روزہ اور تربیت نفس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-09

روزہ اور تربیت نفس

ramadan fasting
روزہ کے مقاصد اور حکمتیں:
قرآن مجید سے یہ واضح ہوتا ہے کہ روزے کے تین بنیادی مقاصد ہیں(۱) تقوی یعنی خوف خدا رکھنا(۲) اللہ کی ہدایت پر اس کی عظمت کا اظہار(۳) اللہ کی نعمت پر اس کا شکر یہ ادا کرنا۔ ارشاد ربانی ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔(القرآن2، آیت185) تمام حلال چیزیں اپنے رب کے حکم سے چھوڑ دیں تو اب جو حرام ہیں ان کو بھی ترک کردو اور سالکے باقی گیارہ مہینے بھی اللہ سے ڈر کے رہو اور روزہ کے دنوں کی طرح پوری زندگی گزارو۔ روزہ کے دوسرے مقصد کا ذکر قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے : قرآن پاک کو رمضان سے اور رمضان المبارک کو قرآن سے ایک خصوصی مناسبت اور گہرا تعلق ہے ۔ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں انسانی ہدایت کے لئے قرآن کانزول ہوا ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے : رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اس میں فیصلہ کی روشن باتیں ہیں۔ حضور اکرم ﷺ رمضان میں تلاوت کا خصوصی اہتمام فرماتے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رمضان کی ہر رات میں حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آتے اور قرآن مجید کا ورد کرتے۔ روزہ کا تیسر ا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ کے حضور گڑ گڑا کر اپنی خطاؤں سے معافی طلب کرے ، خوف خدا اس کے دل میں بس جائے ۔
ماہ رمضان قبولیت دعا کا حسین وقت ہے ۔ اس ماہ میں دعاؤں کی کثرت کیجئے۔ پیارے آقا نے ارشاد فرمایا کہ خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادتیں چھوڑ دو او رروزہ رکھنے والوں کی دعاؤں پر آمین کہو ۔ کتنی بڑی نعمت کا اعلان اس حدیث پاک سے معلوم ہوا۔ قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے ۔ خدا کی رحمت بہت وسیع ہے کسی کے گناہکتنے ہی زیادہ ہوں بندہ جب اللہ کی بارگاہ میں شرمسار ہوکر گڑ گڑا تا ہے تو مولائے رحیم اسے اپنے دامن عفو میں چھپالیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوْا الَیْہِ۔ اِنَّ رَبِّی رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ۔
ترجمہ: اپنے پروردگار سے مغفرت چاہو اور اس کی طرف پلٹ جاؤ ۔ یقیناًمیرا رب بڑا ہی رحم فرمانے والا اور محبت فرمانے والا ہے۔(القرآن، سورہ ہود ، آیت۹)

روزہ کی اصل روح:
روزے کے شرعی مقاصد میں یہ بات داخل ہے کہ انسان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں رکھ کر اسے صبر وتحمل کا عادی بنایا جائے ۔ کوئی آپ کی تحقیر و تذلیل کرے تو آپ صبرو تحمل سے کام لے کر نظرانداز کردیجئے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : تم میں سے جب کوئی روزے سے ہو تو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شوروہنگامہ کرے اور اگر کوئی اسے گالم گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں ، میں کیسے گالم گلوچ اور لڑائی کرسکتا ہوں۔(بخاری) روزہ رکھ کر اپنے اندر اخلاق و کردار کی تعمیر کرے ۔ آدمی وہ کام کرے جس سے اخلاق سدھریں۔ جذبات و خواہشات پر قابو رکھے ، خوف خدا کے ساتھ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرے جو اصل روزے کی روح ہے ۔ اسی لئے حدیثپاک میں فرمایا گیا کہ روزہ رکھنا ، کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ روزہ دار لغو اور برے کاموں سے بھی اجتناب کرے ۔(الننس الکبری البیہقی،ج4،ص:270)تقوی پر عمل کی قبولیت کا مدار ہے ۔ قرآن کریم میں ہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ
ترجمہ: اللہ متقیوں کا ہی عمل قبول فرماتا ہے ۔(القرآن، سورہ المائدہ،آیت27)
تقویٰ (خوف خدا) بہت ہی اونچی اور اعلیٰ صفت ہے ۔ بلکہ تمام خوبیوں کی روح تقویٰ ہے۔ جس کویہ اعلی ترین صفت میسر ہے اس کے لئے دنیا وآخرت کی بے شمار نعمتوں کی خوشخبری سنائی دگئی ہے ۔ قرآن کریم میں ہے:
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْم۔
ترجمہ: بے شک متقیوں کے لئے ان کے رب کے یہاں نعمتوں سے لبریز جنتیں ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ان سے دنیا میں بھی آسمان و زمین کی برکتوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔
وَلوَ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰی آمَنُوْا والتَّقَوا لَفَتَحْنَا عَلَیھِمْ بَرَکٰتِ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ۔
ترجمہ: اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر زمین و آسمان کی برکتوں کے دروزے کھول دیتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تقویٰ کا حکم فرمایا اور اس امت سے پہلے لوگوں کو بھی تاکید فرمائی۔ ارشاد باری ہے:
وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَاِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُواللّٰہ۔
ترجمہ: یقیناًجنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی انہیں اور تم کو ہم نے تاکید فرمادی ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
یقیناًاللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے۔
خوف خدا رکھنے والوں کو اللہ تعالی جنت کے باغات میں داخل فرمائے گا۔
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنَّاتٍ وُّعُیُوْنٍ۔
ترجمہ: یقیناًاللہ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔
اللہ نے تقویٰ کا کثیر آیات مبارکہ میں ذکر فرمایا ہے، جو اس کی فضیلت وشرف کی دلیل ہے ۔ اس دنیا اور آخرت میں فضیلت و کامیابی کا معیار تقویٰ کوبنایا ۔کسی خاندان میں پیدا ہونا ، کسی ملک کا باشندہ ہونا اور خوبصورت ہونا ان چیزوں کو اسلام نے وجہ افتخار نہیں قرار دیا ۔ حضرت عبداللہ بن مسعوؓ فرماتے ہیں:
وتقواللہ حق تقاتہ
اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔
اور اس سے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے، نافرمانی سے بچا جائے ، اس کا ذکر کیاجائے، اس کو بھلایانہ جائے اور اس کا شکر ادا کیاجائے ، ناشکری نہ کی جائے ۔ یہی بنیادی مقصد روزوں کا ہے کہ بندہ اللہ سے خوف رکھے اور اسی خوف کی بنیاد پر تمام دنیاوی معاملات و عبادات پر عمل پیرا ہو۔

Fasting and Self training

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں