صدقہ فطر - ایک پسندیدہ عمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-15

صدقہ فطر - ایک پسندیدہ عمل

sadqa-e-fitr
جی ہاں! صدقہ اللہ کے نزدیک بے حد پسندیدہ عمل ہے اور رمضان کے مہینہ میں اس کی اہمیت، فضیلت اور قدروقیمت مزید بڑھ جاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ اور محبوب رسول ، اہل بیت اور ان کے جاں نثار صحابہؓ کے ذریعہ اس عمل خیر کو بہت اچھی طرح واضح کیا ہے ، جو عدیم المثال ہے ۔ اس عمل کی مقبولیت اور رب کے نزدیک پسندیدگی اس لئے بھی اور بڑھ جاتی ہے کہ رمضان میں مسلمانوں کے لئے مہمان ہے جو سال میں ایک مہینہ کے لئے آتا ہے اور پورے سال کی خوشیوں کی سوغات دے کر جاتا ہے ۔ یہ صدقہ، خیرات اس مہمان خاص کا تقاضہ اوراس کو خوش رکھنے کا ذریعہ ہے جس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے بے حساب کھول دیتا ہے کیونکہ جب وہ دیتا ہے تو بے حساب دیتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت نوازشات اور عطاؤں کی برسات کرنا چاہتا ہے لیکن بندہ اس کے لئے کوشاں تو ہو یا کم ازکم دامن تو پھیلائے اور اس ماہ مبارک کا خیر مقدم ان ہی کوششوں اور کاوشوں میں سے ایک ہے۔ تو نیند سے جاگئے اور غفلت سے بیدار ہوجائیے کہیں رحمت سے محروم نہ ہوجائیں ۔ خوب آؤ بھگت کیجئے اس مہمان کی ، اس کے تقاضے پورے ہوگئے تو ایسی انعام و اکرام کی بارش ہوگی کہ سالہا سال اس سے سیراب ہوتے رہیں گے ۔ اور مہمان نوازی میں ہم کہاں پیچھے رہے ہیں ۔دنیا نے ہماری مہمان نوازی کی مثالیں دی ہیں بلکہ آج بھی دے رہی ہے اورایک بے مثل تاریخ لکھی ہے ہم نے ۔ ہم نہ اس سے کبھی گھبرائے ہیں اور نہ ہی ہمیں گھبرانا ہے ۔، ہاں ہم کبھی کبھی تھوڑی غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں مگر اس مہمان نے ہمیں جگادیا ہے۔ ویسے مانگا ہی کیا ہے اس مہمان نے ہم سے ؟ صدقہ خیرات ! تو کون سا خود لے رہا ہے ، لے بھی تو ہم ہی رہے ہیں ۔ واہ رے رحمت خداوندی : خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتے کا بھلا ہو ۔ صدقہ کرنے سے ایک تو اعزا، اقرباء، غربا ، مساکین کی مدد ہوجاتی ہے جس سے ان کے دل سے تمہارے لئے دعا نکلتی ہے جو سیدھے باب اجابت سے ٹکراتی ہے اور آن میں مشکلیں حل ہوجاتی ہیں:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
یہ جو کبھی اچانک ہماری مشکلیں ، مصیبتیں، پریشانیاں ، آفات و بلیات ٹل جاتی ہیں ۔ یہ کچھ اور نہیں ہمارے انہیں اعمال کا صلہ ہیں۔ روایت میں تو یہاں تک آیا ہے کہ صدقہ جان و مال کی حفاظت کا سامان ہے۔ اس صدقہ سے مخلوق خوش ہوتی ہے اور مخلوق خدا کی غم گساری میں رب کی رضا و خوشنودی ہے اور رب کی خوشی سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں ہوسکتی ۔صدقہ سے صرف دوسری مخلوق ہی خوش نہیں ہوتی بلکہ ایک گونہ خود کی بھی تسلی، تشفی اور اطمینان قلب و روح کا ذریعہ ہے ۔ آج کی اس تیز رفتار زندگی میں انسان کے پاس بے بہا دولت و ثروت توہے ، آسمان کو چومتی ہوئی بلند سے بلند تر فلک بوس عمارتیں تو ہیں، انسان مادیات سے نکل کر ترقیات کی وسیع تر دنیا میں قدم رکھا ہی نہیں بلکہ جما چکا لیکن پھر بھی اس کی زندگی سکون سے خالی ہے ، اس کی روح اور اس کا دل اطمینان کا متمنی ہے جو اسے میسر نہیں کیونکہ دنیا کی کسی بھی دولت سے اس کی تجارت نہیں ہوسکتی ، مگر اسی دولت سے اسے حاصل ضرور کی جاسکتی ہے اور وہ صدقہ و خیرات ہے ، بزرگوں کا روایتی قول ہے : اگر گھمنڈ اور تکبر کی دیوار توڑنا چاہتے ہو تو غریبوں، مسکینوں اور اپنے سے چھوٹوں کو سلام کرو اور اگر قلب و روح کی تسکین چاہتے ہو تو صدقہ کرو۔
یہاں ایک بات اور عرض کردوں کہ لوگوں کو بڑی شکایت رہتی ہے کہ اب فقیر کہاں رہے اور انہیں تلاش کرنیکہاں جائیں، یہ سوچ کر صدقہ کا ارداہ ترک کردیا۔ صدقہ و خیرات کے لئے گھر میں انتظار یا بازار میں باقاعدگی سے تلاش کی ضرورت نہیں ، کیونکہ ضرورت کا سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا اور خاص طور پر اس وقت اسے پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے جب ضرورت مند خوددار ہو ۔ کبھی کبھی ضرورت ہمارے دروازے پر ہوتی ہے اور ہم اسے محلہ میں تلاش کررہے ہوتے ہیں یعنی کبھی کبھی ضرورت مند ہمارے اپنے بھائی بند، رشتہ دار، دوست احباب ، قریبی پڑوسی بھی ہوسکتے ہیں لیکن شرم، عزت نفس ، اور خودداری کی وجہ سے اس کا اظہار نہیں کرپاتے ، ان کی آنکھیں فریاد کرتی ہیں ، ان کا چہرہ احتیاج کی داستان بیان کرتا ہے ۔ ضرورت بھی ایک جیسی نہیں رہتی اس کی الگ الگ صورتیں ہوتی ہیں لہذا صدقہ کا مطلب صرف پیسہ خرچ کرنا نہیں ۔ کسی کو آپ کے عملی سہارے کی ضرورت ہے ، کسی کو آپ کی محض موجودگی کی ضرورت ہے ، کسی کو آپ سے ایک محبت بھری نگاہ سے دیکھ بھر لینے کی ضرورت ہے ۔ صدقہ کی صورت انسان کے قدرت و اختیارات اور اس کی حالت اور پوزیشن سے بدلتی رہتی ہے ، وقت کی ضرورت کو پورا کرنا ہی صدقہ ہے ۔ یہ اللہ رب العزت کا بڑا کرم ہے کہ اس نے قسم قسم کے اعمال کو صدقہ میں شمار کر کے عظیم احسان کیا ۔ آپ راستہ میں جارہے ہیں کسی بزرگ کو راستہ پار کرادیا صدقہ ہے ۔ آپ بس میں سفر کررہے ہیں سیٹ پر بیٹھے ہیں یہ آپ کاحق ہے لیکن کوئی اور تم سے زیادہ ضرورت مند دکھائی دیا اور تم اس کو جگہ دے سکتے ہو تو صدقہ ہے ۔ آپ کے یہاں مزدورکام کرررہے ہیں شام کو کام ختم ہوا مسکرا کر شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی اجرت ادا کردی صدقہ ہے، میں تو قربان رب کی عنایتوں پر کہ ایک مومن کو مسکرا کر دیکھ لیا صدقہ ہے، اپنے ماں باپ کی زیارت کرلی صدقہ اپنے بچوں کو پیار دلار کیا صدقہ ہے ۔ یہ تو انعامات کی بارش ہورہی ہے جو بے بہا اور بے حساب بس ہوتی جارہی ہے ۔ تو مسلمانو!جاگو اس سے پہلے کہ تم اپنے آپ پر رحمت کا دروازہ بند کرلو اور بارش کی بوندوں کو سمونے کے لئے تمہارے کپڑے اتنے باریک ہو جائیں کہ ایک بوند تک نہ سنبھال پائیں۔
مہمان ابھی گھر میں ہے خوب خدمت کرو کہ تم نے ایسا کیا ہے۔ سخاوت کے جوہر دنیا نے تم سے سیکھے ہیں ، ایثار اور قربانی کیا ہے یہ تم نے دنیا کو بتایا ہے ۔ گھر بار مال و دولت، منصب و تجارت کے حصہ کرتے ہوئے تاریخ نے تمہارا مشاہدہ کیا ہے، اوروہ تم ہی ہو جس کے ایک عمل پر تو تاریخ خود حیران ہوگئی جب تم نے اپنے مہاجرین بھائیو ں کے لئے اپنے گھروں کو خالی کردیا ۔ اے مسلمانو! جاگو! جاگو اس سے پہلے کہ اپنے پیر پر کلہاڑی نہیں بلکہ پیر کو کلہاڑی پر مار لو۔

Sadaqa-e-Fitr, a favourite act

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں