امتحان میں اس کو ساتواں رینک اور منی پال یونیورسٹی کے انٹرنس امتحان میں آٹھواں رینک حاصل ہوا ہے جس سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ سری ودیا کی کامیابی محنت کا نتیجہ ہے اور یہ محنت نیند کے معمول کو بغیر ترک کئے بغیر حاصل کی گئی۔ اس طرح ہماری یہ سوچ غلط ثابت ہوتی ہے کہ کم سونے اور ز یادہ پڑھنے سے کامیابی یقینی ہوتی ۔ کامیابی تو دراصل وہی طلباء حاصل کرتے ہیں جو جتنا بھی پڑھتے ہیں وہ دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ رٹتے نہیں۔
بغیر سمجھ کر اب ہمارے لڑکے اور لڑکیاں کیلئے پڑھتے ہیں، اس کا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے ۔ تعلیمی کامیابی کے متعلق ہمارے نوجوانوں کا یہ بھی نقطہ نظر ہے کہ تعلیم کے سفر میں غربت بھی بڑی رکاوٹ ہے اور جو لوگ غریب ہوتے ہیں وہ اچھی پڑھائی نہیں کرسکتے اور بڑے بننے کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں کیا یہ سوچ حقیقی ہے ؟

27 جون 2014 ء کی اپنی اشاعت میں اخبار "دی ہندو" نے کے ایم دیوا شنکر کی ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق کریم نگر کے منڈل حسن آباد سے تعلق رکھنے والے پنکچر مکانک این وشواناتھم کے لڑکے این رامو [Nalla Ramu] نے (IIT-JEE) کے امتحان میں 362 واں رینک حاصل کیا ہے ۔ OBC زمرے میں یہ سب سے نمایاں رینک ہے اور اخبار کی رپورٹ کے مطابق این رامو کو ملک کے باوقار انجنیئرنگ کے تعلیمی ادارے آئی آئی ٹی ممبئی یا آئی آئی ٹی کانپور میں داخلہ مل سکتا ہے ۔ جہاں سے رامو میکانیکل انجنیئر نگ یا کمپیوٹر سائنس میں انجنیئرنگ کرنا چاہتا ہے۔
IIT-JEE کے امتحان میں نمایاں رینک حاصل کرنے والا این رامو کی جب تصویر کشی کی جا رہی تھی تو وہ اسکے لیے بخوشی تیار ہوگیا ۔ تصویر میں وہ اپنے والد کی پنکچر کی دوکان میں ایک ٹیوب کی مرمت کرنے کے بعد زمین پر بیٹھ کر مشین سے اس میں ہوا بھر رہا ہے۔ 27 جون کے دی ہندو اخبار میں یہی تصویر شائع ہوئی۔ این رامو کی تعلیمی کامیابی کیلئے کی جانے والی جدوجہد اسی بات کا تو سبق دیتی ہے کہ آپ چاہے پنکچر بنانے کا کام کرتے ہیں یا کوئی اور محنت آ پ غریب ہیں تو آپ کی غربت آپ کی ترقی کے سفر میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے ۔
رامو کا تعلق اگرچہ جولا ہے خاندان سے ہے لیکن اب ان کا گزارا پنکچر کی دکان سے ہوتا ہے ۔ اس کی اسکولی تعلیم سوشیل ویلفیر اسکول اور نو ودیالیہ سے ہوئی چونکہ اس نے ایس ایس سی میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی تو حیدرآباد کے ایک خانگی جونیئر کالج نے اسکو ہاسٹل اور فری سیٹ دی تھی جس کا رامو نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور آج وہ آئی آئی ٹی جیسے باوقار ادارے میں داخلے کیلئے اہل ہے اس طرح دوسرے ٹاپر نے یہ بات ثابت کی کہ تعلیمی کامیابی کیلئے آپ غریب ہوں تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے ۔

10 جون 2014 ء ہندو اخبار کے حیدرآباد ایڈیشن نے Boy next door is Eamcet topper کی سرخی کے تحت ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھی جس میں محبوب نگر کے نکھیل کمار [Lakumarapu Nikhil Kumar] کی کہانی بیان کی گئی کہ کس طرح آٹو موبائیل کی دکان چلانے والے کا لڑکا ایمسیٹ کے امتحان میں پوری ریاست میں تیسرا رینک حاصل کرتا ہے ، اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے نکھیل کہتا ہے کہ میری کامیابی میں والدین کا تعاون اور ماموں کی ہمت افزائی کا بڑا دخل ہے ۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق نکھیل کے والدین کوئی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں ، ان لوگوں نے تو اسکول سے آگے بھی تعلیم ہی حاصل نہیں کی ہے ۔

یہی وہ تیسرا نکتہ ہے جس پر ہمیں توجہ دینی ہوگی کہ بچوں کے اچھے تعلیمی سفر کیلئے اعلیٰ رینکس کے حصول کیلئے ضروری نہیں کہ والدین بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں ۔ وا لدین کم پڑھے لکھے ہوں ، تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے ۔ وہ بھی اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور تعلیمی کامیابی کے حصول میں ضرور ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو اس بات کو نوٹ کرے اور مسلم والدین کو بتلادے کہ اگر انہوں نے کوئی خاص تعلیم حاصل نہیں کی تو کوئی بات نہیں لیکن ان کے اپنے بچوں کے حصول تعلیم میں یہ بات کسی طرح بھی مسئلہ نہیں بننا چاہئے اور نہ ہی یہ بات مسئلہ بننے کے قابل ہے۔

امتحانات اور کامیابی حاصل کرنے والوں کی خبروں کی فہرست میں 13 جون 2014 ء کی ایک خبر ایسی بھی تھی جو ہماری توجہ کا مرکز بن گئی یہ خبر ٹاملناڈو سے آئی تھی اور اس کو "دی ہندو" اخبار نے ہی شائع کیا تھا ۔ خبر کی سرخی تھی کہ IAS Topper from Tamil Nadu took Exam in Tamil اس سال سیول سرویسز امتحان 2013 ء کا نتیجہ جب سامنے آیا تو ہم میں سے بہت سارے لوگوں نے صرف اسی بات کا تجزیہ کرنے پر اکتفا کیا کہ سیول سرویسز کے امتحان میں بمشکل 30 مسلمانوں نے ہی کامیابی درج کی ۔ الگ الگ اصحاب نے مسلمانوں کے اس کم تناسب کا اپنے انداز میں تجزیہ کیا لیکن ہندو اخبار کی اس رپورٹ کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اگر مسلمان سیول سرویسز کا امتحان اپنی مادری زبان میں لکھتے تو شائد ان کے لئے کامیابی آسان رہتی کیونکہ جن 1122 امیدواروں سیول سرویسز کے امتحان میں کامیابی درج کی، ان میں سے 100 امیدوار ٹاملناڈو سے تعلق رکھتے ہیں۔
ٹاملناڈو سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک امیدوار وی پی جیاسلین [V.P. Jeyaseelan] ہیں۔ اخبار ہندو کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے جیاسلین کہتے ہیں کہ :
"میں نے سیول سرویسز کا امتحان ٹامل زبان میں لکھا ہے "۔
اپنی کامیابی کا راز وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی مادری زبان میں یہ امتحان کامیاب کیا ہے اور میں ہمیشہ ہی اس بات کی وکالت کرتا ہوں کہ زبانیں کامیابی کے راستے میں کبھی بھی رکاوٹ نہیں بنتی ہیں اور نہ سیول سرویسز کے امتحان میں کامیابی کیلئے ٹامل زبان میں امتحان لکھنا مسئلہ بنا۔
جیاسلین کے والد اور والدہ ہر دو نے کوئی زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی لیکن جیاسلین کہتے ہیں کہ سال 2004 ء میں سونامی سے پھیلی تباہی کے بعد امدادی کام کرنے والے ایک آئی اے ایس آفیسر کے متعلق پڑھنے کے بعد ہی انہوں نے خود بھی آئی اے ایس بننے کیلئے ارادہ کرلیا تھا ۔ اب اس مثال سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں کہ مادری زبان میں تعلیم کا حصول اور مادری زبان میں مسابقتی امتحانات لکھ کر بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ جب مسلمانوں کے احتساب کی بات آتی ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسلمانوں کی مادری زبان کیا ہے ؟ کہنے کو تو اردو مسلمانوں کی مادری زبان ہے مگر اترپردیش اور بہار میں اردو میڈیم کی کارکردگی مایوس کن ہے ۔ یہاں تک کہ وہاں کی مساجد میں بھی آویزاں بورڈس پر ہندی لکھائی دیتی ہے ۔
جنوب میں جو مسلمان اپنی مادری زبان اردو کو قرار دیتے ہیں ان کا المیہ یہ ہے کہ وہ بول چال کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر اردو زبان میں پرھنا اور لکھنا ان کیلئے مسئلہ ہے ۔

اگر مسلمان اردو کو اپنی مادری زبان کہتا ہے اور اردو میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو ٹاملناڈو کی طرح اردو میڈیم کا طالب علم اردو زبان میں سیول سرویسز کا امتحان لکھ کر کامیابی حاصل کرسکتا ہے ۔ مگر ہم مسلمانوں کا برا مسئلہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کو اپنی کامیابی کا پیمانہ مانتے ہیں ۔ یوں اردو زبان میں سیول سرویسز کا امتحان لکھنے کی سہولت رکھ کر بھی ہم کامیابی حاصل نہیں کر پائے ۔ جب تک مسلمانوں کے بچے اپنی مادری زبان میں اسکولی تعلیم حاصل نہیں کریں گے تب تک سیول سرویسز کے امتحان اردو میں لکھنے کی بات نہیں سوچی جاسکتی۔ دوم ہمارے بچے انگریزی میڈیم سے پڑھ کر اگر سیول سرویسز کے امتحان میں کامیابی حاصل نہیں کرپا رہے ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا اور غور کرنا ہوگا اور روایاتی انداز فکر کو ترک کر کے آگے بڑ ھنا ہوگا کہ راتوں کو جاگ کر پرھنا کامیابی کا ضامن نہیں، غریبی میں محنت کر کے بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور ماں باپ اگر کم تعلیم یافتہ ہوں تو یہ بچوں کیلئے کسی طرح کا مسئلہ نہیں ہوسکتا ۔ ساتھ ہی مادری زبان میں تعلیمی سفر آسانی سے طئے ہوتا ہے اور کامیابی کا ضامن بن سکتا ہے ۔ بقول شاعر ہمیں خود پر یقین رکھنا ہوگا۔

جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرادیا ، وہ قدم قدم پر بہک گئے

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

Sincere efforts and dedication leads to Success. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں