تبصرہ کتاب - راہ طلب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-08

تبصرہ کتاب - راہ طلب

Raah-e-Talab-by-Haleem-Babar
کتاب: راہِ طلب
شاعر: حلیم بابر
مبصر :ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

ضلع محبوب نگر علاقہ تلنگانہ کا ایک پسماندہ ضلع ہے لیکن اردو زبان و ادب کے فروغ اور تصوف کے اعتبار سے زرخیز علاقہ کہا جاسکتا ہے۔صوفی غلام محمد صاحب نے یہاں تبلیغ اسلام کے ضمن میں اہم کام کیا اور اب ان کے بیٹے تصوف کو عام کر رہے ہیں۔1930ء کے دہے سے یہاں ادبی ماحول کے فروغ میں 'انجمن اصلاح معاشرہ' نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز احمد اللہ المسدوسی،سالم مسدوسی،سید امیر الدین قادری و دیگر کی سر پرستی میں عمل میں لایا تھا۔بقول سید نصیر الدین احمد"یہ شہر محبوب نگر کی سب سے پہلی ادبی ومعاشرتی تنظیم کہلائی جاسکتی ہے۔یہا ں پر کم و بیش 25سال تک ریاست حیدرآباد کے استاد شاعر حضرت ڈاکٹر علی احمد جلیلی قیام پذیر رہے اور درس وتدریسی خدمات انجام دی ساتھ ہی یہا ں کے ادبی ماحول کو پروان چڑھانے اور ادبی ماحول بنائے رکھنے میں میں اپنا بیش قیمتی تعاون روا رکھا جس کے باعث آج بھی یہاں ادب کے متوالوں کا ذوق سفر جاری و ساری ہے۔یہاں کی ادبی ا نجمنوں کے روح رواں جناب حلیم بابر ہیں جو بیک وقت متعدد انجمنوں سے وابستہ ہیں محبوب نگر میں ادبی ماحول کو بنائے رکھنے میں متحرکِ عمل ہیں۔ مختلف شعری و ادبی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ادبی مسائل پر اخبارات میں مراسلے اور مضامین لکھتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو فعال رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک شعری مجموعہ "راہِ طلب" پورے آب وتاب کے ساتھ اردو اکیڈمی آندھراپردیش کے جزوی مالی تعاون سے منظر عام پر آیا ہے۔
"راہِ طلب" حلیم بابر صاحب کی پانچویں تصنیف ہے اس قبل انکی چار تصانیف"وابستگی"،"کہکشاں در کہکشاں"،"رودادِدل"اور خوشبوئے عقیدت(نعتیہ شعری مجموعہ)" منظر عام پر آچکے ہیں۔راہ طلب ان کی پانچویں تصنیف ہے جس میں دو حمد،21نعتیں،22منقبت و نظمیں( جومختلف شخصیات پر لکھی گئی ہیں )اور94غزلیں شامل کی گئی ہیں۔اس کتاب کا انتساب مصنف نے خود اپنے ہی شعری ذوق کے نام معنون کیا ہے۔پیش لفظ کے طور پر"شعر وادب کادلدادہ۔حلیم بابر" کے عنوان سے استاد ومعرو ف شاعرظہیر ناصری نے رقم کیا ہے اور حلیم بابر اور ان کے فنِ شعاعری سے متعلق لکھا ہے۔ "حلیم بابر کی شاعری بھی اپنے استادِمحترم(ڈاکٹرعلی احمد جلیلی)کی طرح سلیس زبان اور متین لہجے کی ہے نعرہ بازی اور عصری مسائل پر انگیختہ کرنے والے مضامین سے گریز کرتے ہیں۔جہاں تک ہوسکے جمالیات پہلوکا خیال رکھتے ہیں۔آپ کا ترنم بھی بڑا دلسوز اور دلکش ہے۔اس محبت بھرے شاعر کا جہاں تک مجھے علم ہے کوئی دشمن نہیں ہے"ص6,
واقعی حلیم بابر بہت مخلص اور ادبی جنون والی شخصیت کا نام ہے۔جنکی مہمان نوازی کا ہر کوئی دلدادہ ہے۔زیر تبصرہ کتاب میں تقریظ کے طور پر شامل ایک مضمون"حلیم بابر۔اردو کا سچا خادم"کے عنوان پرصادق علی فریدی موظف تحصلیدارو سابق صدر بزم سخن محبوب نگرنے لکھا ہے۔انہوں نے حلیم بابر کی خوبیوں سے متعلق رقمطراز ہیں۔
"وہ ایک اچھے شاعر ہونے کے علاوہ بہترین نثر نگار بھی ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی اخبار میں انکے مراسلے شائع ہوتے ہیں جن میں وہ سماج کے ایسے سلگتے مسائل کو اس عمدگی سے پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا،انکی مہمان نوازی مثالی ہے اور انھیں دوسروں کو دوست بنانے کا ہنر خوب آتاہے"
حلیم بابر جن ادبی انجمنوں سے منسلک ہیں ان میں بزم کہکشاں ،انجمن ترقی اردو،مولانا آزاد ایجوکشنل سوسائٹی،عابد علی خان اکیڈیمی محبوب نگراور

مکتبہ شاداب،بزم علم وادب حیدرآباد شامل ہیں۔اور وہ مختلف ادبی محفلوں میں نہ صرف کلام سناتے ہیں بلکہ پروگرام کے انعقاد میں سرگرم و منہمک رہتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب میں مقدمہ کے طور پر ایک اہم مضمون نادرالمسدوسی صدر بزم ادب حیدرآبادنے لکھا ہے اورحلیم بابر کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ۔"ان کی شاعری میں جدید میلانات اور ترقی پسند رحجانات کے اثرات نہیں دیکھائی دیتے۔البتہ یہ ضروری ہے کہ ان کے اشعار عصری حسیت سے میمز ہے ان کی ماحول اور حالات پر گہری نظر ہے یہی وجہہ ہے کہ ان کی غزلیات میں مجروح انسانیت زندگی کا درد،افسردہ اور مضطرب انسانوں کے آنسوؤں کی نمی،مجبوروبے بس افراد کی آہ و کرب کی حرارت و کیفیت نمایاں دکھائی دیتی ہے" ص12
"راہ طلب" کا آغاز حمد سے ہوتا ہے۔اس مجموعہ میں دو حمدیں شامل کی گئی ہے۔جس میں حلیم بابر نے خداِ واحد رب العزت کی تعریف ان اشعار میں بیان کی ہے۔
یارب ہزار شکر کہ مجھ ملا ہے تو
ممدوح تو مرا ، مری فکر رسا ہے تو
ٹوٹے ہوئے دلوں کی الہی صدا ہے تو
ہر مشکلِ حیات میں اک آسرا ہے تو

حلیم بابر بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔لیکن نعتیہ کلام کی طرف بھی بہت زیادہ مائل ہیں اور حصول ثواب کی خاطر حمد، نعت و منقبت بھی کہتے ہیں۔ان کلام میں تصوف کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔زیر تبصرہ تصنیف میں حمد کے بعد جملہ 21نعتیں شامل کی گئی ہے ۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نعت لکھنا اور پڑھنا جناب حلیم بابر کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اجر وثواب کا ذریعہ بھی اکثر حیدرآباد ومحبوب نگر کے مشاعروں کے آغاز میں ان کو نعت شریف سنانے کی سعادت نصیب ہوتی ہیں۔وہ گہرائی میں ڈوب کر نعت پڑھتے ہیں اور اپنے حسن کلام و ترنم سے مشاعرہ کاسماع باندھتے ہیں۔ان کے نعت کے اشعارملاحظ ہوں۔
عطاے محمد سدا چاہتا ہوں
میں اس سے سوا اور کیا چاہتا ہوں
سنبھلنا ذرا اے نگاہِ عقیدت
میں دیدارِخیر الورایٰ چاہتا ہوں
مدینہ کو جانا مدینہ سے آنا
یہی اک عمل سدا چاہتا ہوں

حلیم بابر صوفی منش،قلندر صفت،اور نبیﷺکے سچے عاشق ہیں۔پورے احترام و عقیدت سے نعت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔اور غز ل کے معاملے میں کلاسیکیت کے نمائندہ شاعر ہیں۔ان کا غزل میں اسلوب بیان شگفتہ اورسہل ممتنع کی طرف مائل نظر آتا ہے۔انکی غزلوں میں انسانی و اخلاقی قدروں،حسن وجمال،زندگی کا درد،محبت ونشاط کی باتیں،خوشی وغم کا اظہار،دوستی و دشمنی کے مناظر کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ ان کی غزل کے اشعار جس میں درد کا اظہار نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ دیکھیں۔
جب کیف و طرب کی باتیں ہوں تب درد کا شکوہ کون کرے
جب پھول بچھے ہوں راہوں میں کانٹوں کا نظارہ کون کرے
مدت سے زمانے نے جسکو اک کرب مسلسل بخشا ہو
اب اس پہ ستم پھر ڈھانے کا اے دوست ارادہ کون کرے
حلیم بابر کا محبوب نگر اور حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ رہا ہے۔انکا کلام اردو کے مختلف اخبارات ورسائل میں مسلسل شائع ہوتا ہے۔مجاہد اردو جناب حلیم بابر ہر آئے دن سماجی مسائل اور اردوکے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف مسلسل اخبارات میں مراسلوں کے ذریعہ شعور کی بیدار ی کاکام بھی اچھی طرح انجام دیتے ہیں وہ ایک اچھے نثر نگار بھی ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب میں شہر حیدر آباد سے اپنے تعلق اور محبت کے اظہار کے طور پر انہوں نے اس شہر سے اپنی عقیدت کا اظہار 'غزل'شہر حیدرآباد" کے عنوان سے کیا۔ اس کے اشعار ملاحظہ ہو۔
جب کبھی تیری محبت کا خیال آتا ہے
میری نظروں میں ترا نقشِ جمال آتا ہے
حیدر آباد ترے پیار میں مستی ہے خلوص
تورہے شاد سدا دل میں خیال آتا ہے
حیدر آباد کی یادوں میں بکھر جانے دو
دل میں بس اسکی محبت کو اتر جانے دو
چار سو سالہ تقاریب مبارک تجھکو
قومی یکجہتی کے جذبہ کو ابھرجانے دو
حلیم بابر کے کلام میں نئی ترکیبں ساتھ ہی جدید قدریں بھی نظر آتی ہیں انکی بیشتر غزلوں میں درد و غم،خوشی و مسرت اور عشق ومحبت کی باتیں نئے انداز سے ملتی ہیں زندگی کے مسائل کو عمدگی سے اپنی غزلوں میں پیش کرتے ہیں اپنے خیالات کا اظہار سنجیدگی اور متانت سے کرتے ہیں۔
زیر نظر شعری مجموعہ میں حلیم بابر نے ایک غزل"نذر عابد علی خاں مرحوم" کے عنوان سے لکھی ہیں۔عابد علی خاں سے انھیں بہت زیادہ عقیدت تھی۔ انکے انتقال کے بعد1994کو انہوں نے محبوب نگر میں اپنے رفقاء کے ساتھ ملکرانکے نام سے عابد علی خان میموریل اکیڈیمی قائم کی جو آج بھی علمی و ادبی سرگرمیاں انجام دئے رہی ہے۔اس غزل کے چنداشعار دیکھیں۔
اردو کی آن بان تھا وہ پاسباں تھا
تہذیب کا سماج کا دفتر چلا گیا
بس اس کے کارناموں کو اتنا ہی جانئے
خوابیدہ نسل کو وہ جگا کر چلا گیا
بابرؔ کے لب پہ بس یہی عابد کی بات
انسانیت خلوص کا پیکر چلاگیا۔

بہر حال جناب حلیم بابر نے اس شعری مجموعہ"راہ طلب " میں اپنے غزلوں کو بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ انکی شاعری کو سمجھنے کیلئے یہ کتاب بہت زیاد ہ مفید ثابت ہوگی۔ امید کے اردو کے حلقوں میں اس شعری مجموعہ کوبہت زیادہ پسندکیا جائیگا۔اور اس کی خو ب پذیرائی کی جائیگی۔
خوب صورت ملٹی کلر ٹائٹل ،200صفحات پر مشتمل حسین غزلوں کے اس مجموعہ کی قیمت250روپیئے رکھی گئی ہے ۔کتاب ملنے کا پتہ :
بمکان شاعر نیو ٹاون محبوب نگرفون نمبر 9966937454 یا حیدرآباد میں دفتر بزمعلم وادب مسدوسی ہاوز مغل پوہ حیدرآباد۔

***
ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزل لطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on book 'Raah-e-Talab' by Haleem Babar. Reviewer: Dr. M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں