یا شہر الصیام - اہلاً و سہلاً - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-28

یا شہر الصیام - اہلاً و سہلاً

welcome-ramadhan
رمضان المبارک کی فضیلت کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ آغاز رمضان کے ساتھ ہی جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ۔ دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کردیاجاتا ہے ۔ یہ سب رحمت کی علامتیں ہیں ۔ رمضان المبارک میں روزہ جیسی عبادت کو فرض کیا گیا ہے ۔ روزہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
یا ایھا الذین آمنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔(البقرہ)

اس آیت کریمہ میں یہی ارشاد ہے کہ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔ اس میں تین چیزوں کا ذکر کیا گیا ۔ ایک روزوں کی فرضیت کا ، دوسرے امم سابقہ میں بھی روزے فرض ہونے کا، تیسرے روزوں کی فرضیت کی حکمت کہ یہ تم میں تقویٰ پیدا کرنے کے لئے ہیں ۔
سابقہ امتوں پر فرضیت کا ذکر کئے جانے کی مصلحت یہ ہے کہ مسلمانو! اس عبادت کو مشقت یا مصیبت نہ سمجھو یہ کوئی ناقابل عمل نہیں بلکہ قابل عمل عبادت ہے ۔ تم سے پہلے والے اس پر عمل کرچکے ۔ تم کو بھی اس پر عمل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے ۔
تیسری بات جو ذکر کی گئی کہ اس سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس امارہ خواہشات نفس کھانے پینے وغیرہ سے قوت پاتا ہے اور انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگر انسان غذا بند کردے تو اس کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور وہ کمزور ہوجاتا ہے۔ اس طرح تراویح اور تہجد وغیرہ کی دیگر ریاضتیں اور محنتیں بھی اس کو کمزور کردیتی ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجاتا ہے ۔ اور نفس مطمئنہ میں شامل ہوجاتا ہے ۔ خواہشات نفس کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے ۔
اس لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایسا شخص جو نکاح پر قدرت نہیں رکھتا اس کو چاہئے کہ روزے رکھے ۔ کیونکہ روزہ کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کے اندیشے ختم ہوجاتے ہیں ۔ اور روزہ اس کے لئے حفاظت کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ حضور پاک ﷺ نے اپنی امت کے لئے فرض روزوں کے علاوہ مسنون اور نفل روزے بھی ارشاد فرمائے ہیں ۔ اس کی حکمت بھی یہی بتلائی گئی کہ امت ، تقویٰ کا راستہ اختیار کرے اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے ۔ اللہ تعالیٰ نے بدنی اور مالی دو طرح کی عبادتوں کو اپنے بندوں پر واجب فرمایا ہے ۔ نماز و روزہ بدن سے تعلق رکھنے والی عبادات ہیں، زکوۃ مالی عبادت ہے ۔ حج کا تعلق بدن اور مال دونوں سے ہے ۔ بدنی عبادات میں امیر و غریب سب شریک ہیں کیونکہ یہ عبادتیں بدن کی صحت و قوت پر موقوف ہیں ۔ بدن کی قوت و صحت کسی کے ساتھ خاص نہیں۔ امیر و غریب سب اس میں مشترک ہیں ۔ اس لئے یہ عبادتیں یعنی نماز و روزہ ہر ایک پر فرض ہیں ۔
بدن کے دو حصہ ہیں ۔ ایک ظاہری حصہ دوسرا باطنی حصہ۔ نماز کا تعلق ظاہری جسم سے ہے۔ یعنی نماز کی ادائی کا طریقہ قرات، قیام، رکوع، سجدہ قعدہ وغیرہ ظاہری جسم سے ادا کئے جاتے ہیں۔ اگرچیکہ اللہ کے ساتھ قلبی تعلق لازم ہے۔ چونکہ ظاہری اعضاء سے ارکان نماز ادا کئے جاتے ہیں ۔ اس لئے اس کو ظاہری جسم سے منسوب کیاجاتا ہے ۔
روزہ کا تعلق باطنی جسم سے ہے ۔ اس میں نہ قیام ہے نہ قرات ، اور نہ رکوع و سجدہ وغیرہ،۔ نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکے رہنا روزہ کہلاتا ہے ۔ روزہ کے فضائل اور فوائد بے شمار ہیں ۔
روزے کے فضیلت کے لئے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد کافی ہے کہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ کا نام ’’ریان‘‘ ہے اوراس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ۔، اس ارشاد پاک کا مطلب یہ بیان کیا گیا کہ دیگر دروازوں سے داخل ہونے والے جنتیوں کی شناخت اس اعتبار سے نہ ہوگی کہ وہ کس بناء پر جنت میں جارہے ہیں لیکن ریان سے داخل ہونے والوں کی شناخت سارے لوگوں میں اس اعتبار سے ہوگی کہ یہ لوگ روزہ کی وجہ سے جنت کے مستحق بنے اور اسی کی وجہ سے جنت میں داخل ہورہے ہیں ۔
ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے :
الصوم لی انا اجزی بہ
یعنی روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
ماہ رمضان کا اصل استقبال عبادت و ریاضت اور تقویٰ و پرہیز گاری کے ذڑیعہ کیاجانا چاہئے یہی مطلوب بھی ہے ۔ استقبال رمضان کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو عبادات کے لئے تیار کریں ۔ مستعد ہوجائیں ، عبادات میں ابھی سے کثرت کریں ، اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے رہیں، خیر کی طرف ہمیشہ مائل رہیں، غریبوں ، یتیموں ، لاچاروں اور مجبوروں کی امداد کے لئے آگے بڑھیں ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں حتی المقدور کوشش کریں، پورے مہینہ روزے رکھیں ۔ اور تراویح کا اہتمام کریں ۔ یہ نہیں کہ دس دن میں قرآن سن لیں اور اس کے بعد اپ نے آپ کو تراویح سے آزاد سمجھ لیں ، یہ ہرگز جائز نہیں ۔ تراویح ماہ رمضان کی ہر رات میں سنت موکدہ ہے اس کا چھوڑنا گناہ ہے ۔
اسی طرح ذکر و تلاوت اور استغفار کی کثرت کیاکریں ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس قوم پر بھی عذاب نازل نہیں فرماتا جو قوم اپنے گناہوں پر توبہ کرتی ہے اور نادم ہوتی ہے۔
استقبال رمضان میں ہم کو چاہئے کہ سنتوں کو پیش نظر رکھیں اور ان کے مطابق عمل کریں ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں