ساگر سرحدی - اردو کے مستقبل کے لئے فکر مند اردو کا سپاہی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-09

ساگر سرحدی - اردو کے مستقبل کے لئے فکر مند اردو کا سپاہی

sagar-sarhadi
ساگر سرحدی ، ایک ایسے فرد کا نام ہے جو ایک خاموش طبیعت انسان ہی نہیں بلکہ شوبز کے جال میں نہ پھنسنے والے ایسے آدمی ہیں جو سچائی کو کہہ ڈالنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ وہ ایک ایسے نامور قلمکار ہیں جنہوں نے تقریباً 15 فلموں کے اسکرین پلے اور ڈائیلاگ لکھے ہیں جن میں کبھی کبھی ، سلسلہ، چاندنی اور کہو نا پیار ہے شامل ہیں اور وہ بازار جیسی شاہکار فلم کے تخلیق کار بھی ہیں۔
ساگر سرحدی ایک سادہ زندگی گزارتے ہیں جو کہ ہمیں ممبئی کی لوکل ٹرینوں اور بسوں میں نظر آتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک خوبصورت فینسی کار یا کشادہ فلیٹ نہ خرید سکتے ہوں بلکہ ان کاکہنا ہے کہ :
"میں عام زمین سے جڑا آدمی ہوں اور حقیقت میں جینا چاہتا ہوں"
ساگر سرحدی کی فلموں میں ایسے نوجوانون کو پیش کیا جاتا ہے جو خواب دیکھتے ہیں اور انہیں پورا کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے ۔ اپنی باتوں کے ذریعے وہ لوگوں کے اندر تک، ان کی روح میں جھانکنا چاہتے ہیں تاکہ سچائی کو اجاگر کریں ۔
ایک بیچلر ہونے کے باوجود رومانس بھری کہانیاں تحریر کرنے کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ :
"میں نے شادی نہیں کی ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں نے کسی عورت سے عشق نہیں کیا تھا"۔
ساگر سرحدی خواتین کی عزت و احترام کرتے ہیں اور اس کی جھلک ان کی فلموں میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی والدہ کی موت کے بعد ان کی بڑی بھابھی نے ان کی دیکھ بھال کی تھی۔ ۔ساگر سرحدی کے مطابق آج کی فلموں میں تقریباً ہر کہانی اسٹار پر مرکوز ہوتی ہے اور فلمسازوں کو کوئی اہمیت نہیں حاصل نہیں ہے بلکہ فلمساز اسٹار ارد گرد چکر لگانے پر مجبور ہے ۔
ساگر سرحدی نے "بازار" کی شکل میں ایک بہترین فلم دی ہے، لیکن ان کے خیالات اور نظریات کو فلمی دنیا کا ایک طبقہ پسند نہیں کرتا ہے مگر ساگر سرحدی کہتے ہیں کہ انہیں اس ناپسندیدگی کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔
گرو تیغ بہادر نگر اسٹیشن اور اندھیری کے درمیان وہ روزانہ سفر کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کار میں سفر کے بجائے اس عوامی ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے سے انہیں لوگوں کو دیکھنے ، بات کرنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ یہیں سے وہ کہانی حاصل کرتے ہیں اور عام آدمی اور عام افراد کی کہانیاں لکھتے ہیں۔

ساگر سرحدی کا تعلق ایبٹ آباد میں بافا(پاکستان) سے ہے جو کہ علاقہ "سرحد" میں واقع ہے، اس لئے انہوں نے قلمی نام "سرحدی" رکھ لیا حالانکہ ان کی خاندانی کنیت "تلوار" ہے۔ ملک کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان دلی چلا آیا اور بعد میں اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ وہ بمبئی چلے آئے ۔
ساگر سرحدی آج بھی سردار نگر سائن کوالی واڑہ کے پنجابی کیمپ میں رہائش پذیر ہیں جو انہیں حکومت نے الاٹ کیا تھا۔ ساگر صاحب اور یش چوپڑہ کے درمیان بہت اچھی ذہنی مطابقت تھی۔ اس کے علاوہ راکیش روشن کے لئے بھی انہوں نے کام کیا ۔ ساگر سرحدی کے ایک قول کے مطابق :
"دل میں جو درد رہتا ہے ، اس کی وجہ سے ایک بامعنی تحریر نکلتی ہے اور وہ ادب کا شاہکار کہا جا سکتا ہے"۔

آج ساگر سرحدی اردو افسانہ اور ڈرامہ کے ایک نامور قلمکار ہیں، لیکن باندرہ ریلوے اسٹیشن پر اندھیری ٹرین کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ :
"اردو ادب میں پہلے پیسہ نہیں تھا جس کے سبب مجھے اسٹیج اور فلموں کا رخ کرنا پڑا"۔
ان کے ڈرامے "بھگت سنگھ کی واپسی"، "خیال کی دستک"، "راج دربار" اور"تنہائی" ناقابل فراموش ڈرامے مانے جاتے ہیں۔ تنقید نگاروں کے ساتھ عام لوگوں نے بھی انہیں کافی پسند کیا۔
اردو زبان کے مستقبل کے متعلق ساگر سرحدی کافی فکر مند ہیں اور کہتے ہیں کہ : "اردو کو بچایا جانا چاہئے ، اس زبان میں علم و ادب کا کافی ذخیرہ ہے مگر مجھے اس زبان کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے" ۔

Sagar Sarhadi, a loyal stalwart of Urdu

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں