اترپردیش حکومت رکن پارلیمان اسدالدین اویسی سے خوفزدہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-15

اترپردیش حکومت رکن پارلیمان اسدالدین اویسی سے خوفزدہ

حالیہ لوک سبھا کے الیکشن میں اتر پردیش سے ایک بھی مسلم ممبر پارلیمنٹ نہ منتخب کئے جانے پر سماج وادی پارٹی کے سپریمو ملائم سنگھ یادو چاہے جتنا رنج و افسوس کا اظہار کریں اور کسی مسلمان کو لوک سبھا کے مین پوری حلقہ انتخاب جہاں سے وہ خود جیت چکے ہیں اور انہوں نے مین پوری کی یہ سیٹ چھوڑ دی ہے ۔ چھ مہینے میں مین پوری میں ضمنی الیکشن ہوگا ۔ الیکشن لڑانے کی بات کریں لیکن عملاً ان کے بیٹے اکھلیش یادو حکومت کا رویہ مسلمانوں کے تئیں کوئی بہت زیادہ اچھا نہیں ہے ۔ اکھلیش یادو ریاست میں غیر سماجی وادی لیڈر شپ کو قطعی ابھرنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ اس کی بین مثال یہ ہے کہ یوپی میں مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی تنظیم مجلس اتحا د المسلمین کے اکابرین کو جلسے جلوس تک کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ ہندو وادی لیڈر جب چاہیں جس جگہ چاہیں چلے جائیں ان کی آمد و رفت پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔، پروین توگڑیا ، امیت شاہ سمیت تمام ہندو وادی لیڈر آزادی سے یوپی آجاسکتے ہیں لیکن مجلس اتحاد المسلمین کے لیڈر اسد الدین اویسی صاحب یوپی نہیں آسکتے ہیں ۔ اکھلیش یادو کے مجلس اتحاد المسلمین کے تئیں یہ عجیب و غریب رویہ رہا ہے یہ دوسرا موقع ہے کہ جب مجلس کے لیڈر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے یوپی کے سرائے میر اعظم گڑھ میں جلسہ کرنے کی اجازت مانگی جسے ضلع انتظامیہ ے نقص امن اندیشے میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی ۔

سراے میر تو اب ملائم سنگھ یادو کے حلقہ انتخاب اعظم گڑھ ضلع کا قصبہ ہے ، جس اعظم گڑھ نے ملائم سنگھ یادو جیسا مسلمانوں کا مسیحا ممبر پارلیمنٹ ہو اسی اعظم گڑھ میں مسلم لیڈر اسد الد ین اویسی کو آنے اور تقریر کرنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی اسد الدین اویسی نے جلسہ کرنے کی اجازت مانگی تھی جسے ریاستی حکومت نے ضلع انتظامیہ کی رپورٹ کی بنیاد پر اجازت دینے سے انکار کردیا تھا ۔ حالانکہ مسٹر اسد الدی اویسی سے خود ملائم سنگھ یادو بخوبی واقف ہیں، مسٹر اسد الدین اویسی مسلمانوں کے معاملات انتہائی بی جگری سے اٹھاتے رہتے ہیں ۔ اس وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت خاص طور پر جنوبی ہند کے مسلمن ان کو اپنا لیڈر مانتے ہیں ۔ مسٹر اویسی مسلمانوں کے معاملات میں کسی سے کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ پارلیمنٹ کے اندر جس انداز سے وہ تقاریر کرتے ہیں اس سے ملائم سنگھ یادو اچھی طرح واقف ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین کو یوپی میں پھیلنے نہ دینے، اسد الدین اویسی کو جلسے جلوس نہ کرنے دینے کے پیچھے سماج وادی پارٹی کی اپنی سیاست کارفرما ہے۔ سماج وادی پارٹی قطعی نہیں چاہتی ہے کہ یوپی میں سماج وادی پارٹی کے مسلم لیڈروں کے علاوہ کوئی مسلم لیڈر ابھر کر سامنے آئے جو ملائم سنگھ یادو کی رفیق الملک اور مسلمانوں کی مسیحائی کی قلعی کھول دے۔ اس خطرے کے پیس نظر سماج وادی پارٹی اسد الدین اویسی کو یوپی میں آنے نہیں دینا چاہتی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ایک بڑے مسلم لیڈر ملائم سنگھ یادو کی قیادت کا اعتراف کرکے انہیں رفیق الملک کا خطاب پہلے ہی دے چکے ہیں ۔ سماجوادی پارٹی کے مسلم لیڈروں کو خطرہ ہے کہ اگر اسد الدوین اویسی اور مجلس اتحاد المسلمین نے یوپی میں اپنے پنجے گاڑھ لئے ، تو پھر ان کی قیادت سماج وادی پارٹی میں ان کی حیثیت ختم ہوجائے گی ۔ اس وجہ سے ایسے لیڈروں نے اپنے سماج وادی پارٹی کے آقاؤں کو اسد الدین اویسی صاحب ، مجلس کے متعلق غلط مشورے دے رکھے ہیں ۔ مجلس اتحاد المسلمین کے اعظم گڑھ ضلع کے صدر حکیم جاہی نے سرائے میر میں ایک جلسہ12جون کو رکھا تھا ۔ اس جلسے میں اسد الدین اویسی صاحب کو آنا تھا۔ کلیم جامی نے اس جلسے کے لئے اعظم گڑھ ضلع انتظامیہ سے اجازت مانگی تھی لیکن ضلع انتظمایہ نے کلیم جاہی کی تحریری اجازت نامہ کی درخواست اس بنیاد پر مسترد کردی کہ اسد الدین اویسی صاحب اپنے مجوزہ خطاب میں بٹلہ ہاؤس فرضی تصادم جس میں اعظم گڑھ کے دو نوجوان عاطف امین اور ساجد مارے گئے تھے ، اٹھائیں گے ۔ اس کے علاوہ گودھرا واقعہ اور گجرات کے فسادات کا تذکرہ پوری شدت سے کریں گے جس سے ضلع کا امن و امان خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ حالانکہ اجازت نامہ نہ دیئے جانے کی یہ دلیلیں عذر لنگ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ اتر پردیش کے مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ آزادی کے 67برس بعد بھی ریاست میں کوئی نمائندہ مسلم سیاسی جماعت نہیں بن سکی جو مسلمانوں کے معاملات میں تمام سیاست دانوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے ۔ یوپی کے مسلمانوں کو سیاسی جماعتوں نے ووٹ بینک سے زیادہ کبھی اہمیت نہیں دی ۔ حالانکہ مظفر نگر کے فسادات’نریندر مودی کی پارٹی میں یوپی میں زبردست کامیابی کے بعد جس طرح سے مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ان کے ووٹ کی طاقت ختم کی گئی ہے اس کے بعد سے اب یوپی کے مسلمانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ا پنی کوئی مسلم سیاسی جماعت کیوں نہیں بنائی؟ لوک سبھا کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کی ذلت آمیز شکست کے بعد حکمراں سماجوادی پارٹی پرسے مسلمانوں کا بھوت ایک طرح سے اتر گیا ہے ابھی تک حکمراں سماج وادی پارٹی بات بے بات میں مسلمانوں کو ملوث کرتی رہی تھی ۔ ہر معاملے میں بغیر سوچے سمجھے مسلمانوں کی وکالت کرنے کا جو دوہرا کھیل کھیلا کرتی تھی ایک طرف مسلمانوں کی وکالت کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی دوسری طرف ہندوؤں کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے بینر تلے از خود ہی منتظم کرنے کا موقع دیاجارہا تھا ۔ اکھلیش یادو حکومت نے تو جیسے مسلمان مسلمان کی رٹ لگا رکھی تھی ، اکھلیش یادو نے اپنے ڈھائی برس کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو دیا کچھ نہیں ۔ بس خواہ مخواہ مسلمانوں کی وکالت کا ڈھنڈورا پیٹا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوک سبھا کا الیکشن ب یجے پی ، ہندو مسلم الیکشن بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔ الیکشن کے نتائج کے بعد اکھلیش یادو کو اس کا احساس ہوا کہ اب مسلمان مسلمان کی رٹ لگانے سے کام چلنے والا نہیں ہے اور مرکز میں نریندر مودی کی حکومت بننے کے بعد سے ہی خود اکھلیش حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے ۔، اس کااحساس خود وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو بھی ہے اور ملائم سنگھ یادو کو بھی ہے ۔ چنانچہ اب ملائم نے اکھلیش یادو کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی حکومت نریندر مودی کے گجرات ماڈل کے طور پر یعنی بہترین انتظامی حکومت عوام کو دیں۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لئے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ریاست کے انتظامیہ کو بقول شخصے کھنگال کر رکھ دیا ہے ۔ زیادہ تر اضلاع کے ضلع مجسٹریٹ کپتان پولیس وغیرہ کے تبادلے کردئیے ۔ یہاں تک کے ریاست کے سابق چیف سکریٹری جاوید عثمانی آئی اے ایس کو وزیر اعلیٰ نے چیف سکریٹری کے عہدے سے صرف ہٹایا ہی نہیں بلکہ انہیں تادم تحریر تک کوئی تعیناتی نہیں دی ہے ۔ وہ انتظامی فہرست میں ہیں۔ جاوید عثمانی آئی اے ایس کے تعلقات بی جے پی کے بڑے لیڈروں سے بے حد اچھے ہیں ۔ اس بنا پر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں وہ وزیر اعظم کے سکریٹریٹ میں سکریٹری کی حیثیت سے کام بھی کرچکے ہیں ۔2012 ء کے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کو غیر متوقع شاندار جیت کے بعد سماج وادی پارٹی جاوید عثمانی آئی اے ایس کو نئی دہلی سے واپس بلا کر لکھنو لائی اور وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے جاوید عثمانی کو چیف سکریٹری بنا کر مسلمانوں کو یہ تاثر دیا کہ سماجوادی پارٹی مسلمانوں، مسلم افسروں پر کس قدر بھروسہ کرتی ہے۔ سابقہ مایاوتی حکومت نے اس وقت کے سینئر آئی اے ایس افسر انیس انصاری کو محض اس ریاست کا چیف سکریٹری نہیں بنایا کیوں کہ وہ مسلمان تھے ۔، مایاوتی نے ان سے جونیر افسر کو چیف سکریٹری بنادیا۔ مایاوتی کے اس فعل سے مسلمانوں میں یہ پیغام گیا کہ اتر پردیش میں نہ تو کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ ، نائب وزیر اعلیٰ ہوسکتا ہے نہ کوئی چیف سکریٹری ، ڈائرکٹر جنرل پولیس۔ ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش یادو نے مسلمانوں میں سرخرو ہونے کے لئے جاوید عثمانی کو چیف سکریٹری بنادیا ۔ جاوید عثمانی مسلمانوں کے حق میں ہمیشہ بے فیض ثابت ہوئے ہیں ، لیکن چونکہ وہ مسلمان ہیں اس بنا پر اکھلیش یادو نے انہیں چیف سکریٹری بنادیا۔ آزادی کے67برس میں یہ دوسرا موقع تھا جب جاوید عثمانی کو چیف سکریٹری بنایا گیا۔ اس سے قبل سابقہ کانگریس حکومت کے زمانے میں محمود بٹ آئی اے ایس اس عہدہ پر تعینات کئے جاچکے تھے مگر جاوید عثمانی پر ملائم سنگھ یادو، اکھلیش یادو نے جس قدر بھروسہ کیا اتنی ہی گھٹیائی جاوید عثمانی نے ان لوگوں کے ساتھ کی اور لوک سبھا کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کا بیڑا غرق کرانے میں جاوید عثمانی کا بڑا ہاتھ رہا ۔ جاوید عثمانی نے چیف سکریٹری کی حیثیت سے ہمیشہ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو غلط مشورے دئیے ۔ اہم معاملات میں وزیر اعلیٰ کو صحیح رپورٹ نہیں دی ۔ حکومت کے ترقیاتی کاموں سے جاوید عثمانی عوام کو آخر تک واقف نہیں کراسکے ۔ یہ ہوا کہ ماتحت افسر بھی حکومت کو خاطر میں نہیں لانے لگے۔ ریاست میں ایک بدامنی کا ماحول پیدا ہوگیا تھا ۔ بدایوں میں دو کمسن لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی و قتل کے واقعہ کے بعد سے یوپی کی سیاست میں جو زبردست بھونچال آیا اس سے اکھلیش یادو حکومت ہل کر رہ گئی ۔ تب اکھلیش یادو کی بھی آنکھیں کھلیں ۔ انہوں نے فوری طور پر جاوید عثمانی کو چیف سکریٹری کے عہدے سے ہٹا دیا ۔ ان کی جگہ آلوک رنجن کو چیف سکریٹری بنادیا۔

UP Govt feared from MP Asaduddin Owaisi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں