29/جون ریاض یو۔این۔آئی
رمضان کا جو لطف اور روح پرور نظارے سعودی عرب میں ہیں و دنیا میں اور کہیں نہیں۔ پورے ملک پررمضان کا سرورچھایاہوتاہے۔آپ سڑک پر ہوں، دکان میں ،سپر بازار میں،مسجدمیں یا دفتر میں یہاں روزہ افطار کا انوکھا نظارہ ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ رات کی زندگی شروع ہوتی ہے۔ دن کے وقت تو سناٹا سا رہتا ہے مگر رات کو چکا چوند روشنی میں زندگی بھرپور نظر آتی ہے ۔ ہر طرف چہل پہل اور رونق رہتی ہے ۔ دن بھر سڑکو ں کے کنارے بنے ہوٹل سنسان پڑے رہتے ہیں۔ کوئی بھی سر عام کھاتا پیتا یا سگریٹ نوشی کرتا نظر نہیں آتا ۔ دن میں دوکانیں بھی خالی پڑی رہتی ہیں مگر رات میں ہر جگہ رونق نظر آتی ہے ۔ دوکانیں خریداروں سے پر ہوتی ہیں۔ مسجدیں عبادت کرنے والوں سے بھری ہوتی ہیں۔ نماز میں تو ہجوم رہتا ہی ہے ، دوسرے اوقات میں بھی لوگ قرآن کی تلاوت میں مصروف نظر آتے ہیں۔دفتروں کا ماحول یکسر تبدیل ہوتا ہے ۔ ملازمین کام کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی فرائض بھی پابندی سے ادا کرتے ہیں۔ دفتری اوقات میں تبدیلی کردی جاتی ہے اور کام کے گھنٹے کم کردیے جاتے ہیں۔ گھروں میں فرزندان توحید زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارتے ہیں۔ افطار اور سحر کے لئے خاص کھانے تیار کئے جاتے ہیں۔ عشاء کے بعد تراویح پڑھی جاتی ہے ۔ دیسی اور بدیسی لوگ عمرہ کرنے کے لئے رمضان کو ترجیح دیتے ہیں ویسے تو سارے سال ہی یہ سلسلہ رہتا ہے مگر اس ماہ میں عمرہ کرنے کی بات ہی الگ ہے ۔ امور حج کے وزیر بندر الحجر نے بتایا کہ اس سال عمرے کے لئے 7لاکھ لوگ آئیں گے ، یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے زیاد ہ ہے ۔ پیغمبر اسلام کے مطابق مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنے کا اجر ایک لاکھ نمازوں کے مساوی ہے اور مسجد نبوی میں ایک نماز کا اجر ایک ہزار نمازوں کے برابر اور مسجد اقصی میں500نمازو ں کے برابر ہے۔رمضان کے عمرے کی بھی کافی فضیلت ہے۔ اس لئے اکثر لوگ رمضان میں ہی عمرہ کرنیکے خواہش مند ہوتے ہیں اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں نماز بھی پڑھنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ مکہ میں عمرہ کرنے کے بعد عقیدتمند مدینہ جاتے ہیں۔ ہر سال عمرہ کرنے والوں کا رش بہت بڑھتا جارہا ہے۔ عمرہ کے لئے آنے والے لوگ مسجد نبوی کے نزدیک کے ہوٹلوں مین قیام کرنا چاہتے ہیں تاکہ سبز گنبد ان کی آنکھوں کیسامنیرہے اور اذان اور نماز کی آواز ان کے کانوں میں آتی رہے ۔ یہاں ادا کی جانے والی نمازوں کا براہ راست ٹیلی کاسٹ بھی کیاجاتا ہے تاکہ دور دراز کے لوگ بھی اس سے مستفید ہوسکیں۔ مدینہ کی مسجد نبوی میں آکر جو روحانی تجربہ ہوتا ہے اسے محض محسوس کیاجاسکتا ہے ، الفا ظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا ۔ عمرہ کرنے کے بعد لوگوں کی زندگی بدل سی جاتی ہے اور ان کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوتا ہے ۔ اس لئے دنیا بھر کے مسلمان عمرہ کرنے کے لئے اس مقدس مہینہ کا ہی انتخاب کرتے ہیں ۔ چونکہ بیشتر عازمین متوسط طبقہ کے ہوتے ہیں انہیں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے نزدیکی ہوٹلوں میں جگہ نہیں ملتی کیونکہ بے حد مہنگے شاندار ہوٹل ہیں۔ اس مرتہ ایک تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ تارکین وطن کو سعودی عرب کی مساجد میں امامت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔ غیر ممالک سے آئے حفاظ تراویح پڑھا سکتے ہیں۔ پچھلے سال غیر ملکیوں کے امامت پر پابندی لگادی گئی تھی مگر اب یہ ہٹالی گئی ہے۔ خانہ کعبہ میں افطار کا لطف ہی الگ ہے۔انتظامیہ یہا ں ہر سال ڈیڑھ کروڑ عازمین کوکھانا کھلاتی ہے ۔ روحانی پہلو کے علاوہ رمضان کے مہینے میں میں کئی روایتوں کی تجدیدہوتی ہے خصوصاً غذا کے معاملہ میں ۔ مکہ کے لوگوں کا سب سے مقبول کھانا بلیلہ ہے جوکابلی چنوں سے بنایاجاتا ہے ۔ یہ مکہ کے لوگوں کی مرغوب غذا ہے اور یہ ان کے آباو اجداد سے چلی آرہی ہے ۔ مقدس شہر کے ہر علاقہ میں بلیلہ فروخت کیاجاتا ہے ۔ عشاء کے وقت سے اس کی فروخت شروع ہوتی ہے اور سحر تک جاری رہتی ہے ۔ بلیلہ فروخت کرنے والے60سالہ سعید براشتی نے بتایا کہ وہ پورے رمضان میں 4ٹن سے زیادہ بلیلہ فروخت کرتا ہے۔ وہ33سال سے اپنی دوکان چلا رہا ہے ۔ ہر سال رمضان میں یہ روایت زندگی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مدینہ آنے والے لوگ یہاں کی کھجوریں ضرور خریدتے ہیں جو کئی قسموں کی ہوتی ہے ۔ کھجورکی یہاں متعدد دکانیں ہیں۔ اس کے علاوہ باہر سے آنے والے یہاں کی تسبیح بھی اپنے ملک لے جاتے ہیں ۔ ان اشیاء کے علاوہ عطر، اگربتی ،کپڑا ، جائے نماز، عبائے اور قرآنی آیات والی آرائشی تختیاں بھی مقبول ہیں۔ ان کے علاوہ دعاؤں کے کتابچے ، آب زم زم ، قرآن کے نسخے، تلاوت کی آواز کی سی ڈی ، مذہبی کتب اور قیمتی پتھروں سے بنی چیزیں جا بجا فروخت ہوتی ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے میں تجارت عروج پر ہوتی ہے ۔ کم آمدنی والے زائرین ہر چیز دس ریال والی دکانوں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہاں چیزیں سستی قیمت پر مل جاتی ہیں۔ مسجد نبوی کے آس پاس کی دکانوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی خواتین عبائے یعنی برقعے خریدنا پسند کرتی ہیں ۔ یہاں کی تسبیح بھی بے حد مقبول ہے کیونکہ ایک تو وہ ہلکی ہوتی ہے پھر جذباتی اہمیت بھی ہے ۔ لکڑی سے بنی خوشبودار(عنبر) تسبیح پسند کی جاتی ہے ۔ بہت سے لوگ بچوں کے کھلونے خریدتے ہیں۔ دونوں مقدس شہروں میں عازمین کی وجہ سے کاروبار کے علاوہ ملازمت کے مواقع بھی بہت بڑھ جاتے ہیں ۔ برقع اور خواتین کی مخصوص اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں میں سعودی خواتین کو بھی روزگار ملتا ہے۔ تاہم رمضان کے رش سے نمٹنے میں انہیں دقت دقت پیش آتی ہے ۔ انہیں شکایت ہیکہ بیشتر آجر محنت کے ضابطوں پر عمل نہیں کرتے اور ان سے زیادہ گھنٹے کام کراتے ہیں ۔ انہیں روزے میں زیاد دیر کام کرم کرنا پڑتا ہے ، اور انہیں یہ بھی فکرہے کہ عیدکے موقع پر بھی شاید انہیں فرصت نہ ملے ۔--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں