اردو ادب کا ارتقا اور فلسفہ و دین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-19

اردو ادب کا ارتقا اور فلسفہ و دین

deen-o-adab
شجر ادب کی جڑیں فلسفہ اور دین سے جڑی ہوئی ہیں اور اسکا نمودار ہونا کاغذ و قلم کا رہین منت رہا۔ فلسفہ ازل سے جستجو، قیل و قال، افہام و تفہیم کا مظہر رہا اور دین کا تعلق عقیدہ، روحانیت، اخلاقیات و اصلاحات سے رہا۔ ادب نہ صرف یہ کہ تہذیب و تمدن کا آئینہ دار رہا بلکہ تہذیب و تمدن پراثر انداز ہونے کا ذمہ دار بھی، اور آئینہ داری کی بہ نسبت یہ ذمہ داری زیادہ اہمیت کی حامل رہی۔

انسان اپنے ماحول سے متاثر ہوکر اپنے افکار، مطالعہ، وجدان اور طرز بیان سے ادب تخلیق کرتا رہا۔ شجر ادب کی آبیاری میں کبھی فلسفہ کی خشک و معتدل آب و ہوا کا استعمال کرتا رہا تو کبھی شاعری کے فرحت بخش جھونکوں سے اس میں پھول کھلاتا رہا اور یاسیت، رجائیت، غنائیت اور جمالیات کے رنگ بھرتا رہا۔ کبھی تشکیک و لادینیت اور فحاشی کا تیزاب بھی اسکی جڑوں میں ڈالا گیا تو کبھی دین کے آب زم زم سے اسے سیراب بھی کیا گیا ۔ کبھی تنقید و تبصرہ کے بیج بو کراصلاح کے پودے اگائے گئے تو کبھی شر و فساد کے کانٹے۔ الغرض جیسا خیرو شر کا تناسب رہا ویسا ہی ادب کے چمن میں خزاں یا بہار کا دور دورہ رہا۔ اردو ادب بھی خیر و شر سے مبرا نہیں رہا، لیکن ایک طرف وہ شر سے مکدر ہوتا رہا تو دوسری طرف دین و فلسفہ ملکر اسے مصفا، معزز اور مفخر بھی کرتے رہے۔

اس سے پہلے کہ اردو ادب کی ابتدا اور ارتقا پر روشنی ڈالی جائے اور یہ سمجھا جائے کہ اردو ادب کی ارتقا میں فلسفہ و دین کا کیا کردار رہا، یہ جاننا ضروری ہے کہ فلسفہ و دین اور ادب کے روابط کی ابتدا کیا ہے۔

فلسفہ کی بنیاد چار پانچ سو ق-م کے دوران یونان میں رکھی گئی تھی اور اس کے پیش رووں میں سقراط، افلاطون، ارسطو اور ما بعد فیلو اور پلو ٹینس جیسے فلاسفہ کے نام شامل ہیں۔ انکے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز کی کوئی نہ کوئی علّت یا سبب ضرور ہے، اور انسانی عقل علّت و معلول کی زلف پیچاں سنوارنے کی مجاز بھی ہے۔ یہیں سے عقل کی اپنی علّت بھی ثابت ہوتی ہے۔ کائنات کی بے شمار اعلی و ادنی اشیا کے منطقی استدلال سےگزر کر بالآخر عقل کی تخلیق کا تعلق خالق حقیقی سے جا ملتا ہے اور اسکا وجود مسلم اور اسکی وحدانیت کا اقرار ناگزیر ہوجاتا ہے۔ فلسفہ گرچہ روحانیت کا قائل نہیں لیکن خالق حقیقی کے وجود کے متعلق ان فلاسفہ کا کم و بیش یہ نظریہ رہا کہ؛ انسانی عقل اس بات سے قاصر ہے کہ وہ خالق حقیقی کے وجود کا احاطہ کر سکے، سمجھے اور سمجھائے کہ وہ کیا ہے اور کیسا ہے، لیکن عقل یہ ثابت کرنے پر قادر ضرور ہے کہ وہ کیا کیا اور کیوں نہیں ہو سکتا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وحدانیت کا یہ تصور ان فلاسفہ کا ہے جو یونان کے دیو مالائی معاشرہ کے پروردہ تھے۔ تقریبا یہی وہ دور تھا جب حضرت موسی کی بعثت ہوئی اور تورات نے فلسفہ کو روحانیت سے متعارف کرایا اور یہیں سے فلسفہ اور دین ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوئے۔ اس سے قبل عام انسانی عقل نہ ہی فلسفہ کے قیل و قال کو سمجھنے کی مجاز تھی اور نہ ہی فلسفہ و روحانیت کے راوبط کو، اسی لئے اکثر و بیشتر قدیم دینی فلسفے صرف عقائد کے اصولوں پر مشتمل تھے اور اس کا ثبوت مختلف دینی کتابوں کے مطالعہ سے ملتا ہے۔ حضرت موسی کے بعد حضرت عیسی اور انکے حواریوں نے بھی تورات کے دینی فلسفہ کو ہی اپنی قوم کے سامنے پیش کیا ۔ انکے بعد تقریبا پانچ چھ سوسال تک مختلف متکلمین اور فلاسفہ کا دور دورہ رہا اور تورات کے دینی فلسفہ میں رد و بدل کا عمل جاری رہا۔

انسانی عقل پھر قیل و قال اور افہام و تفہیم میں مبتلا ہوگئی ۔ مختلف تہذیبی مراحل سے گزر کر انسانی عقل اب اس قیل و قال اور افہام و تفہیم کے کرب سے نجات پانا چاہتی تھی، فلسفہ و دین کی اہمیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی مجاز بھی ہوگئی تھی اور فلسفہ حیات کے مکمل عملی نفاذ کی متقاضی بھی ۔ یہی وہ وقت تھا جب حضرت محمّد ص کی بعثت ہوئی اور قرآن مجید کا نزول ہوا۔ فلسفہ و دین کی جامع تشریح کر دی گئی اور عقلیت اور روحانیت کے ہر ایک پہلو کو اجاگر کر کے اسے انسانی عقل سے متعارف کرا دیا گیا۔ پہلی بار فلسفہ حیات کا ایک کامیاب "پروٹو ٹائپ" حضرت محمّدص کی وساطت پیش کر دیا گیا اور بار دیگر خلفہ راشدین کے ذریعے اسے نافذ کر کے دنیا کے سامنے مثال بھی قائم کردی گئی۔ فلسفہ حیات کے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جوابات بھی دے دئے گئے اور آنے والی صدیوں میں انسانی عقل میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی۔ فلسفہ، دین اور ادب کی اساس ابدالآباد کے لئے قائم کر دی گئی۔ اخلاقیات اور حقوق و فرائض کی حدیں بھی مقرر کر دی گئیں اور اسی کے ساتھ آزادی افکار کی چھوٹ بھی دے دی گئی۔ چونکہ اخلاقیات و عقائد عقل میں راسخ ہو چکے تھے اسلیے کبھی کسی قانونی "سینسر شپ" کی اس دور میں ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ فلسفہ و دین کے ساتھ ساتھ ادب کی بھی آبیاری کی گئی اور شاعری اور نثر کے بے شمار گل بوٹے تخلیق کیےگئے۔ فصاحت و بلاغت و سلاست کو کمال حاصل ہوا جسکا اثر آنے والی صدیوں تک مختلف علم و ادب اور تہذیب وتمدّن میں رونما ہوتا رہا ۔

انسانی تہذیب مختلف عروج و زوال سے گزرتی رہی اور انسانی عقل پھر افہام و تفہیم میں الجھ کر فلسفہ و دین و ادب میں تغیرات پیدا کرتی رہی۔ گیارہویں صدی میں دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف زبانیں تشکیل کے مراحل طے کر رہی تھیں اور یہی وہ دور تھا جب اردو بولی جو ہندوستانی یا ہنداوی کہلاتی تھی، ہندوستان میں نمودار ہوئی۔ دو سو سال تک لسانی تشکیل کے دور سے گزرکر سن بارہ سو کے اواخر میں اردو نے عربی و فارسی رسم الخط سے مزین لباس فاخرانہ زیب تن کرلیا۔ یہیں سےاردو زبان و ادب کی ابتدا ہوئی۔

کہتے ہیں ایک معیاری زبان کی تشکیل کے ساتھ اسکا ادب بھی تشکیل پاتا ہے اور یہی اردو کے ساتھ بھی ہوا۔ گیارہویں اور بارہویں صدی کے فارسی و عربی مورخوں، عالموں اور ادیبوں کی تصانیف اور کلام سے اردو زبان کی موجودگی ثابت ہے کہ وہ ہندوستانی یا ہنداوی کہلاتی تھی اور عوام میں خاصکر بازار اور لشکر میں بولی جاتی تھی۔ ہندوستان میں غوری، غلامان، خلجی اور تغلقی سلطنتوں کے لشکروں میں عربی اور فارسی زبان بولنے والوں کے ساتھ پراکرتی زبانیں بولنے والے بھی شامل تھے اور انکی آپسی گفتگو سے تدریجا ایک نئی بولی کا ظہور میں آنا بعید از قیاس نہیں۔ اردو یا ہندوستانی مختلف پراکرتی بولیوں جیسے شورسینی، اپ بھرنش، پنجابی، ہریانی اور قدیم زبانوں جیسے سنسکرت، فارسی اور عربی کی آمیزش سے بنی تھی اور کھڑی بولی کہلاتی تھی۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ مختلف پراکرتی بولیاں اپنے اندر وہ جوہر نہیں رکھتی ہونگی کہ زبان و ادب کے تشکیلی مراحل طے کر سکے، تہذیب و تمدن کے بہتے دھارے کا ساتھ دے سکے اور انھیں اپنے اندر جذب کرسکے، اپنے وقت میں موجود قدیم زبان و ادب کے ذخائر سے افادہ کر سکے اور انکے سامنے اپنا وجود بھی قائم رکھ سکے۔ اس لئے وہ ساری بولیاں وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی چلی گئیں اوراردو اپنے ارتقائی مراحل کی طرف گامزن رہی۔ اردو یا ہندوستانی بولی کو زبان و ادب کے مقام تک لے جانے میں، فقیروں، صوفیوں اور سنتوں کے اقوال، کلام اور دوہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ اقوال اور کلام فلسفہ، دین اور روحانی افکار پر مشتمل ہوتے تھے اور نیکی، صلح و آشتی، خالق حقیقی سے محبت اور انسانی مساوات کے جذبوں سے معمور ہوا کرتے تھے۔

اردو ادب میں شاعری کی ابتدا تیرہویں صدی میں امیر خسرو کے کلام سے ثابت ہے لیکن بعض مورخوں اور خود امیر خسرو کے مطابق تقریبا سن ایک ہزار ستر میں لاہور کے رہنے والے خواجہ مسعود کا اردو میں لکھا ہوا مجموعہ کلام پایاگیا ہے۔ اردو ادب میں نثر کی ابتدا حضرت بابا فرید شکرگنج کے صوفیانہ اقوال و کلام اور حضرت بندہ نواز گیسو دراز کی تصانیف سے ثابت ہے۔ حضرت کی معراج العاشقین اردو نثر کی پہلی تصنیف قرار پائی جو تقریبا چودھویں صدی کے اواخر میں لکھی گئی اور جودینیات اور صوفیانہ علوم کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے بعد بھی اگلے دو سو سالوں تک اسی خانوادے میں جید علما اور ادبا نے اعلی اور معیاری تصانیف تخلیق کرنے کا دور جاری رکھا۔ اردو ادب شاعری، اقوال اور دوہوں کی آغوش میں پروان چڑھتا رہا۔ جائسی، تلسی اور کبیر کے دوہے جو کھڑی بولی میں کہےگئے تھے مبسوط اردو ادب کی عکاسی کرتے رہے۔ اس طرح اردو ادب کا یہ ابتدائی دور دین و فلسفہ اور روحانی علوم کے نور سے منور رہا۔

اردو ادب کا آیندہ دو سو سالہ عروج، پندرہویں صدی سے سترہویں صدی تک، دکنی سلطنتوں کا رہین منت رہا۔ جہاں بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتوں میں اردو ادب کو نئی بلندیاں حاصل ہوئیں ۔ اس دور کے اردو ادب کی خاصیت یہ رہی کہ یہ فارسی اور عربی زبان و ادب اور تہذیب و تمدن کے اثر سے آزاد ہوکر مقامی تہذیب و تمدن کے زیر اثر تشکیل پاتاگیااور اس کی ترقی میں خود بادشاہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اردو شاعری اور نثری ادب کے اہم ناموں میں قلی، وجہی، غواصی، ولی، بحری، سراج، عاجز اور حاتم جیسے شعرا اور ادبا شامل ہیں۔ سترہویں صدی تک اردو ادب میں شاعری کا بول بالا رہا۔ وقتا فوقتا اعلی و معیاری نثری تخلیق بھی ہوتی رہی ۔ وجہی کی فلسفہ، اخلاقیات، حسن و عشق اور قلب و نظر کی تمثیلات سے معمور تصنیف "سب رس" اسی دور کی تخلیق ہے۔ اردو ادب جسکی اساس اسلامی تہذیب و تمدن پر قائم تھی اس پر ہندوستان کی مختلف تہذیبوں کی آمیزش کا اثر ضرور ہوتا رہا لیکن اردو ادب نے خود تہذیب و تمدن پر بھی اپنا اثر قائم کیا ۔ سن سولہ سو تک اردو ادب میں خاصکر شاعری میں حسن و عشق، ہجر و وصال، عاشق و محبوب کے قصوں سے مزین مختلف موضوعات پر خیال آرائی کی گئی لیکن کبھی کہیں تشکیک، لادینیت، فحاشی کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا اور دین کی پاسداری کا احساس بدرجہ اتم موجود رہا۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اردو زبان و ادب مکمل طور سے عوام و خواص میں مقبول ہوچکاتھا۔ دلی، اودھ اور دکن اردو ادب کے تین مراکز قرار تھے۔ اردو شاعری و نثری ادب اپنے دور شباب سےگزر رہا تھا جہاں شاعری میں نظم، مثنوی، مرثیہ، غزل اور قصیدہ نے اردو ادب کو نئی بلندیاں عطا کیں ونہیں نثر نگاری نے داستان، کہانی، تاریخ، سوانح، مکتوبات اور دیگر اصناف سے اردو ادب کے عہد زریں کی ابتدا کی۔ یہی وہ دور تھا جب درد، سودا۔، میر، آتش، ناصح، مومن، ذوق و غالب نے غزل کو نئے افکار و اسلوب سے سجایا۔ عربی و فارسی ادب سے مختلف موضوعات اخذ کیے گیے۔ غزل کے اسلوب میں صفاتی، تعریفی، تمثیلی پہلووں کو متعارف کرایا گیا ۔ دور فراغت و بے فکری میں جہاں جام و بادہ، حسن و عشق، گل و بلبل، عاشق و معشوق، ہجر و فراق، کافر و مومن، لیل و نہار اور ایسے ہی ہزاروں لفظوں کو تشبیہات و استعارات میں ڈھال کر اور مختلف صنائع و بدائع کا استعمال کرغزل کو ہمہ جہتی عطا کی گئی ونہیں معاشی بدحالی اور سماجی و سیاسی افراتفری کے دور میں یاسیت، غنایت، رجائیت، درد و الم، طنز و مزاح کے مختلف موضوعات اور اصطلاحات کو نئی نئی تعبیریں عطا کی گئیں۔ الغرض دنیائے ادب میں غزل کو ایک صاحب ثروت صنف سخن کے مقام تک لے جایا گیا۔ جمالیات کا تذکرہ کیا گیا تو کچھ یوں کہ حسن و جمال اور عیش و نشاط کو ہزاروں معنی عطا کر دیے گئے۔ عریانی کو کچھ یوں بے پردہ کیا گیا کہ پردہ داری کے نئے اصول وضع کیے گئے۔ دین کی پاسداری کو ملحوظ رکھ کرانکار و تکرار اور کفرو ایمان کا بیان کیا گیا۔ عشق حقیقی و مجازی کو خلط ملط بھی کیا گیا لیکن ایک حد فاضل قائم رکھی گئی اور ارتداد و شرک سے خود کو پاک رکھا گیا۔ تنقید نگاری کی گئی تو خود نقادی کو ملحوظ رکھا گیا۔ ہجو لکھی گئی تو احترام و تکریم کو نئے پیرائے عطا کیے گیے۔ مدح کی گئی تو آسمان و زمین کے قلابے ملا دیے گئے اور مذمت کی گئی تو تحت الثری کا منظر پیش کر دیا گیا۔ بہ یک وقت موضوعات، لفظیات، اسالیب، کثیر الجہات تعبیرات سے غزل کو اردو ادب میں بلکہ عالمی ادب میں انفرادیت عطا کردی گئی اور جو ہمیشہ قائم رہی۔

اس دور کے ادبا و شعرائے کرام دینی و صوفیانہ ماحول کے پروردہ تھے اور جن کی تربیت فارسی و عربی علم و ادب سے ہوئی تھی اس لئے اول اول اردو ادب میں فلسفہ، روحانیت اور دین کو مقدم رکھاگیا لیکن عیش و نشاط کے ماحول اور مختلف تہذیبوں کی آمیزش نے افکارات کو مکدر کرنا شروع کر دیا۔ جسکا عکس اردو ادب اور خاصکر شاعری میں نظر آنے لگا اور بالآخر معاشرہ کے اجتماعی افکار اور مزاج پر بھی یہ اثر قائم رہا۔ اسکے بعد طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا اور نواب شاہی اور جاگیر داروں کی نااہلی اور انگریزوں کی شر انگیزیوں سے ملک کے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ اس کا اثر وسیع پیمانہ پر عام انسانی عقل کے علاوہ ادبا و شعرا اور ادب پر بھی رقم ہوتا گیا۔ نصیحت، زہد و تقوی اور اخلاقی پابندیوں سے انحراف خواص کا شیوہ بنتا گیا۔ زاہد، ناصح، شیخ، واعظ اور ملّا جیسے کرداروں کو طنز و مزاح اور تنقید کے پیرائے میں شاعری میں متعارف کرایا گیا اور ان کا استعمال بطور اخلاقی پابندیوں سے بغاوت اور دین بیزاری کے اظہار خیال کے لئے کیا جاتا رہا۔ ملک میں فکری، اخلاقی، معاشی اور سیاسی انحطاط کا دور جاری ہوا۔ پھر اٹھارویں صدی کے اختتام پر اردو ادب کو مصفا کیا گیا اور اردو ادب بحر نور میں نہلایا گیا جب حضرت شاہ رفیع الدین اور حضرت شاہ عبدالقادر نے بالترتیب قرآن مجید کا اردو ترجمہ تحریر فرمایا۔

انیسویں صدی کی شروعات جہاں اردو ادب کے عروج کی داستان لئے تھی ونہیں ملکی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی بدحالی کی المناک تصویر بھی پیش کر رہی تھی۔ اسی دور میں اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کا درجہ دیاگیا اور فی الحقیقت سارا دفتری کام کاج اردو زبان میں کیا جاتا رہا۔ صدی کے وسط میں غدر کا واقعہ رونما ہوا اور اسکے اختتام کے ساتھ ہی حکومت برطانیہ کا راج قانونی طور پر نافذ ہوا۔ انگریزی حکومت نے مصلحتا یا ضرورتا اردو زبان و ادب کی ترویج و تشکیل میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں مختلف شعبے قائم کئے اور اردو نثری ادب کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا ۔ بے شمار غیر اردو تصانیف کے ترجمے اردو ادب میں شامل کیے گئے۔ مختلف تصانیف و تالیف اوراردو کی قواعد تخلیق کی گئیں۔ دلی کالج میں نہ صرف یہ کہ تعلیم کا سارا نصاب اردو میں تھا بلکہ اردو ادب میں کئی تصانیف اور تراجم اسی کالج کے اردو ترقی کے شعبہ کی نگرانی میں کیے گئے۔

انیسویں صدی کا اختتام اور بیسویں صدی کی ابتدا کا دور اردو ادب کے نشاہ ثانیہ کا دور رہا۔ تحریک آزادی کا دور دورہ تھا اور اردو تعلیم کے مختلف مراکز اور داراللاشاعت کی بنیاد ڈالی جا چکی تھی۔ تہذیب و تمدن میں تغیرات رونما ہو رہے تھے۔ عالمی، سیاسی اور معاشی حالات کروٹ بدل رہے تھے۔ ایسے میں اردو ادب نے سینکڑوں درخشاں شعرا و ادبا پیدا کیے جنہوں نے اردو شاعری اور نثر کو معراج عطا کی۔ ہزاروں علمائے دین پیدا ہوئے جنہوں نے اردو ادب کو فلسفہ و دین کے علوم سے منور کردیا۔ سرسید، حالی، شبلی، آزاد، اکبر، سرشار، بنکم چند، نذیر، شرر،، جوہر، کلام، نظامی،آرزو، محروم، برق، شاد، حسرت، داغ، جگر، اقبال اور انکے علاوہ ایک طویل فہرست ہے جس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، جنہوں نے اردو ادب میں شاعری، نثر، نقد، ناول، صحافت، فلسفہ، تاریخ، سوانح، تراجم، رسائل، جرائد، مضامین، مکتوبات اور تعلیمی نصاب، الغرض ہرایک شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دئے اور اردو ادب کی تاریخ میں سنہرے ابواب کا اضافہ کیا۔ ان معتبر ناموں کے علاوہ علمائے دین کی ایک طویل فہرست ہے جسے رقم کرنے میں احترام و عقیدت مانع ہے اور جنکی معرکتہ لآرا تصانیف کے بغیر اردو ادب کی تاریخ غیر مکمل اور غیر معتبر رہتی ہے، نہ ہی انکے نام کسی تعریف کے محتاج ہیں اور نہ ہی ان علما کے کار ہائے نمایاں۔

بیسویں صدی کے اول نصف تک اردو ادب کا شمار عالمی ادب میں کیا جانے لگا ۔ یہی وہ دور تھا جب اردو زبان و ادب نے دیگر زبان و ادب کے مقابلے اپنا لوہا منوایا۔ شش جہت سے اردو ادب میں ترقی ہورہی تھی۔ ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور انہیں کی شر انگیزیوں سے تقسیم بھی ہوگیا۔ اردو زبان و ادب نے ملک کی آزادی میں جو کردار ادا کیا اسے ہر ایک طبقے اور خطے نے سراہا۔ عالمی سیاسی اور معاشرتی مناظر تیزی سے بدل رہے تھے۔ انسانی عقل پھر ایک بار افہام و تفہیم کے کرب میں مبتلا ہو رہی تھی۔ مختلف تہذیبیں زوال پذیر ہورہی تھیں۔ نئے مفکر اور فلاسفہ جدید افکارات اور فلسفہ کے ساتھ عالمی ادب پر اثر انداز ہورہے تھے۔ ان سب تغیرات کا اثر انسانی عقل کے ساتھ ساتھ اردو ادب پر بھی ہورہا تھا۔ ناول اور افسانہ نگاری، صحافت و سیاست، تنقید و تبصرات، تحقیقی مقالات، مکتوبات، ڈرامہ و ناٹک الغرض ہر ایک شعبہ میں اردو ادب نے اپنی روایات کو زندہ رکھا۔ جدید مکاتب فکر وجود میں آتےگئے اور ادبا و شعرا مختلف خانوں میں تقسیم ہوگئے۔ تحریک پسند، ترقی پسند، رجعت پسند، فراریت پسند اور ایسے ہی کئی دیگر مکاتب فکر اردو ادب میں نمودار ہوئے۔ ان میں اکثر ادبا و شعرا جدید مغربی فلسفہ اور افکار سے متاثر تھے ۔

بیسویں صدی کے نصف سے عالمی ادب سرمایہ دارانہ ذہنیت، مادیت پرستی اور فحاشی کا شکار بنتا گیا اور اردو ادب بھی اس سے مبرا نہیں رہا۔ ٹی وی میڈیا، فلم، ریڈیو اور موسیقی نے اکثر اردو ادبا و شعرا کو اپنی جانب راغب کیا۔ اول اول فلموں میں اردو ادب کا جائز استعمال ہوتا رہا اور اسکے وقار کو قائم رکھا گیا لیکن بعد کے دور میں اردو زبان و ادب کا استحصال کیا گیا ۔ اسی دور میں مارکس اور فرائڈ کے فلسفہ سے متاثر ہوکر کبھی کسی نے اردو ادب میں لادینیت و تشکیک کا بیج بونے کی کوشش کی تو کسی نے فحاشی اور عریانیت کو حق پرستی کا نام دے کر خوب شور غل بھی مچایا۔

بیسویں صدی کے اسی دور میں اردو ادب پھر مکدر ہورہا تھا لیکن اردو ادب میں توازن بر قرار رکھنے میں کئی علما، ادبا اور شعرا نے اپنی کوششیں جاری رکھیں جسکی وجہ سے ادب کا اور تہذیب و تمدن کا وقار گرنے سے محفوظ رہا۔ جہاں ادبا نے اعلی معیاری تصانیف و شاعری کو پروان چڑھایا ونہیں علما نے اردو ادب کو مصفا و معزز رکھنے اور فلسفہ و دین سے مزین اعلی و معیاری تصانیف تخلیق کرنے کا عمل شد و مد سے جاری رکھا۔ یہی وہ دور تھا جس میں اردو ادب کو بار دیگر بحر نور میں غسل دیا گیا، قرآن مجید کے ترجمہ کے علاوہ اسکی تفاسیر بھی لکھی گئیں اور ان تفاسیر پر تحقیقی مقالے بھی، اور اس طرح اردو ادب کو لاجواب اسلوب اور طرز تحریر سے مالا مال کر دیا گیا جس کا اعتراف شعرا و ادبا اور اردو ادب کے نامور نقادوں نے کیا۔ تفاسیر و تراجم میں مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن، مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اور مولانا امین اصلاحی کی تدبر القرآن سر فہرست رہی۔ اسکے علاوہ لاکھوں تراجم، تصانیف، تحقیقات، رسالوں اور جرائد نے ملکر اردو ادب کی تجلیوں میں اضافہ کرنے کا عمل جاری رکھا۔ برصغیر کی مقامی زبانوں میں سے کسی بھی زبان میں اس قدر کثیرالاشاعت ادب نہیں پایا گیا جسقدر اردو زبان میں پایا گیا اور اسکا نصف سے زائد حصہ دینی علوم اور فلسفہ پر مشتمل رہا ۔

بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کی ابتدا میں "الیکڑونک ریوو لیوشن" نے عالمی ادب میں تغیرات برپا کر دئے اور اردو ادب بھی اس سے اچھوتا نہ رہا۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے افکار و بیان اورعلم و ادب کو وسعت عطا کی اور اسے عام کردیا ۔ ساتھ ہی ساتھ عالمی ادب کا معیار بھی گھٹتا گیا اور فحاشی و عریانیت بڑھتی گئی، افکار کی بلندی اور تخلیقی ادب کا فقدان ہوتا چلا گیا ۔ عالمی ادب کے ساتھ اردو ادب بھی "ای لٹریچر" یا "برقی ادب" کے منفی اثرات سے بچ نہ سکا لیکن یہ اردو زبان و ادب کی کرشمہ سازی ہی ہے کہ اس کی تجلیوں سے مادیت پرستی کا یہ تاریک دور بھی منور ہورہا ہے۔


یہ مضمون راقم کے پچھلے مضمون "اردو ادب کی ارتقا اور فلسفہ و دین" کا تتمہ ہے اور پچھلے مضمون سے متعلق پوچھے گئے چند سوالات کا تصفیہ بھی۔ قارئین کرام سے گزارش ہے اسی تناظر میں اسے پڑھا جائے۔

انسان فطرتا ادب پسند واقع ہوا ہے۔ اسکی تخلیق میں ادب کا عنصر ودیعت کردیا گیا ہے اور اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ آسمانی صحائف ادب کے منتہائے کمال کا مظہر رہے ہیں اور ان میں شاعرانہ لطافت اور نثری فصاحت و بلاغت شامل رہی ہیں۔ خالق حقیقی کے احکامات اور طرز بیان و تخاطب میں انسان کے لطیف احساسات اور شاعری و ادب کے تئیں رغبت کا خیال رکھاگیا ہے۔ کائنات کے رموز و نکات میں غور کرنے والوں کی تخصیص کی گئی ہے، انھیں مختلف القابات سے نوازا گیا ہے جو ادبا، شعرا، فلاسفہ، سائنسداں، مورخ اور ایسے ہی دیگر علوم کے ماہرین کے لیے مختص ہے۔ ادب کا یہ خاصّہ رہا ہے کہ وہ انسانی تہذیبی ارتقا سے متاثر ہوکر کائنات کے مختلف موضوعات کو اپنے دامن میں سمیٹتا رہا جن میں فلسفہ، تاریخ، سیاست، روحانیت، جمالیات، نفسیات، عمرانیات، معاشیات، حیاتیات، سائینس وغیرہ شامل رہے۔ یہ وہی موضوعات ہیں جنہیں دین نے متعارف کرائے ہیں اور جنکے بنیادی اصول بھی پیش کئے ہیں۔ سن چھ سو سے سن گیارہ سو عیسوی تک، حجاز، بغداد، دمشق، اندلس اور غرناطہ میں قران مجید کےاحکامات کی پیروی میں مذکورہ تمام موضوعات پر شد و مد سے غور و فکر کیا گیا اور ان علوم کی اساس قائم کی گئیں اور آنے والی نسل انسانی کے لئے بے نظیر ادبی مثالیں قائم کی گئیں۔ انہیں اساس پر یوروپ میں نشاہ ثانیہ کا ظہور ہوا۔ مغربی فلاسفہ، سائنسداں اور دیگر ماہرین علوم کے افکارات کو پرواز کا حوصلہ اسی اساس سے حاصل ہوا، اور اکثر مغربی ادبا و علما نے فراخدلی سے اسکا اظہار بھی کیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد کچھ عرصہ تک ادب نے اصلاحی امور کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی لیکن اسکے بعد ادب کا اصلاحی موقف تبدیل ہوتا گیا۔ پھر وہ دور بھی آیا کہ ادب مادیت پرستی، سرمایہ داری، گروہ بندی، زرد صحافت اور سیاست غلیظہ کا شکار بن کر رہ گیا۔

تمہید کے پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین صرف عقائد کا نام نہیں بلکہ وہ انسان کی انفرادی، اجتماعی، ظاہری، باطنی، روحانی، عقلی، قلبی، حسی الغزض تمام ضرورتوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ ادیب و شاعر کے افکار پر دین کا جسقدر غلبہ ہوتا رہا اسی قدر وہ اسکی ادبی تخلیقات میں ظاہر ہوتا رہا۔ البتہ عالم دین اپنے فرائض کی انجام دہی میں ضرورتا آینہ داری بھی کرتا رہا اور ادب کے مختلف پیرائے کا استعمال بھی۔ ہرجید عالم دین ایک اعلی و معیاری ادیب واقع ہوا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر ادیب ایک عالم دین بھی ہو۔ ایک جیدعالم دین اور اصطلاحی "کٹھ ملا " میں زمین و آسمان کا فرق رہا ہے۔ "کٹھ ملا" اردو ادب میں ایک ایسا علامتی کردار رہا جو اخلاقی قدروں سے منحرف ادبا کا کمزور شکار بنا رہا اور جسے طنز و مزاح کے پہلو میں رکھ کر خوب داد و دہش وصول کی گئی۔ " کٹھ ملا" بھلے ہی دینی علوم پر دسترس رکھتا ہو لیکن ضروری نہیں کہ وہ حکمت بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین کا اعجاز ہے، وہ دانشمندی بھی رکھتا ہو جو ایک جیدعالم دین عمر بھر کی عرق ریزی سے حاصل کرتا ہے۔ ایسے "کٹھ ملا" ہر دین و مذہب اور جماعت میں پائے جاتے رہے ہیں جو کبھی ادب کو شجر ممنوعہ قرار دیتے رہے تو کبھی دین کو کسی تارک الدنیا کی میراث، کبھی حفیظ میرٹھی جیسے ادبا و شعرا کے افکارات کو جماعتی اصولوں کے ترازو میں تولا کرتے رہے تو کبھی جماعت کے سابقون اور اولون کی محنت شاقہ پر اپنی ناتجربہ کاری سے پانی پھیر ا کرتے رہے ۔ ایسے حضرات کے دینی اخلاص پر شبہ کرنا فی الحقیقت بے جا ہوگا لیکن انکی غیر دانشمندی سے ادب کے تئیں جو تنفر پیدا ہوا وہ دین و ادب کے باہمی روابط کی بیخ کنی کا باعث بنتا رہا۔ اسی طرح ادب میں وہ ادبا بھی پیدا ہوتے رہے جو نرے ادیب ثابت ہوئے اور باہمی روابط کی اس بیخ کنی میں برابر کے حصے دار بھی۔ ایک نرا ادیب اخلاقی اقدار کے اصولوں سے پہلو تہی کر اپنے افکار و عمل سے دنیا کو جنت ثابت کرنے پر بضد رہا، ہمیشہ ادب میں دین کے داخلہ سے خائف رہا کہ کہیں ان دیکھی جنت کے عوض میں دیکھی دکھائی جنت اس سے نہ چھن جائے۔ الغرض یہ دونوں کردار حقیقت سے فرار چاہتے رہے، اس طالب علم کی طرح جو تعلیم تو جیسے تیسے حاصل کر لیتا ہے لیکن امتحان گاہ میں بیٹھنے کا خیال آتے ہی حواس باختہ ہو جاتا ہے اور امتحان دینے کا قائل نہیں ہوتا۔ یہ دونوں علامتی کردار اپنے افکارات کے سفر میں ترقی بھی کرتے دیکھے گئے اور پھر کٹھ ملا کو عالم دین بنتے دیکھاگیا اور نرے ادیب کو صالح ادیب۔

کسی "کٹھ ملا" اور نرے ادیب کو تمہید میں بیان کردہ حقائق کو قبول کرنے میں شاید عار محسوس ہوگا اور انکے مطالعہ میں شاید نہ آیا ہو کہ قرآن مجید جہاں تمہید میں بیان کردہ موضوعات کے اصول و قواعد پیش کرتا ہے ونہیں علم معانی، علم بیان، علم بدیع، تشبیہات و استعارات، تصریف و تضمین اور ایسے ہی سینکڑوں ادبی اصولوں اور قواعد کے متعلق رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ دین و ادب میں باہمی ربط کی صرف یہ ایک مثال کٹھ ملا اور نرے ادیب کے موقف کو رد کرنے کے لئے کافی ہے؛ ۔ عہد فاروقی کے نامور شاعر حضرت خالد بن صعق نے اپنے کلام میں معاشرہ کی آئینہ داری فرماتے ہوئے، حکومت کے عمال کی دولت میں غیر معمولی اضافہ کا ذکر فرمایا تھا۔ جب انکے اشعار امیرالمومنین کے علم میں آئے تو انہوں نے بروقت فیصلے صادر فرمائے اور معاشرہ کے اس ناسور کی روک تھام کے لیے لاثانی قانون وضع کئے اور اسے نافذ بھی کیا۔

ایک عام ادیب کی مثال ایک سایہ دار درخت کی طرح ہے لیکن ایک صالح ادیب کی مثال ایسے درخت کی ہے جو سایہ کے ساتھ ساتھ پھل اور پھول بھی دیتا ہے اور جسکی بدولت بے شمار چمن وجود میں آتے ہیں۔ ایک نرا ادیب چند ہم خیال و ہم اطوار حضرات کے افکار و اعمال کو زندگی کی سچائیوں سے تعبیر کرتا ہے۔ زندگی کی انہیں سچائیوں کی آئینہ داری کرنے کے لئے دین کے پاس بہترین اور قابل تقلید مثالیں موجود ہیں، جہاں برہنگی کو ثابت کرنے میں ادب کی رسوائی کا خدشہ نہیں ہوتا، جہاں جمالیاتی حس الفاظ کے بندھ توڑ کر جنسیات پر نہیں اتر آتی اور جہاں لطیف احساسات لہوو لعب کے ملبہ تلے دب نہیں جاتے۔ دین نے ایسے ہی بےحد نازک احساسات کے اظہار کے لئے بہترین اسالیب پیش کیے ہیں جو انسان کے لطیف احساسات کا پاس رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں، اور جو آج بھی اکثر ادبا و شعرا حضرات کے افکار میں نظر آتے ہیں۔ یہی فن اصل میں ادب ہے ورنہ افکار و بیان و اظہار کی بے بسی ہے جو ادب کے نام پر اکثر مغربی طرز فکر و عمل میں نظر آتی ہے، اور جسے چند ادبا لوازمات میں شمار کرتے آئے ہیں اور اسکی ابتدا کو ادب کی نشاہ ثانیہ۔ نرا ادیب "عروبا اترابا" میں پوشیدہ شوخی اور ناز و اندام کو شاعری میں متعارف نہیں کرا پاتا اور کٹھ ملا اس ناز و اندام کو جمالیاتی حس کی میزان پر رکھنے سے خوف کھاتا ہے۔ نرا ادیب نثر میں "انتم لباس لھن و ھنا لباس لکم" جیسی فصاحت و بلاغت کی عکاسی کرنے کو ادب نہیں سمجھتا اور کٹھ ملا اس کی ادبی تشریحات کو زہد و تقوی سے انحراف۔

اردو ادب کا قیام و عروج دین کی بنیاد پر ہی قائم رہا ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ اردو کے نامور شعرا و ادبا کا تعلیمی پس منظر دینی علوم سے مزین رہا اور ان میں بلا امتیاز مذہب و ملت کلاسیکی، ترقی پسند اور رجعت پسند سب شعرا و ادبا شامل ہیں۔ ان میں چند وہ نام بھی ہیں جو دینی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور اس کا استعمال کر انہوں نے دین و ادب کے باہمی ربط کو اجاگر کیا، لافانی ادب تخلیق کیا اور معاشرہ کی اصلاح بھی کی اور فلاحی کام بھی کئے۔ اسی طرح اردو ادب میں ایسے سینکڑوں علمائے دین ہیں جنہوں نے اپنی ادبی قابلیت کا استعمال کر دینی کارہائے نمایاں انجام دئے۔ ان کے علاوہ اردو ادب میں وہ معتبر نام بھی ہیں جن پر ادب کو ہمیشہ ناز رہا اور انکا پس منظر بھی دینی علوم سے مزین رہا، جن میں بلا امتیاز دین و مذہب و مکتب سب شامل ہیں۔ اول الذکر ادبا اور علمائے دین دونوں نے اپنی زندگی معاشرہ کی اصلاح کے لئے وقف کردی تھی اور اس کار خیر میں اپنے افکار، اپنی تحریر، تصانیف، کلام اور خطبات کے ذریعے معاشرہ کی آئینہ داری فرمائی اور اصلاحی کارنامے بھی انجام دیے، اور اپنے کردار اور سیرت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ ان حضرات میں ایک قدر مشترک رہی کہ دینی اساس سے انکے افکارات اسقدر پیوست رہے کہ انکی سیرت انکے کارہائے نمایاں میں ظاہر ہوتی رہی، اور ادیب و شاعر کے مقام سے انہیں ایک درجہ بلند مقام عطا کرتی رہی۔ موخر الذکر ادبا نے بھی اپنے افکار، کلام اور اپنی تصانیف سے معاشرہ کی نہ یہ کہ آئینہ داری کی بلکہ اپنے اپنے طور پر بلواسطہ اصلاح کی کوششیں بھی فرمائیں۔ لیکن ان میں سے چند ادبا و شعرا کے افکار میں اکثر و بیشتر غلو اور لغویات کی کثرت پائی گئی، اور وہ اپنے افکار و کردار کا وہ نمونہ بھی نہیں پیش کرسکے جو انکے ہمعصر اور اول الذکر حضرات نے پیش کیا، جام و بادہ کا نشہ اور اس پر ادب کا نیا نیا خمار جس نے اکثر ادبا و شعرا کو نرا ادیب بنا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن جب جب دینی افکارات کا غلبہ ہوا تو انہوں ایسے افکارات بھی پیش کیے جو تاریخ میں ضرب المثل قرار دئے گیے اور جید علمائے دین کے علاوہ ایک دنیا نے ان سے استفادہ کیا۔

بیسویں صدی کے نصف کے بعد، عمومی طور پر پر دیکھا جائے تواردو ادب نے معاشرہ کو اندھی ادبی تقلید، تنقید برائے تنقید و تنقیص یا ستائش کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اور اس کا تذکرہ خود اکثر ادبا و شعرا نے بھی اپنے مضامین اور بیانات میں کیا ہے۔ انگریزی ادب کی تقلید میں گروہ بندی ہوتی رہی اور عام طور پر ادب کو اپنے اپنے ادبی اکھاڑوں تک محدود کر دیاگیا۔ چند حضرات ملکر مسلسل تنقید بر تنقید و تنقیص سے ادب کے صفحات سیاہ کرتے رہے۔ مغربی افکار و تحقیق کو خدائی دعوی سمجھتے رہے اور اپنی جبلی صفات اور تہذیبی روایت کا گلا گھونٹتے رہے۔ جبکہ اس سے آگے بڑھکر بہت کچھ سوچا اور لکھا جاسکتا تھا۔ جو ادبا و شعرا ترقی پسند مکتب فکر سے متاثر رہے ان میں سے بھی اکثر و بیشتر کا تعلیمی پس منظر دینی رہا۔ یہ حضرات اپنے افکار و مقاصد میں متحد رہے اور اپنے دین و ایمان سے بڑھکر اپنے مکتب فکر کے وفا دار رہے۔ ان میں اکثر ادبا کبھی کہیں اپنے دین سے چوری چھپے جڑے بھی رہے۔ اکثر ادبا کا ہدف سیاست کی راہوں سے چل کر اپنے مقصد کو حاصل کرنا تھا اور جسکے لئے وہ مختلف مغربی مکتب فکر کے تالابوں میں غواصی کرتے رہے۔ یہ وہی فکری تالاب ہیں جو جلد ہی خشک ہوگئے اور جنکا وجود پچاس سو سال سے زیادہ قائم نہیں رہا۔ ترقی پسند حضرات کے علاوہ دیگر مکاتب فکر کے ادبا و شعرا بھی معاشرہ کے لئے کچھ خاص نہیں کر پائے۔ ان میں سے اکثر ، قدما کے پرستار تو ضرور رہے لیکن انکا پرتو ثابت نہ ہوسکے۔ معاشرہ کو اب اصلاح کار ادبا و شعرا کی پہلے سے زیاد ضرورت ہے۔ اردو ادب پر چھایا یہ جمود توڑا جاناچاہیے جو پچھلی صدیوں میں بھی وقتا فوقتا نظر آتا رہا اور جسکی حشر سامانیاں تاریخ و ادب میں رقم کی گئیں ہیں۔

اس بات کا احساس ہر " کٹھ ملا" اور "نرے ادیب" کو ضرور ہونا چاہیے کہ دین و ادب کے باہمی روابط میں ہی معاشرہ کی اصلاح کا پہلو مضمر ہے اور یہ ایکدوسرے کے لئے ایسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے پھول کے ساتھ خوشبو۔ دونوں کا تعلق انسان کی روحانی غذا سے ہے۔ دعا ہے کہ یہ روحانی غذا ملاوٹ سے پاک ہو اور روحانی حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند ہو۔

"وما توفیقی الا باللہ"

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

Urdu Literature and the impact of philosophy & religion. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں