اس ماہ مقدس کو شعبان اس لیے کہا جاتا ہے کہ رمضان کی آمد اوراستقبال کے موقع سے اس مہینے میں خیروبرکت ہرچہارجانب پھیلادی جاتی ہے۔۔۔"شعب"کے معنی ہیں "پھوٹنا"چونکہ خیروبرکت کا سرچشمہ اس مہینے میں پھوٹ پڑتا ہے۔۔۔اس مناسبت سے اس ماہ کا نام شعبان رکھا گیا۔
حضرت انسؓ سے ماہ شعبان کی وجہ تسمیہ کے تعلق سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ایک دفعہ اپنے اصحاب سے فرمایا:"کیا تمہیں پتہ ہے کہ ماہ شعبان کا نام شعبان کیوں پڑا؟"توصحابہ نے حسب معمول فرمایا:"اللہ اوراس کے رسول ﷺزیادہ جانتے ہیں"۔آپ ﷺنے فرمایا:"چونکہ ماہ رمضان کی آمد کے موقع سے ماہ شعبان ہی سے خیروبرکت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔"(الامالی للشجری،حدیث:1885)
ویسے تو شعبان کا سارامہینہ فضیلت وبرکت کا حامل ہے لیکن پندرہویں شب خصوصیت سے اہمیت وعظمت کی حامل ہے،اس امت محمدیہ پراللہ عزوجل کے بے پایاں احسانات وانعامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اس امت کو گرچہ دیگرامم کے مقابل کم عمرعنایت کی۔۔۔لیکن اس کی پابجائی اورتلافی یوں کی ہے کہ دعاؤں کی قبولیت کے حضوصی مواقع فضیلت واہمیت کے حامل راتیں،ایام ومہینے عطاکیے ہیں جس سے وہ مختصرسے وقت میں اپنے لیے بے شمارنیکیوں کا ذخیرہ کرسکتی ہیں۔۔۔انہیں دعاؤں اوراعمال کی قبولیت واجابت کی راتوں میں سے ایک شب برأت بھی ہے،علامہ قرطبی نے اس کے دیگرتین نام اورذکرکیے ہیں"لیلۃ المبارکہ"لیلۃ الصک" "لیلۃ القدر"۔ (تفسیرالقرطبی:16/127)
اس مبارک اورمحترم رات کا ذکرکتاب وسنت ہردومیں آیاہے،سورۂ دخان کی آیت نمبر3میں مذکور"لیلۃ مبارکہ"کی تفسیرحضرت عکرمہؓ نے"لیلۃ البراۃ"(شب برأت سے کی ہے۔(تفسیربغوی4/173)
لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ ابوالضحیٰ،ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں"اللہ عزوجل سارے فیصلے تونصف شعبان میں ہی فرمادیتے ہیں لیکن شب قدرمیں یہ فیصلے امورسے متعلق فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں۔(التفسیرالمظہری:8/368)
یوں تو اللہ عزوجل کی عطااوربخشش کا حال کیا پوچھنا۔۔۔یہ ہردم رواں رہتی ہے بس بندے کی تھوڑی سی توجہ اورالتفات کی طالب ہوتی ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھراپڑاہے،اس کے جودوسخااوردادودہش کے خزانے اگروہ سب کو دے تب بھی اس میں کمی نہیں آئے گی،یوں سمجھئے جیسے سمندرمیں کوئی انگلی ڈال کرباہرنکالے پھروہ دیکھے کہ اس کی انگلی میں سمندرکے پانی کا کتناحصہ ہوتا ہے۔
لیکن اس رات عطائے خداوندی اورنوازش ایزدی کا بھی عجیب حال ہوجاتا ہے جس میں خودخدائی دینے اورنچھاورکرنے پر آتی ہے۔۔۔اس رات مانگنے والے کا ہاتھ تو تھکسکتا ہے مگردینے والابغیرتھکاوٹ کے پوری فراخی اورکشادگی کے ساتھ دیتاجاتا ہے۔۔۔ ہرضرورت کی تکمیل کی جاتی ہے۔۔۔اس رات غروب آفتاب سے طلوع فجرتک مسلسل یہ ندالگائی جاتی ہے "آگاہ ہوجاؤ"کوئی ہے طلب گارِمغفرت۔۔۔کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ہے کوئی طلبِ رزق۔۔۔کہ میں اس کورزق عطاکروں۔۔۔ہے کوئی مبتلائے مصیبت۔۔۔کہ میں اس کوعافیت بخشوں؟اوراس طرح دیگرامورکی بابت فرماتے ہیں تاآنکہ صبح طلوع ہوجائے۔(ابن ماجہ،عن علی،باب ماجاء،فی لیلۃ النصف من شعبان،حدیث:1388)
اورایک روایت کے الفاظ ہیں کہ"ہے کوئی طلب گارتوبہ کہ اس کی توبہ کوشرف قبولیت بخشاجائے،ہے کوئی قرض دارکہ اس کی قرض کی ادائیگی کا سامان کیاجائے۔(الامالی للشجری،حدیث:1886)ان احادیث سے پتہ چلاکہ اس رات میں رحمت خداوندی بغیرکسی خصوص اورامتیازکے ہرشخص کی جانب متوجہ ہوتی ہے۔۔۔اس کی عطااورنوازش کا دروازہ ہرخاص وعام کے لیے کھلاہوتا ہے۔۔۔دعاؤں،آہ وزاری اورمتوجہ الی اللہ ہرشخص کواپنی ضروریات وحاجات اس عظیم داتاکے سامنے رکھناچاہیے جو آج عام دنوں کے مقابل غروب آفتاب ہی سے اپنی عطااورنوازش کے درکھولے ہواہے۔
رات میں عطائے خداوندی کا عمومی موقع ہوتا ہے،ہرشخص کوبلاامتیازاورخصوص کے عطاکیاجاتا ہے۔۔۔اسی طرح ہرشخص کی عام مغفرت کا بھی اعلان ہوتا ہے۔۔۔اس مبارک ومسعودگھڑی اورموقع کی مناسبت سے ہرشخص کوتوبہ واستغفاردعاء ومناجات کے ذریعہ اپنے گناہوں کے بخشوانے اوراپنی مغفرت کاسامان کرناچاہیے۔۔۔حضوراکرم ﷺنے اس عام معافی اوربخشش کومثال کے ذریعے یوں سمجھایا کہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کی مقدارمیں لوگوں کی بخشش ہوتی ہے۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:"پندرہویں شعبان کو اللہ عزوجل آسمان دنیامیں نزول فرماتے ہیں اوربنوکلب کی بھیڑوں کے بالوں کی تعدادمیں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔(ترمذی،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان:حدیث739)
بنوکلب کی بھیڑوں اوربکریوں کا حضوصیت کے ساتھ ذکراس لیے فرمایا کہ عرب میں اس قبیلے سے بڑھ کرکسی کے ہاں بکریاں نہیں تھیں۔
عمومی عطااوربخشش کے موقع سے اگرکوئی محروم ہوجائے تو اس سے بڑامحروم کوئی نہیں ہوسکتا۔۔۔جس موقع سے بغیرکسی اورامیتازکے ہرشخص کودیاجارہا ہے اوربے پناہ اوربے پایاں دیاجارہا ہے۔۔۔مجرموں اوربدمعاشوں کے لیے پروانہ خلاصی اورچھٹکاراعطاکیاجارہا ہے۔۔۔اس موقع سے معددودے چندلوگوں کو ان کے مخصوص اعمال بداورخاص مجرمانہ پس منظرکی وجہ سے اس عمومی عطااورمغفرت اوربخشش کے موقع سے استفادہ سے مستثنیٰ کیاگیا تو ان کی ذلت اوررسوائی کا کیا کہنا؟۔۔۔
یہی کچھ صورتِ حال شب برأت کو سب سے بڑے داتااورسب سے بڑے بخشنے والے کی جانب سے چندایک محروم القسمت ۔۔۔۔۔۔بدقماشوں کبائرکے مرتکب اورحدوداللہ کے پھاندنے والوں کی ہوتی ہے۔۔۔جو اس عمومی عطااورمغفرت کی رات میں بھی خالی اورتہی دامن ہوتے ہیں۔۔۔ان میں مختلف روایتوں کے بموجب یہ ہیں:۔ (1)مشرک (2)کینہ پرور(3)چغل خور(4)زانی (5)والدین کا نافرمان (6)سودکھانے والا(7) شرابی (8)کاہن (9)ذخیرہ اندوزی کرنے والا۔
(شعب الایمان،باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان،حدیث355،فضائل الاوقات بیہقی،حدیث 27)
اس رات کی خصوصیت یہ ہے کہ اس رات میں سال بھر کے فیصلے طئے کردیے جاتے ہیں۔۔۔لوگوں کے رزق،موت وحیات،غناوفقر،عزت وذلت اورحاجیوں کی تعدادوغیرہ سارے امورطئے ہوتے ہیں پھر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔
حضرت عکرمہؓ ،ابن عباسؓ سے اللہ عزوجل کے ارشاد"فیھایفرق کل امرحکیم"کے متعلق فرماتے ہیں:"اس میں ہرمحکمہ معاملے سے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے" (الدخان:4)کہ اس سے مرادپندرہویں شعبان کی شب ہے۔۔۔اس میں اللہ عزوجل پورے سال کے معاملات طئے کرتے ہیں،زندگی اور موت کے فیصلے کیے جاتے ہیں،حجاج کرام کی فہرست تیارکی جاتی ہے۔۔۔اس میں پھر کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔(الامالی للشجری،فضل الیلۃ النصف من شعبان،حدیث 1878)
حضرت عائشہؓ نے نبی کریم ﷺسے دریافت کیاکہ"ائے اللہ کے رسول ﷺ!آپ شعبان میں بکثرت روزے کیوں رکھاکرتے ہیں؟آپ ﷺنے فرمایا:"یہ مہینہ مرنے والوں،جن کی روحیں قبض کی جائیں گی،ان کی فہرست کی تیاری کا مہینہ ہوتاہے،میں چاہتاہوں کہ میرانام اس فہرست میں روزے کی حالت میں لکھاجائے۔ (الامالی:حدیث:198)
ابن ابی الدنیانے عطاء بن یسارؒ سے نقل کیا ہے کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتی ہے تومرنے والوں کی فہرست ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے اور اس سے یہ کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے نام اس فہرست میں درج ہیں ان کی روحیں قبض کرلی جائیں،بندہ نکاح کرتا ہوتا ہے۔۔۔گھر بناتاہوتا ہے۔۔۔اس کی تزئین وآرائش کرتا ہوتا ہے اوراس کانام مردوں کی فہرست میں درج ہوچکاہوتاہے۔۔۔ اس لیے پورے شعبان کے مہینے اورخصوصاًپندرہویں شب کو عبادت اوراذکار،تلاوت قرآن میں گذارناچاہیے۔۔۔تاکہ جس وقت ہمارے تعلق سے فیصلے کیے جارہے ہوں تو ہم اللہ کی عبادت اوراطاعت میں مصروف ہوں۔
اس رات کے خصوصی اعمال میں سے اس رات کی عبادت بھی ہے۔۔۔نبی کریم ﷺبھی اس رات کوعبادت میں گذارتے تھے۔۔۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺنے اس رات اس قدرلمباسجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہواکہ کہیں آپ ﷺکی روح توقبض نہیں ہوگئی پھر جب میں نے آپ ﷺکے پیروں پر ہاتھ رکھاتو مجھے آپ ﷺکی زندگی اورحیات کا یقین ہوااورمجھے خوشی ہوئی۔
خودحضور اکرم ﷺکا اس رات میں اس کثرت سے عبادت کامعمول تھا۔۔۔آپ ﷺنے اپنی امت کوبھی اس رات کو عبادت کی تلقین کی ہے۔۔۔حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:"جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو اس رات کو عبادت میں گزارو۔"
عبادت کی ایک شکل دعاء بھی ہے بلکہ دعاء عبادت کا مغزہے۔۔۔اس لئے اس شب میں خصوصاً دعاؤں کا خوب اہتمام ہو۔۔۔اپنی ضروریات اورحاجات کوبارگاہِ خداوندی میں پیش کرکے ان کی تکمیل کی جائے۔۔۔کشادگی رزق۔۔۔عافیت ومغفرت کی دعائیں کی جائیں۔۔۔اس رات میں رحمت خداوندی خوب جوش میں ہوتی ہے اوردعائیں خوب مقبول ہوتی ہیں۔۔۔خودحضوراکرم ﷺبھی اس شب کو سجدے کی حالت میں یہ دعاء مانگا کرتے تھے:"ائے اللہ!آپ کی سزااورکی عفوکی پناہ چاہتا ہوں۔۔۔آپ کی ناراضگی سے آپ کی رضاکی پناہ چاہتا ہوں۔۔۔اورآپ سے آپ ہی کی پنا ہ چاہتا ہوں۔۔۔آپ ذات بڑی بزرگی والی ہے۔۔۔ائے اللہ !آپ کی تعریف کا احاطہ اورشمارنہیں کیا جاسکتا۔۔۔آپ کی شان وہیہے جو آپ نے خودبیان فرمایا"۔(شعب الایمان:363)بیہقی کہتے ہیں کہ اسکی سندضعیف ہے مگریہ روایت کئی ایک طرف سے مروی ہے۔
صاحب مراقی الفلاح کہتے ہیں پندرہویں شب کا جاگنامستحب ہے چونکہ یہ رات بہت سارے فضائل ومناقب والی رات ہے،اس میں قیام کا مطلب یہ ہے کہ رات کا بیشترحصہ طاعات،عبادات ،واذکار،قرأت قرآن،تسبیحات،درودوغیرہ پڑھنے میں گذاراجائے۔۔۔اس لیے اس رات میں بغیرکسی اہتمام کے انفرادی طوپر اپنے گھر یا مسجد میں عبادت کی جائے۔
بیہقی کی اس روایت میں حضوراکرم ﷺکا قبرستان جانااورحضرت عائشہؓ کاآپ کی تلاش میں قبرستان پہنچنااورآپ کووہاں مرحومین اورشہداء کے لیے دعائے مغفرت میں مصروف پانااس سے پتہ چلتاہے کہ اس رات میں بغیرکسی خاص اہتمام کے زیارت قبورافضل ہے۔(الفتاویٰ الہندیہ:5/27)
آپ ﷺکا معمول شعبان میں روزہ رکھنے کا تھااورآپ ﷺنے اس ماہ میں روزہ رکھنے کی تلقین کی ہے لیکن آپ ﷺنے پندرہویں شعبان کے روزے کی صراحت کی ہے چنانچہ حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاجب شعبان کی پندرہویں شب ہوتورات میں عبادت کرواورصبح کوروزہ رکھو۔۔۔
اس روایت کے بموجب اس تاریخ کوخصوصیت سے روزہ کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔۔۔البتہ یوں کہاجائے کہ اس کے ساتھ تیرہ اورچودہ کا بھی روزہ رکھ لیاجائے کہ یہ ایام بیض ہیں۔۔۔اس طرح ایام بیض کے روزوں کی سنت بھی حاصل ہوجائے گی۔
مجموعی روایات سے پتہ چلاکہ ماہ شعبان خصوصاً اس کی پندرہویں شب،فضیلت واہمیت کی حامل ہے۔۔۔شب برأت کوبے بنیادکہنایہ خودبے بنیادبات ہے۔
مولاناعبدالرحمٰن مبارک پوری شب برأت سے متعلق مجموعی روایات کے ذکرکے بعدفرماتے ہیں۔۔۔یہ احادیث مجموعی اعتبارسے ان لوگوں کے خلاف حجت ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ پندرہویں شعبان کی فضیلت کے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں۔۔۔اورمولاناالبانی فرماتے ہیں جن لوگوں نے یہ کہاہے کہ پندرہویں شعبان کی رات سے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں،ان پر اعتمادنہیں کرناچاہیے۔۔۔اگرکسی نے یہ بات کہی ہے تووہ جلدبازی کا نتیجہ ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الصحےۃ3/228)
جہاں بھی کوئی کارخیرانجام پاتا ہے تو شیطان کو بھلانہیں لگتا،وہ وہاں اپنا حصہ بھی ضرورلگاناچاہتا ہے اورچونکہ بدعات ورسومات کوآدمی عبادت سمجھ کرکرتا ہے،اسلئے اس راہ میں اس کو انسان پر قابوپانے کا خوب موقع ملتا ہے۔
جہاں بدعات درآتی ہیں وہاں حقائق پس پردہ چلے جاتے ہیں،اس رات میں بڑوں کی عیدکے نام سے عورتیں بجائے عبادتوں کے حلوے کے علاوہ انواع اقسام کے کھانوں کی تیاری میں نظرآتی ہیں،لڑکے شب بیداری اورجاگنے کے نام پر سڑکوں پر مٹرگشتی،لہوولعب،آتش بازی،مزاح ومذاق اورگپ شپ میں مصروف نظرآتے ہیں اور طرہ یہ کہ وہ اسی کوشب بیداری باورکرتے ہیں،اللہ عزوجل ہمیں اس شب کی قدردانی کی توفیق عطافرمائیے۔۔۔(آمین)
***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی |
The virtues of Shab-e-Barat. Article: Mufti Rafiuddin Haneef Qasmi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں