مسلمانوں کی پسماندگی کے اعداد و شمار - لوک سبھا میں اسد اویسی کی تقریر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-18

مسلمانوں کی پسماندگی کے اعداد و شمار - لوک سبھا میں اسد اویسی کی تقریر

حیدرآباد
اعتماد نیوز
بیرسٹر اسد الدین اویسی رکن پارلیمنٹ و صدر مجلس نے مسلمانوں کی سماجی ، معاشی و تعلیمی ، پسماندگی سے متعلق معتبر سرکاری اداروں کے مصدقہ اعداد و شمار کو لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے اقلیتوں کی ترقی کے لئے کوئی بھی فلاحی اسکیم کو ’’خوشامد‘‘ قرار دے کر اس میں رکاوٹ ڈالنے والی بی جے پی کو آج منہ توڑ جواب دیا ہے۔ انہوں نے عام بجٹ پر پارلیمنٹ میں جاری مباحث میں حصہ لیتے ہوئے اس کی مخالفت کی اورکہا کہ حکمراں جماعت ہمیشہ مسلمانوں کی ترقی سے متعلق اسکیموں کو’’خوشامد‘‘ کہہ کر اس میں رکاوٹ ڈالتے آئی ہیں اس لئے وہ اس کی مخالفت کررہے ہیں’’منصوبہ بندی کمیشن کے مطابق دیہی علاقوں کے12.4فیصد مسلمان سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ کیا یہ خوشامد پسندی کا نتیجہ ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ35فیصد مسلم خواتین میں تغذیہ کی کمی ہے اور وہ کمزور ہیں ۔54.7فیصد مسلم خواتین میں خون کی کمی ہے ۔52.4فیصد بچے پیدائش کے بعد ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ انسانی فروغ سے متعلق2011کی رپورٹ کے مطابق ملک میں زیادہ تر مسلمان بے زمین و بے گھر اور معمولی جائیداد کے حامل ہیں ۔ رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے کہا کہ این ایس ایس او کے سروے کے مطابق مسلمانوں کی گھریلو آمدنی ہندوؤں ، عیسائیوں اور سکھوں سے کم ہے ۔ اسی سروے کے مطابق بے روزگاری کا تناسب بھی مسلمانوں میں سب سے زیادہ ہے تو کیا پھر یہ مسلمانوں کی خوشامد کا نتیجہ ہے ؟
رکن پارلیمنٹ حیدرآبا د جب ایوان میں یہ اعداد و شمار کررہے تھے چراغ پابی جے پی کے اراکین نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس پر بیرسٹر اویسی نے کہا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل پر 24گھنٹے مباحث کے لئے تیار ہیں ۔ بی جے پی کے ارکان ان کی دلیلوں کا جواب نہیں دے سکیں گے ۔ صدر مجلس نے کہا کہ جہاں مسلمانوں کی حالت اس قدر خراب ہے وہیں اقلیتوں کے لئے جو بجٹ مختص کیا گیا ہے وہ مجموعی بجٹ کا0.21فیصد ہے جب کہ اقلیتی امور کے لئے مختص رقم مجموعی گھریلو پیداوار کار0.03فیصد ہے۔ رکن پارلیمنٹ نے حکومت سے سوال کیا کہ آخر یہ کیا ہے؟ کیا یہ ٹوکن ازم ہے ؟ کیا یہ اپیسمینٹ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کو عصری بنانے کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے ۔ حکومت کیندراودیالیہ کو عصری بنانے کی بات کیوں نہیں کرتی؟ بیرسٹر اویسی نے مطالبہ کیا کہ دینی مدارس کے معاملہ میں مداخلت نہ کی جائے ۔اسکا نظم مسلمانوں پر چھوڑ دیا جائے ، وہ اپنے خطیب ، امام ، محدث خود تیار کرلیں گے اس کے لئے انہیں حکومت کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے ۔ وزیر داخلہ یہ بتائیں کہ ملک میں کتنے دینی مدارس ہیں اگر حکومت100کروڑ روپے کی امدا د کرتی ہے تو اس امدا کو اگر دینی مدارس میں تقسیم کیا جائے تو ایک مدرسہ کو15روپے بھی نہیں ملیں گے ۔ اس لئے حکومت اس رقم سے اقلیتوں کے لئے اسکولس کھولیں ، کیوں کہ وزارت فروغ انسانی وسائل کی ایجوکیشن ڈیولپمنٹ رپورٹ کے مطابق پرائمری اسکول کی سطح پر مسلم بچوں کے داخلوں کے فیصد میں اس سال14.20سے لے کر14.35فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ جب کہ اپر پرائمری سطح پر12.11سے لے کر12.52کا اضافہ ہوا ہے ۔
بیرسٹر اویسی نے اقلیتوں کے لئے پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالر شپس کی رقومات میں اضافہ کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ اعداد و شمار کے مطابق ایک پری میٹرک اسکالر شپ کے لئے11مسلم بچے درخواستیں داخل کررہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم بچوں میں تعلیمی رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وہ امداد کے منتظر ہیں ۔ رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے پوسٹ میٹرک اسکالر شپ سے متعلق کہا کہ او بی سیز کے لئے760کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جب کہ اقلیتوں کو مشکل سے300کروڑ روپے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک اسکالر شپس کو طلب سے مربوط کیا جائے ۔ یعنی جو بھی درخواست گزار اسکالر شپ حاصل کرنا چاہتا ہے اسے اسکالر شپ فراہم کی جائے کیونکہ ملک میں100گریجویٹس میں سے صرف3مسلم گریجویٹ ہیں۔ صدر مجلس نے ملٹی سیکٹوریل ڈیولپمنٹ پروگرام(ایم ایس ڈی پی)سے متعلق کہا کہ اس اسکیم کے لئے مرکز راست امداد فراہم کرتا تھا لیکن اب اس کو اسٹیٹ پلان سے مربوط کیا گیا ہے ۔ طویل نمائندگی کے بعد گزشتہ حکومت نے اس اسکیم میں770بلاکس اور66ٹاؤنس شامل کئے تھے ۔ اگر موجودہ حکومت اس کو1250میں تقسیم کرتی ہے تو ہر بلاک اور ٹاؤن کو صرف ایک کڑور روپیہ ہی حاصل ہوگا جو بے معنی رہے گا کیا اتنی رقم سے آئی ٹی آئی ، این آر ایچ ایم جیسے ادارے قائم ہوسکیں گے ؟
رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے وزیر اعظم کے15نکاتی پروگرام پر عمل آوری سے متعلق موجودہ حکومت سے وضاحت طلب کی کہ آیا وہ اس پروگرام کے سلسلہ میں سنجیدہ ہیں ؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس پروگرام کو ایس سی ایس ٹی سب پلان کی طرز پر عمل کیا جائے اور اس کے لئے زائد رقم کی مختص کی جائے ۔ بیرسٹر اویسی نے ہر سبسیڈی کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس رعایت کی مسلمانو ں کو ضرورت نہیں ہے اس کے بجائے550کروڑ روپے کی رقم سے مسلم لڑکیوں کو اسکالر شپ فراہم کی جائے تاکہ ہمارے بچے تعلیم یافتہ ہوسکیں ۔ انہوں نے کہا کہ وزیرفینانس نے روایتی اکیلس سے متعلق ایک نئیا سکیم کو تو متعارف کیا ہے لیکن بجٹ سے متعلق دستاویزات میں اس کا ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اقلیتوں اور دوسرے زمروں کے تحت اس کے لئے رقم مختص کی گئی ہے ۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ انتخابی منشور میں اردو زبان کے تحفظ کی بات کہی گئی لیکن وزارت فروغ انسانی وسائل کے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اردو اساتذہ کے تقرر کے لئے ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا ۔ رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے حیدرآباد کے لاء اینڈ آرڈر کو گورنر کے حوالہ کرنے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اسے ملک کے وفاقی ڈھانچہ کے لئے خطرناک قرار دیا ۔ انہوں نے وزیر داخلہ سے سوال کیا کہ کیایہ وفاقی ڈھانچہ کے خلاف نہیں ہے؟ صدر مجلس نے حکومت سے یہ بھی دریافت کیا کہ ایم ایم آر سی اے معاہدہ کو جوقطعیت دی گئی تھی کیا اسے دفاعی بجٹ میں شامل کیاجائے گا؟ تقریر کے آخر میں بیرسٹر اویسی نے این ڈی اے حکومت میں وزیر فینانس کے معاشی مشیر رہ چکے ایک ماہر معاشیات کے مضمون کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے مضمون کا اختتام اس محاورہ سے کیا ہے کہ’’اچھے دن دور است‘‘

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں