غزہ کا محاصرہ اور دنیا کے اطراف بے حسی کی دیوار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-14

غزہ کا محاصرہ اور دنیا کے اطراف بے حسی کی دیوار

Gaza-and-the-Great-Wall-of-Silence
اسرائیل کی دہشت گردی کا دور ایک بار پھر اپنی پوری شیطانی طاقت کے ساتھ لوٹ آیا ہے ۔ جس نے بے بس ، مجبور اور اپنی مدافعت کے معذور شہری آبادی کو غالباً لامتناہی نشانہ بنایا ہے اور دنیا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ تماشہ دیکھ رہی ہے ۔ ایسے میں بعض لوگوں کی اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے محو کردے ۔ احمد نژاد نے جب یہ کہا تھا یقیناًوہ اس وقت بالکل سچ کہہ رہے تھے ۔
آپ اس کے سوائے اور کیا توقع کرسکتے ہیں؟ کچلے ہوئے ، مظلوم لوگ اور کیا کرسکتے ہیں؟ ظالم کے لئے بس صرف اللہ سے اس کی ظالمانہ اور ہلاکت خیز حکومت کے خاتمہ کی دعا کی جاسکتی ہے اور باقی دنیا اس کا شکار مجبوروں کی مدد کرنے کے بجائے اسکے ظلم اور اس کی ایذا رسانی پر خوش ہورہی ہے ۔
اگر اب بھی کوئی اسرائیل کے ساتھ امن کی معصوم آس لگائے رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل امن کی کوششوں ،مذاکرات اور دور یاستوں کے حل کا پابند ہے تو اسرائیل نے ان کو بتلادیا ہے کہ وہ ان کی آرزو اور امنگوں کے بارے میں کیا سوچتا ہے ؟تین اسرائیلیوں کی پراسرار موت کے جواب میں اسرائیل نے تقریباً ایک سو فلسطینیوں کو شہید کردیا اور بڑی ہی مشکل سے تعمیر کردہ غزہ کو تباہ کرکے کھنڈر میں تبدیل کردیا۔ اسرائیل کے زیر محاصرہ آبادی کے خلاف دنیا کی سب سے ترقی یافتہ فوج کی کارروائیاں ابھی شروع ہوئی ہیں ۔
سوسان ابوالحوا کے الفاظ میں جو فلسطینی ادیب اور جہدکار ہیں فلسطینی بچوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ انہیں قتل کیاجاتا ہے۔ یہ ہر روز کی بات ہے۔ ان کی موت کا تذکرہ مشکل ہی سے مغربی میڈیا میں آتا ہے دنیا میں کسی بھی ماں باپ کو اپنی اولاد کے قتل کا صدمہ نہیں پہنچنا چاہئے ۔ مگر اس کا اطلاق یہودی والدین پر نہیں ہوتا کیونکہ ان کی اولاد کے ساتھ ایسے واقعات نہیں ہوتے ۔ اسرائیل کا ہر جرم ظلم و استبداد کی ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے اور انسانیت کے وقار کی توہین ہے ۔ لیکن اس بار انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ خود ان کے معیارکے لحاظ سے بھی شاق پہنچانے والا ہے۔
نازی اور تاریخ کے بعض جنبوی قاتلوں نے بھی بعض چیزوں کا احترام کیا ہے ۔ انہوں نے امن کا قیام عمل میں لانے والے عالمی اداروں صلیب احمر اور راحت پہنچانے والی ایجنسیوں کا لحاظ کیا ہے مگر جہاں تک اسرائیل کی حکومت کا تعلق ہے اس کے لئے کوئی رکاوٹ اور کسی چیز کا لحاظ نہیں پایاجاتا ۔ اسرائیل کے لئے کوئی چیز قابل احترام یا مقدس نہیں ہے ۔، اسرائیل نے اپنے رفیق ، ساتھی، محافظ امریکہ کے بحری جنگی جہاز یو ایس ایس پر حملہ کر کے کئی امریکی سپاہیوں کو ہلاک کردیا تھا ۔ اس کے بعد اس نے غزہ کو ریلیف کا سامان لے جانے والے چھوٹے غیر جنگی بحری جہاز پر حملہ کر کے 19جہد کاروں کو قتل کردیا ۔ ان میں سے بہت سوں کا تعلق اسرائیل کے اتحادی ملک ترکی سے تھا ۔ اسرائیل مرضی کے مطابق جب چاہتا ہے کسی کا بھی قتل کردیتا ہے ۔ کسی بھی چیز کو تباہ وبرباد کردیتا ہے ۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ قتل اور تباہی مچا کر صاف بچ جاتا ہے جیسا کہ اس نے2010میں دوبئی میں کیا تھا۔ حماس کے ایک کمانڈر کو ہلاک کرنے کے لئے اس کے ایجنٹوں نے ایک دوست ملک کی شناختی دستاویز حاصل کی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کب تک چلتا رہے گا ۔ کب عالمی برادری اور اسرائیل کے محافظوں کے لئے ’’بہت کچھ ہوچکا اب بس کرو‘‘ کا وقت آئے گا۔ کب ایک نیو یارک کے شہر سے بھی کم آبادی والا ننہا منا ملک ساری دنیا کو غلام بناکر رہے گا؟ غزہ پر اندھا دھند حملوں کا یہ سلسلہ ایک اور ثبوت ہے اس بات کا کہ اسرائیل واضح طور پر ہماری دنیا کے امن اور استحکام کے موجودہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سوال فلسطینیوں کے حقوق یا ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی مظلومیت کا نہیں ہے ۔ یہ ہم سب کی دنیا کے مستقبل کا سوال ہے ۔ اسرائیل نہ صرف مشرق وسطیٰ کے لئے ایک بدبودار، سڑا ہوا کھلا زخم بن چکا ہے بلکہ ساری مہذب دنیا کے لئے ایک خطرہ ہے ۔
اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کو اسرائیل سے بچایاجائے اور خود اسے اس کی تباہ کن ذات سے محفوظ رکھا جائے۔ عالمی رائے کی لہر کا رخ اب اسرائیل کے خلاف ہوگیا ہے۔ اور وقفہ وقفہ سے احتجاج کے ذریعہ اس کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ یہ ضمیر کی آوازیں ایک دن عالمی متحدہ آوازوں میں تبدیل ہوجائے گی جس سے لاتعلقی اور سرد مہری کی دیواریں ٹوٹ کر بکھر جائیں گی جو مغربی دنیا کو گھیرے میں رکھی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے مغرب کو7دہائیوں سے ا پنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والے لوگوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی کشمکش نظر نہیں آتی ہے ۔
امریکی صدر بارک اوباما اور ان کے امریکی ساتھیوں کو یہ طئے کرنا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ کیا وہ انصاف ، آزادی اور انفرادی حقوق کے طرفدار ہیں؟ یا پھر وہ اسرائیل کے طرفدار ہیں ۔ چاہے اسرائیل سینکڑوں معصوم لوگوں کا قتل کرتے رہے اور کسی بھی قسم کی درندگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ یہ اس کے ساتھ ہیں۔ اوباما جس امن و آشتی کے تصور پر یقین رکھتے ہیں کیا کبھی ایک بار بھی انہوں نے اس کی مدافعت کی؟ حالانکہ انہوں نے اس کا دعویٰ کرکے امن کا نوبل انعام حاصل کیا تھا ۔ یا پھر وہ اسرائیل کی لَے پر ناچنے والے وہائٹ ہاؤس کے ایک اورWIMPثابت ہوں گے ۔ وہ جو کچھ بھی کریں، انہیں امریکی مورخ ایڈمنڈبرک کے اس انتباہ کو یاد رکھنا ہوگا کہ’’ہر برائی کی کامیابی میں، اچھے لوگوں کی نااہلی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے کا دخل ہوا کرتا ہے۔‘‘

***
aijazzakasyed[@]gmail.com
مدیر اعلیٰ "کاروان ڈیلی" آن لائن
اعجاز ذکا سید

Gaza and the Great Wall of Silence. Article: Aijaz Zaka Syed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں