پیمانۂ زندگی میں ایماں بھر دے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-30

پیمانۂ زندگی میں ایماں بھر دے

Islam Empire of faith
رات کے پونے ایک بجے تھے جب پرانے شہر کے ایک مشہور دواخانے میں اچانک ایک آٹو میں ایک زخمی شخص کو لایا جاتا ہے۔ ایمرجنسی وارڈس کی ساری لائٹس کھول دی جاتی ہیں، اسٹریچر پر لٹاکر ایک شخص کو آٹو سے اندر لے جایا جاتا ہے۔ ڈاکٹرس پوچھتے ہیں کیا ہوا یہ شخص زخمی کیسے ہوا۔ زخمی شخص کو لانے والے لوگ کہتے ہیں کہ ارے بھائی انھوں کشن باغ سے رات میں واپس جارہے تھے کہ ان کو راستے میں روک کر زخمی کردیا گیا۔ (یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ اُس وقت کی بات ہے جب کشن باغ میں (3) مسلمان بی ایس ایف کی فائرنگ میں مارے گئے تھے اور علاقے میں کشیدگی عروج پر تھی) سب لوگوں نے اس بات پر یقین کرلیا۔ لیکن پرانے شہر حیدرآباد میں برسرکار ایک رپورٹر کے مطابق لوگوں نے تو فوری یقین کرلیا یہ دوسرے فرقے کے لوگوں کی کارستانی ہے مگر پولیس نے تحقیق کے بعد یہ راز کھولا کہ جن صاحب کو زخمی حالت میں دواخانہ لایا گیا تھا وہ کسی دوسرے فرقے کے محلے میں زخمی نہیں ہوئے بلکہ خود اُن کے رشتہ داروں نے اُنھیں جب آدھی رات کو ایک غیر عورت کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو مار مار کر زخمی کردیا اور پھر دواخانے سے رجوع کیا چونکہ خاندان میں محلے میں اور رشتہ داروں کے سامنے عزت کا سوال تھا تو یہ بہانہ تلاش کرلیا گیا کہ نام پوچھ کر حملہ ،کردیا گیا کی کہانی سنانا ہے تاکہ سب کے سامنے عزت بچی رہے۔ پھر چاہے اس طرح کی کہانی سُن کر دو فرقوں کے درمیان کتنی ہی غلط فہمیاں جنم لیں۔ اس مسئلہ پر جب ہم نے اپنے دوست رپورٹر سے مزید تفصیلات جاننی چاہی تو اُنھوں نے کہاکہ ارے جانے دو بھئی ایسی غلط شکایات تو آتی ہی رہتی ہیں ویسے پولیس ابھی مزید تحقیقات کررہی ہے تو کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہی ہوگا۔
اس واقعہ پر ابھی وقت کی گرد پڑی بھی نہیں تھی کہ 5 جون 2014 ء کو انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی کہ سعیدآباد کے ایک دینی مدرسہ کے باہر سے ایک 10 برس کے طالب علم کا نامعلوم افراد نے اغواء کرلیا۔ جبکہ اغواء کنندگان کے چنگل سے ایک اور طالب علم اپنے آپ کو آزاد کروالینے میں کامیاب ہوگیا۔ کیا انگریزی کیا اُردو شہر کے سبھی اخبارات اور ٹیلی ویژن چیانلس سبھی نے اس خبر کو جلی سرخیوں میں شائع کیا۔ ملک پیٹ پولیس کے انسپکٹر کے حوالے سے اگلے دن 6 جون کو یہ خبر شائع ہوئی کہ "Minor attacked for resisting sexual advances" اس سرخی کے تحت شائع خبر میں بتلایا گیا کہ دراصل سعیدآباد کے دینی مدرسہ کے طالب علم کو کسی نے اغواء نہیں کیا بلکہ مدرسہ کے ہی ایک دوسرے طالب علم نے اس کم عمر کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت کرنے پر اُس کو زخمی کرکے جھاڑیوں میں چھوڑ آیا اور اپنی صفائی میں یہ کہانی گھڑ لی کہ نامعلوم افراد نے ہم دونوں کا اغواء کرلیا تھا، میں تو کسی طرح بھاگ نکلا مگر دوسرے لڑکے کو وہ لوگ اُٹھاکر لے گئے۔ پہلے دن تو سب نے اس خبر پر یقین ہی کرلیا تھا اور ہم بھی اپنے تخیلات کے گھوڑے دوڑانے لگے کہ اُدھر بی جے پی کی حکومت بنی ہے اِدھر دینی مدارس کے طلباء کا اغواء ہونے لگا ہے۔ فرقہ پرستوں کے عزائم بے انتہا بڑھ گئے اور خاص کر سعیدآباد کا وہ علاقہ جوکہ فرقہ وارانہ طور پر حساس مانا جاتا ہے۔ وہاں سے اس طرح کی اطلاع کا آنا ابھی من پسند حضرات اور دینی مدارس کے ذمہ داروں کے لئے تشویش کا باعث تھا۔ لیکن 6 جون کو جو دوسری خبر شائع ہوئی اور جس میں قصوروار کوئی اور نہیں مدرسہ کے ہی دوسرے طالب علم کو بتلایا گیا تو ہماری آنکھیں نیچی ہوگئیں جوکہ کل تک دوسروں کو گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں اور اپنے دشمنوں کو دوسرے کی صفوں میں تلاش کر رہی تھیں اب ندامت اور شرمندگی کے احساس تلے جھکی ہوئی تھیں کہ اپنے ہندو برادران وطن ہوں یا دیگر مذاہب کے پیروکار اقلیتی گروپ ہم اُن کے بارے میں کتنے لاعلم ہیں اور اپنے دلوں میں اپنے دماغ میں اُن کے متعلق کتنی غلط فہمیوں کو پال رکھے ہیں کہ ایک (13) برس کا نو عمر لڑکا بھی اپنی شرارت اور اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے آسان طریقہ یہ سمجھتا ہے کہ میری غلط معلومات اور غلط فہمیوں بلکہ کم علمی کا فائدہ اُٹھالے اور غلط کام خود کرکے اُس کی ذمہ داری دوسروں کے سر منڈھ ڈالے۔
اب جبکہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ برکتوں، عبادتوں اور رحمتوں کے اس مہینے میں ہم سبھی کے لئے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ہم اپنا احتساب کرلیں۔ جی ہاں ہم میں سے ہر ایک خود اپنا جائزہ لے کہ سال بھر نہ سہی کم از کم رمضان المبارک کے دوران تو ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لے کر اُس میں سے خراب اعمال کو ترک کرنے کی کوشش کریں۔
مندرجہ بالا دو واقعات کا تجزیہ کرلیجئے دونوں میں جو چیز مشترک ہے وہ جھوٹ ہے۔ ہمارے بڑے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول کر اپنی ناکامیوں اپنی کوتاہیوں اور اپنے گناہوں پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے اور ہمارے بچے بھی اُسی جھوٹ کے سہارے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا کوئی ہے جو اس رمضان المبارک کے دوران عہد کرے کہ انشاء اللہ ہم نہ صرف اس ماہ مقدس کے دوران بلکہ اُس کے بعد بھی جھوٹ سے بچیں گے۔

ہمارے اُستاد محترم ڈاکٹر سلطان عمر صاحب مرحوم اگرچہ پولٹیکل سائنس کے لیکچرار تھے لیکن اپنے مضمون کی تعلیم کے ساتھ وہ ہمیشہ طلباء کی اخلاقی تربیت کے لئے فکرمندی کا اظہار کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انوارالعلوم ڈگری کالج ملے پلی میں بہت بڑے پیمانے پر جلسہ سیرت النبی ﷺ کا انعقاد عمل میں لایا گیا تھا جس میں علیگڑھ سے بھی ایک مہمان تشریف لائے تھے اور دیگر مقررین نے بھی بڑی جوشیلی بڑی جذباتی اور ایمانی جذبہ کو دوبالا کرنے والی تقاریر کیں اور جب ڈاکٹر سلطان عمر صاحب مرحوم مائیک پر آئے تو اُنھوں نے بہت ہی مختصر اور بہت ہی سادہ سی تقریر کی اور آخر میں طلباء سے عہد لیاکہ اگر وہ آج کے اس جلسے سے کچھ سیکھے ہیں اور سیرت النبی ﷺ سے اپنی زندگیوں کو آراستہ کرنا چاہتے ہیں تو کم سے کم اپنی اپنی طرف سے اس بات کا عہد کریں کہ آج کے بعد سے وہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ بظاہر چھوٹی سی بات تھی لیکن اپنے اندر بہت سارے اسباق لئے تھی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس ماہِ مقدس کو تجارت یا کاروبار کا مہینہ نہ بناکر اللہ رب العزت سے اپنے معاملات کو سدھاریں۔ اور کسی اور کی فکر نہ کریں اپنے گھر سے اپنے بچوں سے اپنے بھائی بہنوں سے کام شروع کریں اور یہ بات خود بھی سمجھیں اور اپنے گھر والوں کو بھی سمجھائیں کہ قرآن مجید صرف پڑھنے اور سننے کی کتاب نہیں بلکہ اُس کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور اُس پر عمل کرنا ہر مسلمان کا جتنا فرض ہے اتنا ہی فرض یہ بھی کہ سارے انسانوں تک اللہ کی اس کتاب کے پیغام کو پہنچایا جائے۔ کیا میں یہ کام کررہا ہوں، کیا رمضان المبارک کے دوران میری اپنی زندگی کے ٹائم ٹیبل میں کچھ تبدیلی آئی ہے؟
ہاں تبدیلی کے معنیٰ اگر یہ ہیں تو میں دیگر مہینوں کے مقابلے اس مہینے صبح جلدی بیدار ہوتا ہوں تاکہ سحری کرسکوں۔ اس کے بعد دن بھر مجھے کھانا نہیں کھانا ہوتا ہے لیکن میرے ذہن پر کھانا ہی سوار ہوتا ہے۔ دوپہر سے ہی ہماری خواتین چولھے میں مصروف ہوجاتی ہیں افطار کی تیاری میں۔ میں اپنے کاموں سے جلد فارغ ہوکر یہ پتہ کرنے میں مصروف ہوجاتا ہوں اس مرتبہ دہی بڑے کہاں کے لذیذ ہیں۔ کس ہوٹل میں ہریس اچھی ملتی ہے اور کہاں سے اگر میں میوہ خریدوں تو مجھے سستا ملتا ہے۔ پہلے دہے میں تین پارے تراویح میں پڑھ کر میں یہ سمجھنے لگتا ہوں کہ میں نے گویا رمضان المبارک کا حق ادا کردیا۔ عام دنوں میں میرے ٹی وی سیٹ پر تفریحی چیانل چلا کرتے تھے اب میں نے رمضان کے مہینے میں ٹی وی کو بھی ٹوپی پہنادی ہے اب صرف Q ٹی وی، پیس ٹی وی اور مدنی چیانل اور دیگر چیانلس کے مذہبی پروگرامس دیکھتا ہوں۔

کیا میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ دین سیکھ سکتا ہوں اور قرآن پاک کو سمجھ سکتا ہوں، بڑے بڑے مولوی صاحبان اس بات پر متفق ہیں کہ ٹیلی ویژن دین کے اُستاد کا رول نہیں نبھا سکتا ہے۔ آپ مسلمان ہیں تو مسلمان ہونے کا حق ادا کیجئے۔ قرآن کو چومنا تو ٹھیک ہے مگر قرآن کی اصل تعلیمات کو سیکھنا سمجھنا اصل ذمہ داری ہے۔ ہم مسلمان اپنی اصل ذمہ داری کو چھوڑ کر ضمنی باتوں میں مصروف ہوجائیں تو کامیابی کیسے ملے گی۔

ہم نے ہر طرح کے حالات میں بھی دوسری شادی کے معیوب اور خراب تر بنادیا نتیجہ یہ نکلا کہ مرد دوسری عورتوں کے ساتھ پکڑے جانے لگا۔ ہم نے اپنے بچوں کی دینی تربیت اور تعلیم دینی مدارس کے بھروسہ رکھ چھوڑی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دینی مدرسہ کو جاکر بھی بچے کی خراب عادتیں نہیں چھوٹ پائیں اور بچہ دینی مدرسہ جاکر وہاں کی اچھی باتیں گھر لانے کے بجائے گھر میں ٹی وی کے اثرات خراب بچوں کی صحبت میں اختیار کردہ عادتیں مدرسہ لے جانے لگا۔

یا الٰہی تو مجھے نیک توفیق دے۔ میری ہدایت کا سامان فرما اور مجھے سب کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والا بنا اور تو میرے لئے آسانیاں پیدا فرما اور صرف مجھے ہی نہیں ہر مسلمان کو ایسا بنادے جو اسلام کا سچا نمائندہ ہو اور چلتا پھرتا قرآن کا نمونہ بنے۔

نمونہ کی بات پر یاد آیا پچھلے دنوں پرانے شہر کے ایک نوجوان کو رنگ روڈ کے شادی خانے میں خواتین کے لباس کے ساتھ پکڑ لیا گیا۔ وہ نوجوان جو لڑکیوں کے لباس میں ملبوس تھا کسی طرح وہاں سے فرار ہوگیا۔ اُس کے چند دن بعد وہ اپنی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر پوسٹ کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ :
"پچھلے دنوں میں لڑکیوں کا لباس پہن کر ایک شادی خانہ میں ایک لڑکی سے ملنے گیا تھا میں کوئی ایسی گینگ سے تعلق نہیں رکھتا ہوں جو بچوں کو چُراتا ہے میرا تعلق ایک باعزت گھرانے سے ہے اور میں گریجویشن کررہا ہوں"
اب یہ کیسا زمانہ آگیا کہ ایک نوجوان کھلے عام تسلیم کررہا ہے ہاں میں شادی خانہ میں لڑکیوں کا لباس پہن کر اپنی ایک گرل فرینڈ سے ملنے گیا تھا ۔۔۔ اور میرا تعلق ایک شریف اور باعزت گھرانے سے ہے ۔۔۔

اب جبکہ رمضان ہمارے سروں پر ہے ہم کھانوں کی، شاپنگ کی، افطار کی دعوتوں کی فکر چھوڑیں اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت کی فکر کریں۔
شرافت کا کیا پیمانہ آگیا ہے لڑکے سر عام لڑکیوں کا لباس پہن کر لیڈیز سیکشن میں پکڑے جانے پر بھی شرمندہ نہیں۔ یا الٰہی تو ہماری اور ہمارے بچوں کی تربیت کا سامان فرما ۔ آمین

نادان کی ، ہوس کی جھیل میں غرق نہ کر
فرعون بنا کے نیل میں غرق نہ کر
ہر مسلم رسمی کو مسلماں کردے
پیمانہ زندگی میں ایماں بھردے

***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
مصطفیٰ علی سروری

The need of true faith in our lives. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں