کرے کوئی اور بھرے کوئی کی سیاست - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-19

کرے کوئی اور بھرے کوئی کی سیاست

kare-koi-bhare-koi
گزشتہ چند دنوں میں دو واقعات رونما ہوئے ہیں جن کاسنجیدہ تجزیہ کیاجانااس لئےضروری ہے تاکہ سچ ،جھوٹ اوران کے مضمرات کے مابین خط امتیاز کھینچنا سہل ہوسکے۔
سیاست میں یہ عجب رہا نہیں کہ ایک افواہ کے سہارے حقیقت کے پرخچے اڑادئے جائیں ۔ کرے کوئی اوربھرے کوئی کی سیاست نے ایک بارپھرملک کے سنجیدہ طبقہ کو بے مضطرب کردیاہے۔ مہاراشٹرکے پونے میں فیس بک پر شیواجی مہاراج اوربال ٹھاکرے کی تصویرکے ساتھ مبینہ چھیڑ چھاڑکے سبب ہندو راشٹرسینا کےاغنڈوں نے سرعام نہ صرف مساجدکی بے حرمتی کی بلکہ مسلمانوں کے دکان ومکان کو زبردست نقصان پہنچایا اورہنوز حالات کشیدہ ہیں ۔ مسجد سے نماز پڑھ کرگھرآرہے سافٹ ویئر انجینئر محسن صادق کو ہندو راشٹرسینا کے غنڈوں نے پیٹ پیٹ جان لےلی جبکہ ایک مسلم لڑکا محمد صادق کونیم جان کردیا جواسپتال میں زندگی جنگ لڑرہاہے۔
24/ سالہ محسن صادق شیخ پر پیر کو نماز کے بعد گھر لوٹتے وقت حملہ ہوا، اس وقت ریاض نام کا دوست بھی صادق کے ساتھ تھا۔ ریاض کےمطابق صادق پر حملہ اس لئے ہواکیوںکہ اس نے ٹوپی پہنی تھی اور اس کی داڑھی تھی۔ ممبئی پولیس کی سائبر کرائم سیل کے مطابق یہ فیس بک پوسٹ ایک ایسے پیج نے جاری کی تھی، جسے جعلی شناخت سے سال بھر پہلے تخلیق کیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ کے آخر میں یہ پوسٹ آئی تھی، جس میں شیواجی اور بال ٹھاکرے کی تصاویر کے ساتھ مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی اور اب یہ پیج ڈليٹ کیا جا چکا ہے۔ لیکن سوال یہ ہےجبکہ ایک سال قبل اس فرضی فیس بک اکاؤنٹ کی شناخت کرلی گئی تو پھراسے بند کیوں نہیں کرایاگیا؟

مہاراشٹرا کا پونے جب نفرت کی آگ میں جل رہا تھا اسی درمیان میوات سے ایک خبرشائع ہوئی جس میں مقامی لوگوں نے مدرسہ کے نام چندہ کررہے فرضی نوجوانوں کوپکڑا لیکن لوگوں کے ہوش اس وقت جاتے رہے جب پتہ چلاکہ اسلامی وضع قطع ،سرپرٹوپی اورکاندھے پرعربی رومال رکھےان لڑکوں کا تعلق کسی مدرسہ سے تو دور اسلام سے بھی نہیں ہے یعنی یہ ہندو نوجوان طالبان علوم نبویہ کا روپ دھار کر مدرسہ کے نام پرچندہ کرکے مسلمانوں کولوٹنے کا کام کر رہے ہیں ۔
پکڑے گئے نوجوانوں میں ایک بچہ بھی تھاجس کی عمر تقریباً 8/ سال رہی ہوگی ۔یہ لوگ مدرسہ اسلامیہ میرٹھ کے نام پرمسلم بستیوں سے گندم ونقدی کی وصولی کررہے ہیں ۔ سفید کرتا پائجامہ ، سر پرٹوپی اورگلے میں عربی رومال دیکھ کرکہیں شائبہ تک نہیں گزرتاتھاکہ یہ لڑکے ہندومذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پکڑے گئے نوجوانوں نے بتایاکہ میوات میں 18/ لوگ ہیں جودن میں طالبعلم کا حلیہ بدل کرمسلمانوں کو چونا لگاتےہیں اوررات میں شہرکے شکراوہ مندرمیں قیام کرتے ہیں ۔ ان کے نام کرمن ولدراجناتھ ، ویدرام ولد بیرسنگھ ، ناگل جاٹھ ، منیش ولد بیرسنگھ، بیرپال ولد رجیندر ،محبوب ولد کرتارناتھ اور سلیم ولد کرتارناتھ ہیں۔
گاؤں والےجب ان دھوکہ بازوں کونگینہ پولیس اسٹیشن لے گئےتو پولیس نے اس حساس معاملہ پرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے نہایت ہی مایوس کن رویہ اختیار کیا ۔ تھانہ انچارج نے ان سے تفتیش کرنے کے بعد ان کوگرفتارکرنے سے منع کردیا اورریٹھٹ گاؤں والوں کے ذمہ داران کے ہی سپرد کردیا حالاںکہ مقامی مسلمان اسے بڑی سازش کا حصہ مان رہے ہیں لیکن کافی کہاسنی کے بعد بھی پولیس اپنی بات پراڑی رہی اورسرعام جرم کرنے والے ان جوانوں کوچھوڑدیاگیا جبکہ ان کایہ فعل سراسرجرم کے ہی زمرے میں آتا ہے۔ کم ازکم دھوکہ دہی اور ٹھگی کا مقدمہ تو ان کے خلاف درج کیاجاسکتا تھا اورپھران سے یہ تفتیش ضرور کی جانی چاہئے تھی کہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے اور کتنے افراد ہیں اورکہاں کہاں مسلمانوں کوچونا لگا رہے ہیں کیوںکہ پکڑے گئے نوجوانوں کے مطابق میوات میںان کے 18/ ساتھی ہیں جو اسی طرح مسلم طلبہ کی شکل اختیارکرکے چندہ وصول کررہےہیں۔
لیکن پولیس نے اتنے حساس معاملہ کوصرف اس بنیاد پر درکنار کردیا کہ ملزمین کا تعلق اکثریتی طبقہ سے تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اگرمعاملہ اس کے برعکس ہوتا توکیا نگینہ پولیس کا رویہ ایساہی ہوتا یعنی اگر مسلم لڑکے ہندوکا روپ دھار کرمندرکی تعمیرکے نام پرچندہ کرنے نکلے ہوتےاوراسی طرح رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے تو اب تک نہ جانے ان کے خلاف کتنی سنگین دفعات کے تحت مقدمے درج ہو چکے ہوتے اوران کے جسم کی پسلیاں اپنی سلامتی کی دعا کر رہی ہوتیں۔
فرقہ پرست میڈیا انہیں انڈین مجاہدین ،آئی ایس آئی اورنہ جانے کون کون سی گمنام دہشت گردتنظیموں سے ان کا رشتہ جوڑکر واہ واہی لوٹ رہی ہوتیں۔ پولیس اسے ایک بڑی سازش کا حصہ مان کرقبل ازوقت بڑی واردات کوناکام بنا دینے پر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہوتی لیکن اس معاملے کا تعلق ہند توا طبقہ سےہے، اس لئے یہ پولیس کی نظرمیں جرم کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔

اکثریتی طبقہ کے نوجوانوں کی طرف سے مسلمان بن کرچندہ وصولی کا یہ معاملہ بھلے ہی اپنی نوعیت میں انوکھا ہو لیکن ہندومراٹھی خواتین کا نقاب پہن کرمساجد و اسٹیشنوں پربھیک مانگنے کا سلسلہ کافی قدیم ہے اورآج بھی جاری ہے۔ ممبئی میں جمعہ کے دن بھیڑجمع ہونے والی مساجد کے سامنے قطاردرقطارکھڑی نقاب پوش خواتین کے چہرے کا نقاب اٹھاکردیکھیں توآپ کوان میں کئی ماتھے پربندی سجائے مراٹھی خواتین مل جائیںگی، ہم نے خود اس کافر گداگری کا اصل چہرہ دیکھاہے۔ یہ مسلم قوم کوبدنام کرنے کی ایک سوچھی سمجھی سازش ہے۔ ہرقوم میں حاجت مند ہوتے ہیں لیکن کسی دوسری کا قوم روپ دھارکربھیک مانگنا بہرحال دھوکہ دہی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔

اسی طرح ہم اگر پونے کے معاملہ کا تجزیہ کریں تویہاں بھی پولیس اورانتظامیہ کی دوہری پالیسی ہندوستانی جمہوریت کومنہ چڑھاتی نظرآئے گی ۔ کسی بھی طبقہ کی محترم شخصیت کی بے حرمتی کی حوصلہ افزائی ہرگزنہیں کی جاسکتی۔ لیکن محض شک کی بنیاد پر کسی مخصو ص طبقہ کوگنہگار تسلیم کرلینا اور پھر قانون کو ہاتھ میں لے کرتشدد برپا کرنے اور بے گناہ کی جان لینے کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ہے۔
پونے کا سانحہ مکمل طور سے سوجھی سمجھی سازش کا نتیجہ معلوم ہوتاہے کیوںکہ محسن کی موت کے بعد ایک ایس ایم ایس گردش میں آیا کہ "پہلا وکٹ گرا"۔
یعنی مسلمانوں کوٹھکانے لگانے کیلئے فرقہ پرستوں نے خود ہی چال چلی ہے ۔ مگرپولیس کے سامنے مساجدکی حرمتی پامال کی گئی اورمسلمانوں کوتشددکانشانہ بنایا جاتا رہا اورپولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ پولیس کی یک طرفہ کارروائی کی روایت یہ بتا رہی ہے کہ ہمارے ملک میں سب کچھ چلتا ہے بس تشدد کا واقعہ اقلیتی طبقہ کی طرف سے نہ ہو ورنہ اس پر قابو پانے کیلئے فائرنگ ہر مرحلہ میں ناگزیر ہوجاتی ہے۔ گزشتہ مہینے حیدرآباد کے راجندرنگرمیں سکھوں کے نشان صاحب کو مبینہ طور نذرآتش کرنے کے معاملے پرمسلم وسکھ آمنے سامنےہوگئے تھے، مسلمانوں و سکھوں میں سے کسی نے بھی کسی کی جان نہیں لی ، ہاں پولیس نے بھیڑکومنتشرکرنے کے نام پرفائرنگ کرکے تین مسلمانوں کی جان لے لی ۔

ہندوستان میں کرے کوئی اور بھرے کوئی والی سیاست جڑ پکڑتی جارہی ہےجوملک کی سلامتی کیلئے خطرناک ہے۔
آج ہزاروں کی تعدادمیں مسلمان جیلوں میں قید ہیں ان میں سے اکثرگناہِ بے گناہی کی سزاکاٹ رہے ہیں ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہ گئی کہ مکہ مسجد، اجمیر،مالیگاؤں،سمجھوتہ ایکسپریس اوراس نوعیت کے ملک میں پیش آنے والے دیگر دہشت گردانہ حملوں میں مسلمان دانستہ طورپرنشانہ بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثرمعاملوں میں مسلم نوجوانوں کو عدالت سے رہا کیا گیا ہے۔
حال ہی سپریم کورٹ نے اکشردھام مندردھماکہ کے الزام میں سزایافتہ مسلمانوں کو رہا کرکے پولیس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ درجنوں کی تعدادمیں مسلم نوجوانوں کی رہائی کے باوجود پولیس نے محض شک اور افواہ کے زیر اثر مسلمانوں پر تشدد برپا کرنے اورانہیں بدنام کرنے کا سلسلہ چھیڑ رکھاہے اورایسا اس لئے ہے کہ سیکڑوں مسلمانوں کی زندگی برباد کر دینے والے پولیس اہلکاروں سے عدالت جواب طلب نہیں کرتی ۔
عدالت اگرکسی بے گناہ کوملزم اورپھر زبردستی مجرم بناکران کی زندگی بربادکرنے والی پولیس کوبھی انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کردے تویہ سلسلہ جلد ہی ٹوٹ سکتاہے مگر فرقہ پرست عناصرایسانہیں ہونے دیں گے کیوںکہ ملک کی پرامن فضا انہیں راس نہیں آتی ۔ اب ملک کے انصاف پسند عوام کوآگے آکرطے کرنا ہوگا کہ کیامذہب کی بنیادپردوہری پالیسی کسی جمہوری ملک کانقیب ہوسکتا ہے۔ اگرنہیں توپھرانہیں اس کیلئے مضبوط حکمت عملی تیارکرنی ہوگی کیوںکہ سیکولرزم کی حفاظت ہرحال میں ضروری ہے اوریہ ہرہندوستانی کافرض ہے اوراسی سے ہندوستانی جمہوریہ کی حقیقی تصویربنتی ہے۔

جب سے اسرائیل سے قربت بڑھی ہے اپنے ہی ملک میں مسلمانوں کا قافیہ تنگ کئے جانے لگاہے اوریہ قربت جتنی گہری ہوتی گئی ہے ہندوستان میں جمہوریت کی ساکھ کمزورہوتی گئی ہے۔ مودی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ دہشت گردانہ معاملات سے نپٹنے کیلئے باضابطہ معاہدہ بھی طے کرلیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کا ننگا ناچ ناچنے والا اسرائیل کس طرح سے ہندوستان کودہشت گردی سے پاک کرنے کیلئے مودی حکومت کی رہنمائی کرتا ہے؟
کہیں ایسانہ ہواس کی شاطرانہ چال ہندوستانی جمہوریت کا جنازہ ہی نکال کررکھدے۔ مودی کی جیت کے بعد اسرائیل نے جس طرح سے مسرت کا اظہارکیاہے اس سےلگتاہے کہ اس کی نیت کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہےاس لئے مودی حکومت کویہ یادرکھنا ہوگاکہ اسرائیل وہ قوم ہے جسے وفا سے فطری بیر ہے۔

***
rahbarmisbahi[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رضا رہبر

The politics of one slays another pays. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں