عام آدمی پارٹی - ناکامی کے اسباب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-08

عام آدمی پارٹی - ناکامی کے اسباب

aam-admi-party-arvind-kejriwal
جمہوریت میں الیکشن صرف سرکار بنانے کا عمل نہیں ہے، بلکہ یہ سیاسی پارٹیوں کی پالیسیوں، تنظیم اور قیادت کا امتحان بھی ہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کے قول و فعل اور چہرے کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ انتخابی نتائج نے عام آدمی پارٹی کی کمر توڑ دی۔ پارٹی کو نہ صرف شرمناک ہار کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ پارٹی کے تضادات کو بھی اجاگر کر دیا۔ عام آدمی پارٹی کی پالیسیوں، تنظیم اور قیادت کے اختلافات سامنے آ گئے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بدعنوانی کے خلاف لڑنے اور نظام میں تبدیلی کے لیے سیاست میں آنے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کو ملک کے عوام نے سرے سے کیوں خارج کر دیا؟ دہلی کے اسمبلی انتخاب میں پورے ملک میں ہیرو بنے کجریوال کو عوام نے کیوں خارج کر دیا؟ پارٹی سے کیا غلطیاں ہوئیں؟ انتخابی نتائج نے عام آدمی پارٹی کو کیا اشارے دیے ہیں؟

انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے شکست کی ذمہ داری لی۔ یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے خود کو ذمہ دار بتایا۔ بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی نے شکست کی ذمہ داری لی۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اکھلیش نے مانا کہ چوک ہو گئی۔ صرف اکیلے اروِند کجریوال ہیں، جنہوں نے کہا کہ یہ ان کی شکست نہیں ہے۔ پارٹی نے بہتر مظاہرہ کیا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سبھی معروف پارٹیوں میں سب سے زیادہ شرمناک ہار عام آدمی پارٹی کی ہوئی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے 443 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ ان میں سے 421 سیٹوں پر پارٹی کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ بنارس میں کجریوال کی بڑی ہار ہوئی، لیکن ضمانت بچ گئی۔ دہلی اور پنجاب کے باہر کجریوال کے علاوہ جتنے بھی بڑے بڑے لیڈر تھے، ان کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ چاہے وہ تمل ناڈو میں اُدے کمار ہوں یا ممبئی میں میدھا پاٹکر، میرا سانیال، مینک گاندھی ہوں، یا پھر ناگپور میں انجلی دمنیا ہوں یا پھر بڑگڑ، اڑیسہ سے لنگ راج پردھان ہوں، ان سبھی کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ عام آدمی پارٹی کے یہ لیڈر میڈیا پر چھائے رہے۔ ٹی وی میں عام آدمی پارٹی کے حامی رپورٹر اور ایڈیٹروں کے ذریعے یہ مہم چلائی گئی کہ یہ لوگ نئی قسم کی سیاست کرنے آئے ہیں۔ ایسا ماحول بنایا گیا تھا کہ یہ لوگ جیت رہے ہیں، لیکن جب گنتی شروع ہوئی، تو پتہ چلا کہ میڈیا میں اتنا طوفان مچانے کے باوجود یہ لوگ کچھ ہزار ووٹ ہی پا سکے۔

دہلی میں کجریوال اور عام آدمی پارٹی کی جیت سے کئی لوگوں کو لگنے لگا تھا کہ ہندوستان کی سیاست میں ایک نئی شروعات ہوئی ہے۔ لیکن 49 دنوں کی سرکار میں عام آدمی پارٹی کی پول کھل گئی۔ کانگریس نے مدد لے کر سرکار بنانے پر کجریوال کی کافی تنقید ہوئی۔ کجریوال نے عوام کو لبھانے والے کچھ فیصلے لیے، لیکن یہ سب اپریل تک ہی تھا، اس لیے لوگوں کو ان فیصلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اروِند کجریوال ایک ایسے وزیر اعلیٰ بن کر ابھرے، جن کے پاس نہ کوئی منصوبہ تھا، نہ حکومت چلانے کی کوئی صلاحیت۔ ان کے پاس نہ کوئی سیاسی تجربہ تھا اور نہ ہی مسائل کا کوئی حل تھا۔ 49 دنوں کی حکومت میں پارٹی کی طرف سے دیے گئے بیانات اور کام کاج سے انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک ناتجربہ کار لیڈر ہیں، جو سیاست کو اسٹوڈنٹ یونین کی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ لوگ مایوس ہونے لگے تھے۔ لوگوں کا بھروسہ ٹوٹ رہا تھا۔ اس درمیان، ان کے ایک وزیر کی خبر میڈیا کی سرخی بن گئی۔ پتہ چلا کہ انہوں نے رات کے اندھیرے میں غیر ملکی خواتین کے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔ جب ایسا لگنے لگا کہ وہ گرفتار ہونے والے ہیں، تو کجریوال نے دھرنا کا ناٹک شروع کیا۔ سڑک پر رات گزاری۔ غیر ذمہ دارانہ بیان دیا۔ یومِ جمہوریہ کی پریڈ کا مذاق اڑایا۔ خود کو آمر بتایا۔ یہیں سے اروِند کجریوال کی اُلٹی گنتی شروع ہو گئی۔ ملک میں انتخابات ہونے والے تھے اور عام آدمی پارٹی کے پاس کجریوال کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر نہیں تھا، جو ملک میں کیمپین کر سکے اور جسے سننے 100 لوگ بھی آ سکیں۔

لوک سبھا کی حکمت عملی بنی۔ پہلے یہ طے ہوا کہ جتنے بھی کرپٹ لیڈر ہیں، ان کے خلاف عام آدمی پارٹی امیدوار کھڑا کرے گی۔ اگر ایسا ہوتا، تو شاید پارٹی آج بہتر حالت میں ہوتی۔ لیکن کجریوال سے ایک غلطی ہو گئی۔ انہوں نے سیاسی ماحول کو سمجھنے میں اور پارٹی کی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا۔ پارٹی کو لگا کہ جب طرح سے دہلی میں انہیں کامیابی ملی ہے، اسی طرح پورے ملک میں کامیابی مل جائے گی۔ حکمت عملی یہ بنی کہ زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑا جائے۔ جس طرح دہلی میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کے ووٹ بینک میں پارٹی نے نقب لگادی، وہی پورے ملک میں ہوگا۔ خود الیکشن جیتیں یا نہ جیتیں، لیکن کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملے گی۔ کجریوال کی نظر وزیر اعظم کی کرسی پر تھی۔ انہیں لگا کہ اگر 40-50 سیٹوں بھی آ گئیں، تو کانگریس کی مدد سے وہ سرکار بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور وزیر اعظم بن جائیں گے۔ عام آدمی پارٹی کی سب سے بڑی چوک یہ ہوئی کہ انہوں نے دہلی کو منی انڈیا مان لیا۔ انہیں لگا کہ جیسا دہلی میں ہوا، وہی پورے ملک میں ہوگا اور جس طرح انہوں نے شیلا دکشت کو ہرایا، ویسے ہی وہ گجرات کے باہر مودی کو ہرا دیں گے۔ پارٹی نے 443 امیدوار میدان میں اتار دیا۔ کجریوال خود وارانسی میں مودی کو چنوتی دینے پہنچ گئے اور کمار وِشواس کو امیٹھی میں راہل گاندھی کے خلاف کھڑا کر دیا۔ میڈیا سے مدد ملی۔ ایک ماحول تیار ہوا، ٹھیک ویسا ہی، جیسا دہلی الیکشن کے دوران ہوا تھا۔

عام آدمی پارٹی حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئی۔ کجریوال یہ اندازہ نہیں لگا سکے کہ نریندر مودی اور شیلا دکشت میں کیا فرق ہے۔ مودی کو بنارس میں گھیرنے سے پہلے وہ گجرات بھی گئے۔ میڈیا کی سرخیوں میں بنے رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ گجرات ماڈل پر سوال کھڑا کیا اور خود کو مودی کے خلاف سب سے بڑے لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس حکمت عملی کے پیچھے دو دلیل تھی۔ ایک تو اس سے مسلم ووٹ عام آدمی پارٹی کی طرف آئے گا اور دوسرا یہ کہ الیکشن کے بعد وزیر اعظم بننے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعظم بننے کے لیے کجریوال اتنے بے قرار ہو گئے کہ وہ الٹے سیدھے بیان دینے لگے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ملک میں غیر مستحکم سرکار کی ضرورت ہے۔ عوام نے کجریوال کی چالبازی کو پہچان لیا۔ اس لیے جب نتیجہ آیا، تو ہر طرف ضمانت ضبطی کی جھڑی لگ گئی۔ عام آدمی پارٹی نے ضمانت ضبط کرانے کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ اب تک یہ ورلڈ ریکارڈ ہندوستان کی ہی ایک پارٹی کو حاصل تھا۔ اس پارٹی نے 1991 کے لوک سبھا الیکشن میں 321 امیدواروں کو کھڑا کیا تھا اور سبھی کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔ تب سے یہ ریکارڈ اِس پارٹی کے نام تھا۔لیکن 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں کجریوال کی پارٹی نے اپنے 421 امیدواروں کی ضمانت ضبط کراکر اس ریکارڈ کو توڑ دیا۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں الیکشن کے نقطہ نظر سے جس کسی امیدوار کی ضمانت ضبط ہو جاتی ہے، تو اسے صرف ہارا ہوا، یعنی صرف لوزر ہی نہیں مانتے، بلکہ ایسے امیدوار کو ’نان سیریئس‘ سمجھا جاتا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں ہر امیدوار کو پرچہ نامزدگی بھرتے وقت دس ہزار روپے بھی جمع کرانے پڑتے ہیں۔ اگر اس امیدوار کو 1/6، یعنی کہ 16.66 فیصد ووٹوں سے کم ووٹ ملتا ہے، تو یہ پیسہ واپس نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ قانون اس لیے بنایا گیا، تاکہ ’نان سیریئس‘ امیدوار الیکشن نہ لڑے اور الیکشن کی معنویت برقرار رہے۔ اس نقطہ نظر سے اگر دیکھیں، تو کسی بھی امیدوار کے لیے ضمانت ضبط ہونا نہایت شرمناک بات ہے۔

حالانکہ، کجریوال کی پلاننگ یہ تھی کہ مودی کے خلاف لڑ کر میڈیا میں چھائے رہیں گے۔ میڈیا میں چھانے میں تو کامیابی ملی، لیکن عوام کو یہ بالکل راس نہیں آیا۔ سو سیٹیں لانے کا دعویٰ کرنے والی پارٹی صرف پنجاب میں چار سیٹیں جیت پائی۔ پنجاب کی کہانی بھی الگ ہے۔ وہاں پارٹی کی وجہ سے جیت نہیں ہوئی۔ کجریوال صرف ایک بار وہاں روڈ شو کرنے گئے۔ کہیں بھی ریلی کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پنجاب میں لوگ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے ناراض ہیں۔ کانگریس کے خلاف بدعنوانی کو لے کر ناراضگی تھی اور اکالی دَل سرکار کی وجہ سے بی جے پی بھی نشانے پر آ گئی۔ دوسری بات یہ کہ وہاں عام آدمی پارٹی نے اچھے امیدوار دیے۔ تیسرا فائدہ انا ہزارے کی جن تنتر یاترا کی وجہ سے ہوا۔ انا نے پچھلے سال پنجاب کا دورہ کیا تھا، جب وہ پنجاب کے ہر ضلعے میں گئے۔ یاترا کی وجہ سے پنجاب میں تنظیم کو کھڑا کرنے میں پارٹی کو کافی مدد ملی۔ سب سے اہم بات یہ کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں نے زیادہ دخل اندازی نہیں کی۔ جس طرح سے یو پی، ایم پی، دہلی، ہریانہ اور بہار میں عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے مداخلت کی، اس سے جم کر گروہ بندی ہوئی، جس کا نقصان نتیجوں میں دکھائی دیا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کی جیت میں پارٹی اور پارٹی کے لیڈروں کا کوئی زیادہ رول نہیں ہے۔

کجریوال بنارس میں لڑنے پہنچے، تو میڈیا میں ایک ماحول بنانے کی کوشش کی گئی کہ جس طرح راج نارائن نے اندرا گاندھی کو ہرایا تھا، اسی طرح کجریوال بھی مودی کو ہرا سکتے ہیں۔ ملک بھر کے این جی او، کارکن اور سماجی کارکنوں نے پرچار کیا۔ یہاں تک کہ کئی لیفٹسٹ اور نکسلی تنظیموں نے بھی کجریوال کی مدد کی۔ ساتھ ہی، کئی مسلم تنظیموں نے کجریوال کو کھلی حمایت دی اور بنارس جا کر پرچار کیا۔ لیکن جب نتیجے آئے، تو کجریوال 3 لاکھ 70 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئے۔ پنجاب اور دہلی کے باہر یہ واحد لوک سبھا حلقہ ہے، جہاں ہار شرمناک نہیں ہے۔ لیکن وہیں امیٹھی کو دیکھیں، تو یہ یقین نہیں ہوتا کہ کمار وِشواس کو صرف ساڑھے پچیس ہزار ووٹ ملیں گے۔ یقین اس لیے نہیں ہوتا، کیوں کہ میڈیا نے ایسا خیالی پلاؤ بنایا اور جس طرح سے کمار وِشواس پر گھنٹوں پروگرام دکھائے، اس سے یہ لگتا تھا کہ وہ راہل گاندھی کو ہرا دیں گے۔ لیکن حقیقت نتیجے کے روپ میں سامنے ہے۔ کمار وِشواس نہ صرف ہارے، بلکہ وہ چوتھے مقام پر آ گئے اور ان کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ یہی حال غازی آباد میں ہوا، جہاں جنرل وی کے سنگھ کے خلاف پارٹی نے شاذیہ علمی کو اتار دیا۔ یہ کہنا پڑے گا کہ وہ یہاں سے لڑنا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ دہلی سے لڑنا چاہتی تھیں اور پارٹی نے ان کے پرچار میں زیادہ مدد بھی نہیں کی۔ کجریوال یہاں پرچار کرنے نہیں گئے۔ غازی آباد میں ہی عام آدمی پارٹی کی شروعات ہوئی اور یہیں اس کا دفتر رہا۔ شاذیہ علمی صرف الیکشن ہی نہیں ہاریں، بلکہ پانچویں مقام پر پہنچ گئیں اور ان کی ضمانت بھی ضبط ہوئی۔ لیکن سب سے زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی، جب راہل گاندھی کے سیاسی گرو رہے اور پارٹی کے چانکیہ کہے جانے والے یوگیندر یادو کی گڑگاؤں کی سیٹ پر ضمانت ضبط ہو گئی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ میڈیا میں ساز باز اور ٹی وی بحث میں شامل ہونے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے یہ غلط ثابت کیا ہے کہ ’جو دِکھتا ہے وہ بِکتا ہے‘۔ کجریوال کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ الیکشن میڈیا کے ذریعے نہیں، بلکہ تنظیم اور عوام کے درمیان کام کرنے سے جیتے جاتے ہیں۔

نتیش کمار نے شکست کے بعد استعفیٰ دے دیا، لیکن عام آدمی پارٹی اور کجریوال کی حکمت عملی میں اچھے برتاؤ کی کمی ہے۔ اتنی شرمناک ہار کے باوجود بھی پارٹی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ کجریوال سے بہتر تو راہل گاندھی ہیں، جنہوں نے کم از کم یہ تو کہا کہ وہ شکست کے لیے خود ذمہ دار ہیں۔ لیکن دوسری طرف کجریوال عوام کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور ان کے حامی صحافی و سیاسی تجزیہ نگار متوسط طبقہ کو ہی بیوقوف بتا رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی ہار کی وجہ خراب حکمت عملی، ناتجربہ سیاست اور نااہل قیادت ہے۔ عام آدمی پارٹی کے بڑبولے پن کی وجہ سے پارٹی کی یہ حالت ہوئی ہے۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ بنارس میں ووٹنگ سے ٹھیک 48 گھنٹے پہلے آج تک چینل پر ایک سروے رپورٹ آئی۔ اس سروے میں بتایا گیا کہ کجریوال الیکشن ہار رہے ہیں۔ کجریوال آگ بگولہ ہو گئے۔ ’آج تک‘ کے مالک ارون پوری پر مودی کے ہاتھوں بک جانے کا الزام لگا دیا۔ کجریوال نے پوچھا کہ پوری صاحب نے اپنا ضمیر کتنے میں بیچا؟ ہندوستان میں کوئی بھی لیڈر میڈیا پر اس طرح کے الزام نہیں لگاتا ہے۔ ہندوستان میں بڑبولے پن اور بدتمیزی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہر کسی کو دلال کہہ دینا لوگوں کے گلے نہیں اترتا۔ ملک کے عوام نے یہ پیغام دیا ہے کہ سیاست ایک سنجیدہ موضوع ہے۔ اس میں ڈرامے بازی اور نان سیریئس سیاست کرنے والوں کی جگہ نہیں ہے۔

عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹ
امیدوارپارلیمانی حلقہمحصولہ ووٹ
میدھا پاٹکرممبئی ایسٹ76,451
آدرش شاستریالہ آباد6,439
راج موہن گاندھیدہلی ایسٹ3,81,739
میرا سانیالممبئی ساؤتھ40,388
ایس پی اُدے کمارکنیا کماری، تمل ناڈو15,314
بارلا دیا منی کھونٹیجھارکھنڈ11,822
لنگ راج پردھان بر گڑاڑیسہ15,672
آشوتوش کمارچاندنی چوک، دہلی3,16,158
کمار وشواسامیٹھی، اتر پردیش25,527
کنچن چودھریہردوار، اتراکھنڈ18,176
مینک گاندھیممبئی نارتھ51,860

***
ارشد حسین
arshadindia[@]gmail.com
موبائل : 9248900856
ارشد حسین

AAP and the reasons of its failure. Article: Arshad Hussain

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں