اعتکاف - ایک اہم عبادت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-24

اعتکاف - ایک اہم عبادت

itikaaf
رمضان کے روزوں سے وابستہ ایک بڑی گرانقدر عبادت ہے جس کا نام اعتکاف ہے ۔ قرآن میں روزے کے احکام سے متعلق آخری آیت میں جس کا تذکرہ ہے ۔ مفہوم: مسجدوں میں اعتکاف کیے ہوئے ہو ۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسجد میں قیام کرنے کا نام اعتکاف ہے ۔ اعتکاف کا ثبوت قرآن و سنت نبوی دونوں سے ہے ۔ سید نا علیؓ سے روایت کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس نے رمضان میں دس دن اعتکاف کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے دو حج اور دو عمرے کئے( بیہقی) سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی رضا کے لئے ایک دن کا بھی اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم اور اس کے درمیان تین خندقیں خافقین(جگہ) سے زیادہ دور حائل کردیتا ہے ۔(بیہقی ، حاکم، طبرانی) ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تا وفات رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے رہے، آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواج متعکف ہوتی رہیں۔ آپ فرماتی ہیں معتکف کے لئے سنت یہ ہے کہ بیمار کی عیادت کو نہ جائے ، جنازہ میں شرکت نہ کرے ، بیوی سے قربت و صحبت نہ کرے ، مسجد سے انسانی ضرورت کے علاوہ نہ نکلے ، اعتکاف روزے کے بغیر نہیں اور اعتکاف ایسی مسجد میں ہی ہوتا ہے جس میں پنجگانہ نمازیں ہوتی ہیں۔(بخاری و مسلم، ابوداؤد)
آپ ﷺ تا وفات رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے رہے ۔ واضح رہے کہ آپ نے کل9رمضان کے روزے اپنی حیات شریفہ میں رکھے۔ ایک بار آپ ﷺ رمضان میں اعتکاف نہ کرسکے تو شوال میں قضا فرمائی ۔ آپ ﷺ نے ایک بار پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا پھر دوسری مرتبہ دوسرے عشرے اعتکاف فرمایا اور تیسری بار آخری عشرے میں معتکف ہوئے ۔ اوران میں شب قدر تلاش فرماتے رہے، پھر جب آپ ؐ کے سامنے یہ بات کھل کر آگئی کہ شب قدر آخری عشرے میں ہی ہوتی ہے تو پھر آپ ؐ آخری عشرے ہی میں معتکف ہوتے ۔ آپ کی اجازت سے مسجد میں عارضی خیمے کا نظم کیاجاتا ہے ، جس میں رب کے ساتھ یکسو ہوتے ۔ اعتکاف در حقیقت نیک عمل ہے ، باعظمت عبادت ہے ، باذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں ، ادائیگی کے آداب و شرائط ہیں، جن کا لحاظ ضروری ہے۔(۱) نیت: اعتکاف کے لئے نیت ضروی ہے ، فرمان رسالت ہے انما الاعمال باالنیات اعمال کے لئے نیت ضروری ہے(بخاری و مسلم)(۲) اعتکاف مسجد ہی میں درست ہے ۔ قرآن میں ہے مفہوم: اور کہ تم مسجدوں میں معتکف رہو(سورہ، البقرہ)(۳) ایسی مسجد ہی میں اعتکاف صحیح ہے جس میں پانچوں وقت کی نماز جماعت سے ہوتی ہو، بعض ائمہ کے یہاں جامع مسجد شرط ہے ۔
اعتکاف کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ اللہ کے ذکر، نماز، تلاوت قرآن اور تسبیح وغیرہ پڑھنے میں مشغول رہے اور بے مقصد امور سے گریزکرے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انسان کے اسلام کی خوبی کا تقاضہ یہ ہے کہ بے مقصد چیزوں سے گریز کرے ۔ معتکف ملنے جلنے والوں سے بات چیت کرسکتا ہے ، ہاں گفتگو و ملاقات زیادہ دراز نہ ہو ، صفائی ستھرائی کا اہتمام کرے ، خوشبو لگائے اور انسانی ضروریات کے لئے باہر جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اعتکاف کی حالت میں صرف قضائے حاجت کے لئے دولت خانہ تشریف لے جاتے (بخاری و مسلم)
معتکف غسل جنابت کے لئے مسجد سے باہرجاسکتا ہے اور اگرکھانا، سحری ، پانی کوئی پہنچانے والا دستیاب نہ ہوتو خود یہ ضرورت کی تکمیل کرسکتا ہے ۔ امام زہریؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بہت سے کام کبھی کرتے اورکبھی چھوڑ دیتے ، لیکن جب مدینہ منورہ تشریف لائے اخیر زندگی تک کبھی بھی رمضان کا اعتکاف نہیں چھوڑا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اعتکاف کرنے والا گناہوں سے بچا رہتا ہے اور اسکے لئے اتنی نیکیاں لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والوں کے لئے لکھی جاتی ہیں۔(جو نیکیاں عیادت، جنازہ، اعتکاف کی حالت میں نہیں کرسکتا۔(ابن ماجہ)
اعتکاف کرنے والا ہر وقت یا عبادت میں یا طاعت میں جب اللہ کے ذکر ، تلاوت ،درود و تسبیح وغیرہ میں رہتا ہے تو عبادت میں رہتا ہے ، جب کھاتا پیتا، سوتا یا بامقصد بات کرتا ہے تو طاعت میں عبادت و طاعت کا فرق ملحوظ خاطر رہے ۔ اعتکاف میں انسان کویکسوئی حاصل ہوجاتی ہے اور دنیا کی فکروں سے خالی ہوجاتا ہے ۔ انسان کی توجہ کو خدا سے ہٹانے ولی چیز یں وہ انسان کے اپنے اندر ہوں یا باہر، جب انسانی تنہائی میں رہے گا تو آہستہ آہستہ سب ختم ہوجائیں گی اور اس میں عبادتوں کے انوارو برکات حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی ، لوگوں سے ملنے جلنے میں گناہوں کا ارتکارب ہوتا ہے ، لیکن اعتکاف کا قلعہ اس سے بچا لیتا ہے ۔ خدا ئے پاک فرماتا ہے کہ جو مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے میں دوڑ کر اسے اپنا لیتا ہوں ۔ اب اس پس منظر میں اعتکاف کرنے والا اپنا گھر در چھوڑ کر صرف قریب ہی نہیں بلکہ خدا کے در پر آکے پڑ جاتا ہے ، اب اس کے خدا سے قرب و نزدیکی کا کیا ٹھکانہ؟ اعتکاف کے گوناگوں مقاصد میں سے ایک بنیادی مثالی مقصد گوہر آبدار ، شب قدر، رحمت حق ، مجدہ کے بحر ناپیدا کنار میں غواصی اور غوطہ زنی ہے ۔ حد درجہ جانفشانی کے بعد دامن لعل و گہر سے مالا مال کرلے وہ آخری عشرے ہے، طاق راتوں میں ہے، رجحان ہے کہ ستائیسویں شب میں ہے ۔ معتکف تو مغرب سے طلوع فجر تک آخری عشرے میں تیار تکتا رہتا ہے ۔ روح کی بالیدگی ، قلب کی صفائی، دماغ کی تصحیح فکر رسائی اس انمول شب کے ایک لمحے کو سمونے پرونے سے قلب کو منور کرے، بصیرت افزائی روح کی لطافت کو پروان چڑھانے اور دماغ فکر رسا کو روشن کرنے کے لئے سراپا انتظا ررہتا ہے ۔ وہ ایسی مشعل پالیتا ہے جس کی روشنی میں گیارہ مہینے منزل کی طرف گامزن رہتا ہے ۔ اعتکاف کی اعلیٰ عبادت کے لئے جوانوں کے ہراول دستے کومساجد کا رخ کرنا چاہئے کہ ایسے جواں اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوں گے جواں سال معتکف کی تربیت تجربہ کار اعتکاف کرنے والے علماء کی نگرانی میں کرائی جائے۔

Itikaaf, a key worship

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں