دہلی کو بجلی اور پانی کے لئے 700 کروڑ روپے الاٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-11

دہلی کو بجلی اور پانی کے لئے 700 کروڑ روپے الاٹ

نئی دہلی
سلیم صدیقی/ اظہار الحسن
ایس این بی
مرکزی بجٹ میں قومی خطہ راجدھانی میں بجلی شعبہ میں اصلاح کے لئے200روڑ روپے منظور کئے گئے ہیں جب کہ پانی کی سپلائی میں اصلاح کے لئے500کروڑ روپے منظور کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ قومی خطہ راجدھانی کو پانی سپلائی میں در پیش مسائل کے حل کے لئے طویل عرصہ سے زیر التوا رینو کا باندھ کی تعمیر کو ترجیح دی گئی ہے جس کے لئے50کروڑ روپے الاٹ کئے گئے ہیں ۔ بہر حال200کروڑ روپے سے سرکار کس طرح بجلی میں سدھار کرے گی اور 500کروڑ سے کس طرح پانی سپلائی میں سدھار کرے گی۔ بجلی اور پانی کے سدھار کی مد میں مختص بجٹ کی دونوں مدوں میں کیا سرکار سبسڈی دے پائی گی لیکن اگر ایسا نہیں کرپائی تو پھر دہلی کے عام آدمی کو مذکورہ بجٹ کا کوئی خاص فائدہ نہیں ملنے جارہا ہے ۔ راجدھانی میں لگاتار بڑھ رہی آبادی کے پیش نظر بجلی سے متعلق انتظامات اور بنیادی انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لئے مرکزی سرکار نے200کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے۔ اس بجٹ سے بجلی کی نئی لائنیں ڈالی جائیں گی ساتھ ہی سب اسٹیشنوں کی تعمیر بھی کی جائے گی۔ فی الحال ڈی ٹی ایل کی400کیوی کی249کلومیٹر لمبی لائنیں اور220کیوی کی9250کلو میٹرلمبی لائنیں ہیں۔ لیکن دہلی کی توسیع ہونے اور بجلی کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے لائنوں پر بوچھ پڑ رہا ہے ۔ کئی بار اوور لوڈ ہونے کی وجہ سے لائنیں ٹرپ ہورہی ہیں ۔ ڈی ٹی ایل کا کئی نئی لائنیں ڈالنے کا منصوبہ تھا لیکن مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پارہا تھا۔ کم و بیش یہی حالت220کیوی کی لائنوں کے انسویٹر بدلنے کی ہے۔ ٹرانسکو کے ذریعہ400کے وی لائنوں کے انسولیٹر پہلے ہی بدل دیے گئے ۔ فی الحال200 کروڑ روپے کی رقم الاٹ ہونے پر اب اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنایاجاسکے گا ۔ راجدھانی میں لگاتار پینے کے پانی کی مانگ بڑھتی جارہی ہے لیکن اس مانگ کو پورا کرنے میں جل بورڈ ناکام ہے۔ اب پانی تقسیم کی صلاحیت بڑھانے کے لئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کرنے کے مقصد سے مرکزی بجٹ میں500کروڑ روپے کی رقم منظور کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ دہلی میں لگاتار پانی کی مانگ بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے راجدھانی میں پانی کا بحران پیدا ہوگیا ہے اور جل بورڈ کے200سے زیادہ ٹیوب ویل بند ہوگئے ہیں۔ اسی کے پیش نظر جل بورڈ ان علاقوں میں زیر زمین آبی سطح کو اوپر لانے کے لئے واٹر ہارویسٹنگ سسٹم کو ڈیولپ کرکے پانی کی سطح کو اوپر لانے کے لئے کوشاں ہے ۔ اسکے علاوہ غیر منظور شدہ کالونیوں میں پانی کی سپلائی نہیں ہوپارہی ہے ۔ جل بورڈ ان کالونیوں کے لئے زیر زمین تالاب بنانے کی سمت میں کام کررہا ہے ۔ ابھی تک ان تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنچانے میں بجٹ کی کمی آڑے آرہی تھی لیکن اب مرکزی بجٹ میں دہلی جل بورڈ کو500کروڑ روپے انفراسٹرکچر کی مدمیں الاٹ ہونے پر مذکورہ سبھی ممکنہ کاموں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے گا۔
دوسری جانب مرکزی سرکار کا بجٹ2014دہلی سرکار کی امیدوں پر کھرا نہیں اتر پایا۔ دہلی سرکار کے افسران کو کم سے کم200کروڑ سے زیادہ بجٹ مختص کئے جانے کی امید تھی لیکن انہیں صرف100کروڑ روپے کی رقم پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ مرکز میں نریندر مودی سرکار کے آتے ہی جمنا کی خوبصورتی کے لئے تقریباً1000کروڑ روپے کی ضرورت تھی، لیکن اس مد میں دہلی سرکار کو کوئی بھی رقم الاٹ نہیں ہوئی ہے۔ مرکز نے دہلی سرکا رکو بجلی سدھار کے لئے200کروڑ اور پینے کے پانی کا بہتر نظم کرنے کے لئے500کروڑ کی رقم الاٹ کی ہے۔ مرکزی سرکار کے ٹیکس میں دہلی کے حصہ کا325کروڑالاٹ کیا گیا ہے ۔ پچھلے سال بھی اس مد میں325کروڑ روپے ہی ملے تھے لیکن سب سے اہم منصوبہ جمنا کی خوبصورتی اور جمنا کے پانی کو صاف کرنے کے لئے زیادہ بجٹ کی ضرورت تھی جہاں کوئی اضافی رقم دہلی سرکار کو حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ سابرمتی ماڈل پر جمنا کی خوبصورتی کے لئے اعلیٰ سطحی ٹیم احمدآباد کا دورہ کرچکی ہے اور اس کی تفصیلی رپورٹ مرکز ی وزیر جہاز رانی نتن گڈ کری کو دی گئی ہے ۔ دوسری طرف جمنا کے کنارے گھاٹوں کی خوبصورتی کے لئے7شہروں کو مشترکہ طور پر100کروڑ روپے الاٹ کیے گئے ہیں۔ ان شہروں میں کیدار ناتھ ، ہری دوار،کانپور، وارانسی اور پٹنہ شامل ہیں ۔ اس رقم سے دہلی میں جمنا کے کنارے کریشین مقام جیسے بڑے پروجیکٹوں کو عملی جامہ نہیں پہنچایا جاسکتا ہے ۔ مرکزی سرکار نے راجدھانی میں دست کاری کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا ہے اور بہت جلد دہلی میں دست کاری اکادمی قائم کی جائے گی لیکن اس پر عمل آوری کے لئے دہلی سرکار کو ذمہ دار ی نہیں دی گئی ہے بلکہ اسے مرکزی سرکار ہی قائم کرے گی ۔ اس کے لئے30کروڑ کی رقم الاٹ کی گئی ہے ۔
عام بجٹ میں انکم ٹیکس کی حدمیں50ہزار روپے کی رعایت دئیے جانے پر جہاں کم آمدنی والے ملازمت پیشہ لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ ہے تو وہیں سگریٹ اور تمباکو نوشی کے عادی لوگوں کی جیب پر ٹیکس کا بوجھ بڑھ جانے سے ان میں مایوسی ہے ۔ زیادہ تر عام لوگوں کاماننا ہے کہ مودی سرکار نے متوازن بجٹ پیش کیا ہے تو کچھ کا کہنا ہے کہ اس بجٹ سے عام لوگوں کو کوئی راحت نہیں ملنے والی اور اچھے دن آنے کی کوئی توقع نہیں ہے ۔ موج پور میں رہنے والی خاتون رفیعہ نے سگریٹ اور گٹکھا کی قیمتوں میں اضافہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ تمباکو نوشی کی اشیاء کی قیمت بڑھ جانے سے لوگ اس کا کم استعمال کریں گے یا چھوڑ دیں گے جو انکی صحت کے لئے اچھا ہے۔ انہوں نے صابن اور تیل کی قیمتوں کو کم کئے جانے کا بھی خیر مقدم کیا۔ جعفرآباد کی ہی کشوری بانو کو کہنا تھا کہ سرکار کوالیکٹرانک کے سامان کی قیمت کم کرنے کی بجائے آٹے دال اور چاول وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا۔ سلیم پور مارکیٹ کے ایک دکاندار آر سی اگروال کا کہنا تھا کہ ریڈی میٹ کپڑے اس وقت عام آدمی کی ضرورت ہے ۔ سرکار کو ریڈی میڈ کپڑوں کی قیمتوں میں اضافہ سے گریز کرنا چاہئے تھا۔جوتوں کاکارخانہ چلانے والے محمد ولی کا کہنا ہے کہ جوتوں کی قیمت کیسے کم ہوگی سمجھ میں نہیں آتا ۔ جوتے بنانے کا تمام سامان تو روز بروز مہنگا ہوتا جارہا ہے ۔ کناٹ پلیس میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کرنے والے الکا شرما کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس کی حد2لاکھ سے بڑھاکر ڈھائی لاکھ کردیے جانے سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو فائدہ ہوگا اور 20-21ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے طبقہ کو ٹیکس ادا کرنے سے چھوٹ مل جائے گی اور اس سے زیادہ آمدنی والے طبقہ کو بھی فائدہ ہوگا ۔ ترکمان گیٹ پر ہینڈی کرافٹ کا کام کرنے والے محمد انوار نے کہا کہ بجٹ سے بہت زیادہ امیدیں تو پہلے بھی نہیں تھیں۔
وہیں بی جے پی سرکار کے پہلے عام بجٹ نے اقلیتی فرقہ کو پوری طرح سے مایوس کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کے دوران مسلمانوں کی کھل کر بات کی تھی اور ان کی پسماندگی کا بھی اعتراف کیا تھا ، جس سے یہ امیدیں تھیں کہ شاید یہ سرکار بجٹ میں مسلمانوں کے لئے بہتر قدم اٹھائے گی لیکن ارون جیٹلی کے بجٹ نے انہیں مایوس کیا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم دانشوروں اور سماجی شخصیات کی رائے پیش خدمت ہے ۔ زکوۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر ظفر محمود نے کہا کہ بجٹ میں مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اقلیتوں کا ہے لیکن نہ کے برابر ۔ مدارس کی جدید کاری کے لئے جو100کروڑ دینے کا اعلان کیا گیا ہے وہ پرانا ہے اور یہ اسکیم1996سے چل رہی ہے ۔ ظفر محمود نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دلتوں کے لئے (جن میں ہندو ، سکھ اور بودھ شامل ہیں)بجٹ میں50ہزارروپے مختص کئے گئے ہیں جب کہ مسلمانوں کو صرف100کروڑ کا جھنجھنا دکھادیاگیا ہے ۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں مسلمانوں کے لئے اسکیمیں بنانے کی بات کہی تھی لیکن بجٹ کچھ اور ہی کہہ رہا ہے ۔ مسلم پولیٹیکل کاؤنسل آف انڈیا کے ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ بجٹ میں کچھ بھی قابل تعریف یا نیا نہیں ہے ۔ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے نائب صدر صفدر ایچ خان نے کہا کہ بجٹ عام لوگوں کی امیدوں کے مطابق نہیں ہے ۔ اقلیتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ معروف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ملی رہنما کمال فاروقی نے کہا کہ مودی جی نے اچھے دن آنے کی بات کہی تھی لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ اچھے دن کب آئیں گے ۔ اس بجٹ کو دیکھ کر تو یہی کہاجاسکتا ہے کہ فی الحال اچھے دن آنے کی امید نہیں ہے ۔ آل انڈیا شیعہ سنی فرنٹ کے صدرڈاکٹر سردار علی نے کہا کہ اقلیتوں کے تعلق سے بجٹ بے حد مایوس کن ہے ۔ مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی تعلیمی یا اقتصادی اسکیم کا اعلان نہیں کیا گیا جس سے اس حکومت کی نیت کا پتہ چلتا ہے ۔

Rs 700 Crore Allocated for Power, Water Reforms in Delhi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں