ایک شہر دو ریاستیں - نئی مسابقت کا آغاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-08

ایک شہر دو ریاستیں - نئی مسابقت کا آغاز

one-city-two-states
ایک میان میں دو تلوار ۔ یہ محاورے کے حد تک ٹھیک ہے لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ، ایسا ہی ایک شہر دو ریاست کا عنوان محاورہ تو نہیں بلکہ ایک حقیقت بن کر سامنے آرہا ہے ۔ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کی علاقائی تقسیم نے شہر حیدرآباد پر دوہری ذمہ داری عائد کردی ہے۔ اکثر و بیشتر شہر چنڈی گڑھ کی مثال دی جاتی ہے جو ریاست ہریانہ و پنجاب کا مشترکہ دارالحکومت ہے ۔، چندی گڑھ ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے ۔، یہ کسی ایک ریاست کے تحت نہیں ہے ۔ جب کہ حیدرآباد ریاست تلنگانہ کے تحت ہوتے ہوئے، دوسری ریاست آندھرا پردیش (سیما، آندھرا) کا بھی دارالحکومت بنایا گیا ہے ۔ چندی گڑھ کو ایک خاص منصوبے کے تحت ترقی دی گئی ۔ مرکز کے فنڈس کے ذریعہ یہاں دونوں ریاستوں ہریانہ اور پ نجاب کی علیحدہ علیحدہ اسمبلی کے علاوہ علیحدہ سکریٹریٹ علیحدہ راج بھون بنائے گئے ۔ جب کہ حیدرآباد کے لئے ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔، حیدرآباد کی زیادہ تر ترقی سقوط حیدرآباد(پولیس ایکشن ۔ستمبر1948)سے قبل ہوئی ۔

، دور قطب شاہی میں اس شہر کی بنیاد ڈالی گئی ، دور آصف جاہی نے اس کو ترقی دی اور آج جمہوری دور اس شہر سے دوہرا استفادہ کررہا ہے ۔ آصف جاہی آخری فرمان روا نواب میر عثمان علی خان نے جب باغ عامہ میں ٹاؤن ہال کی عمارت(ریاست تلنگانہ و ریاست آندھرا پردیش کی موجودہ اسمبلی) تعمیر کی شائد انہیں یہ اندازہ نہیں ہوا ہوگا کہ ان کی تعمیر کردہ یہ پرشکوہ عمارت نہ صرف جمہوری ہندوستان میں ریاست حیدرآباد (آندھرا پردیش) کا ایوان مقننہ بنے گی بلکہ یہ دو ریاستوں کی مقننہ کا بوجھ سنبھالے گی ۔ یہی حال ریاستی سکریٹریٹ کا ہے ۔، سکریٹریٹ کا موجودہ کامپلکس نواب میر عثمان علی خان کا تعمیر کردہ ہے ۔، سقوط حیدرآباد کے بعد آزاد ہندوستان کی ریاست اور بعد میں آندھرا پردیش ریاست کے نظم و نسق کا یہ ہیڈ کوارٹر بنا رہا ۔، اب سکریٹریٹ تلنگانہ و آندھرا پردیش دونوں ریاستوں کی ذمہ داری نبھارہا ہے ۔ ماضی میں جو صاحب اقتدار تھے انہوں ںے آنے والے100سال کی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی تھی ۔ اسمبلی یا سکریٹریٹ کی عمارتوں سے شہر کی ترقی کو لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی شخصی حکمران جو عوام کو جوابدہ نہیں ہوتے کس ذمہ داری کے ساتھ حکومت کیا کرتے تھے ۔ آج کے حکمراں جو عوام کو جوابدہ ہیں ، کس طرح کی حکومت کررہے ہیں ۔ 2جون 2014ء آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک ایک ایسا دن ہے جب ملک کی29ویں ریاست کی حیثیت سے تلنگانہ کا قیام عمل میں آیا ۔ ٹی آر ایس(تلنگانہ راشٹرا سمیتی) کے صدر کے چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ کے پہلے چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لیا ،۔ وزراء کا انتخاب چیف منسٹر کا اختیار تمیزی ہوتا ہے ۔، وزارت میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان اور ایک دلت کو ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ دیتے ہوئے چندر شیکھر راؤ نے ان پر کی جانے والی تنقیدوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ پروٹوکال (سرکاری مراتب) کے عہدے دینے سے زیادہ انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا ان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

نئے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے حیدرآباد کی بلدی سہولتوں کا جائزہ لیا ۔ دور آسفجاہی میں شہر کے امور کی دیکھ بھال کے لئے محکمہ آرائش بلدہ ہوا کرتا تھا ۔ حیدرآباد ملک کے ان چند منتخب شہروں میں شامل ہے جہاں گزشتہ100سال سے زیر زمین ڈرینج نظام جاری ہے۔1908میں آئی بھیانک طغیانی کے بعد شہر کے لئے جو منصوبہ بندی کی گئی اس میں ڈرینج نظام(پانی کی نکاسی) کو اولین ترجیح دی گئی ۔ (زیر زمین ڈرینج نظام کے معمار علی نواز جنگ تھے) یہ نظام100سال سے اس شہر کی خدمت کررہا ہے۔ اب عوام ضرویات کی تکمیل کرسکتی ہیں ؟ تلنگانہ میں نئی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی اضلاع میں کسانوں کا احتجاج شروع ہوگیا۔ انتخابات میں ٹی آر ایس قیادت نے کسانوں کے قرضوں کی معافی کا وعدہ کیا تھا ۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد نئے چیف منسٹر نے کسانوں کے قرضوں کی معافی سے متعلق ایک پالیسیبیان دیا ۔ جس کے مطابق2013ء سے (صرف ایک سالہ مدت) جو کسان قرض لیے ہیں ایک لاکھ روپے کی حد تک ان کے قرضہ جات معاف کئے جائیں گے ۔ کسانوں کی اکثریت2009،2010سے مقروض ہے جب کہ ریاست میں علاقائی احتجاجات شروع ہوئے تھے۔ انتخابی وعدہ کرتے وقت ٹی آر ایس قیادت نے مدت کا تعین نہیں کیا تھا ۔ اقتدارپر آتے ہی مدت کے تعین کا اعلان کسانوں پر بجلی بن کر گرا۔ نئی ریاست جس نے ٹی آر ایس کو حکومت چلانے درکار عددی طاقت ہے ، اب اس ریاست کے کسان نئے چیف منسٹر کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں ۔ چیف منسٹر کے پتلے نذر آتش کئے جارہے ہیں۔ چند کسانوں نے خود کشی کی بھی کوشش کی۔ ایک دو کے فوت ہونے کی بھی اطلاع دی گئی ۔

حیدرآباد کس کے کنٹرول میں ہے ،اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں لگایا جاسکتا ہے ۔ حکومت بدل گئی ہے تاہم نظام حکومت کو بدلنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ تلنگانہ ریاست کے چیف منسٹر وزراء آندھرا پردیش (اے پی) کے نمبر والی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں۔ اس کے لئے تلنگانہ ریاست بن توگئی لیکن اس ریاست میں نظم و نسق چلانے کوئی قواعد نہیں بنائے گئے ۔ فی الوقت متحدہ آندھر ا پردیش کے قواعد سے استفادہ کیاجارہا ہے ۔ نئی ریاست کے قواعد کو مدون کرنے اور اس کو روبہ عمل لانے کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا ۔ تلنگانہ حکومت نے ریاستی اسمبلی کونسل کا افتتاحی ورسمی اجلاس طلب کرتے ہوئے ایک شروعات کیں ہیں۔ نو منتخب ارکان کی حلف برداری اور گورنر کے رسمی خطبے تک محدود اس مختصر مدتی اجلاس کے ذریعہ بر سر اقتدار ٹی آر ایس پارٹی اپنی عددی برتری کا ثبوت دے گی تاہم آنے والے دو سال اس کے لئے کٹھن ہوں گے چونکہ کونسل میں ٹی آر ایس کو اکثریت حاصل نہیں ، اسمبلی سے منظور قوانین کو کونسل لٹکادے سکتی ہے۔ کونسل میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی کا موقف رکھتی ہے اور یہ ایوان میں مسلمہ اپوزیشن ہے ۔ اسمبلی میں بھی کانگریس مسلمہ اپوزیشن ہے ۔، کانگریس مقننہ پارٹی کے قائد کے عہدے کی دوڑ کے جانا ریڈی نے جیت لی ۔، اسمبلی میں وہ قائد اپوزیشن کا مسلمہ موقف حاصل کریں گی۔ کونسل میں یہ موقف کانگریس کے ڈی سرینواس کو حاصل ہوگا ۔، کانگریس اقتدار میں رہے یا اپوزیشن عہدوں کی لڑائی میں کانگریس قائدین کوئی سمجھوتہ کرنے والے نہیں ۔ ڈی سرینواس جو حالیہ اسمبلی انتخابت میں بری شکست سے دوچار ہوئے تھے ، نے اپنی کونسل کی رکنیت کے سبب کونسل میں قائد اپوزیشن کے عہدہ کے لئے دوڑ دھوپ کی۔ کانگریس کے ایک سینئر قائدنے برسرعام یہ الزام لگایا کہ ڈی سرینواس نے اپنے حق میں فضا کو سازگار بنانے ان کی تائید کرنے والے ارکان کونسل کو فی کس10,10لاکھ روپے ادا کئے ہیں۔ کانگریس کو اگر اقتدار حاصل ہوجاتا تو یہ چیف منسٹری کی گدی حاصل کرنے کیا کیا گل کھلاتے ۔

تلنگانہ میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اب نظریں منقسم آندھرا پردیش پر لگی ہوئی ہیں ،۔ اس ریاست کے چیف منسٹر کی حیثیت سے صدر تلگو دیشم پارٹی این چندرابابو نائیڈو وگنٹور کے قریب ایک وسیع میدان میں حلف لینے والے ہیں۔اپنی اس تقریب کو یاد گار بنانے میں وہ کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑ رہے ہیں۔ ریاست سے علاقہ تلنگانہ کی علیحدگی کے بعد مابقی ریاست آندھرا پردیش کی مالی حالت ابتر ہوجائے گی ۔ نائیڈو ہی کے مطابق ملازمین سرکار کو تنخواہ ادا کرنے مالیہ نہیں ہے ۔ نئے آندھرا پردیش کی تعمیر کے لئے مرکز سے فراخدلانہ امدادی پیاکج کا مطالبہ کرنے والے نائیڈو نے10سال کے وقفہ کے بعد اقتدار پر اپنی واپسی کے جشن پر کافی رقم خرچ کررہے ہیں ۔ دہلی ، حیدرآباد ، بنگلور سے اہم شخصیتوں، صحافیوں کو مدعو کیا گیا ہے ۔ انہیں سفر خرچ ، قیام و طعام کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں ۔ گنٹور میں حلف لینے کے بعد ایک فاتح کی حیثیت سے وہ بحیثیت چیف منسٹر آندھرا پردیش حیدرآباد واپس ہوں گے ۔

موجودہ سکریٹریٹ کا نصف حصہ جسے ریاست آندھرا پردیش کے حوالے کیا گیا ہے میں نائیڈو کے استقبال کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں ۔ ریاست تقسیم ہوگئی سکریٹریٹ کے دو علیحدہ کئے گئے لیکن ان دونون حکومتوں کے پروگرامس سے میڈیا کو واقف کروانے والا شعبہ پبلسٹی سل ایک ہے۔ اس سل سے ایک پیام کبھی ریاست تلنگانہ کے وزراء کے بارے میں صحافیوں کو دیاجاتا ہے تو دوسرا پیام ریاست آندھرا پردیش کی سرگرمیوں سے متعلق ہوتا ہے ۔ایک طویل عرصہ سے مل کر رہنے کے بعد جدائی کتنی مشکل ہوتی ہے ۔ اس کا نظارہ سکریٹریٹ کے احاطہ میں کیاجاسکتا ہے ۔ حالانکہ نفرتوں کو پھیلا گیا غلط فہمیاں پیدا کی گئیں اور سیاسی اقتدار کے لئے عوامی جذبات کی سوداگری کی گئی۔ اب جب کہ دو حصہ الگ ہوچکے ہیں ایسے میں جو صورتحال پیدا ہوئی وہ انسانی جذبات کی عکاسی کرتی ہے ۔ سکریٹریٹ کے احاطہ میں دو شہہ سوار ہوں گے ۔ میان ایک ہوگی، دونوں بھی تلوار کے دھنی۔
آئی پی ایل کا سیزن تو ختم ہوگیا لیکن حیدرآباد کے سکریٹریٹ میں جو سیاسی و انتظامی آئی پی ایل شروع ہو گا وہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

One city two states, a new competition begins. Article: M.A.Majid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں