کتاب عرض ہے - کچھ اور چاہئے وسعت ۔۔۔ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-10

کتاب عرض ہے - کچھ اور چاہئے وسعت ۔۔۔

kuch-aur-chahiye-wusaat-akhtarul-wasey
کتاب : کچھ اور چاہئے وسعت۔۔۔
مصنف : پروفیسر اخترالواسع
مبصر : تحسین منور

ملک کی راجدھانی میں ایسے ایک سے ایک تیس مار خان موجود ہیں جو اپنے عہدے یا تعلقات کے دم پر بڑے بڑے پروگراموں کی 'شوبھا' بڑھاتے نظر آجاتے ہیں لیکن جب وہ مائک پر آکر مائک ٹیسٹنگ شروع کرتے ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچے ہوں گے۔لیکن اسی دہلی میں چند ایک ایسے مقرر موجود ہیں جنھیں ہر حال میں یہ احساس رہتا ہے کہ کیا موقع ہے کیا لوگ ہیں اور کیا بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے کہ وہ سامعین کے دلوں سے ہوتا ہوا ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہے ۔ تجربات،مشاہدات اور مطالعات کے سمندر میں غوطہ لگانے کے بعد تقریر کے جوہر دکھانے والوں میں ہم پروفیسر اخترالواسع صاحب کا بھی شمار کرتے ہیں۔ اکثر ان کو کئی موقعوں پر سنتے ہوئے دل سے یہ تمنّا پھوٹ کر نکلی کہ کاش یہ ہمیں بھی اپنے گینگ آف 'اخترالواسع' پور کا حصہ بنالیں تو ہم بھی دو چار لفظ بولنا سیکھ جائیں۔
ہمیں یاد ہے ایک بار دوردرشن اردو کے ایک پروگرام رنگِ سخن میں کسی ایک موضوع پربحث کے لئے وہ آئے تھے۔ لیکن اس کے بعد کئی دیگر موضوعات پر بھی ان سے کہا گیا کہ آپ شرکت کرلیں۔ ہم پروگرام کے اینکر کی حیثیت سے یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے کہ وہ ہر موضوع پر اپنی ماہرانہ رائے اس انداز سے رکھ رہے تھے کہ جیسے وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے ہوں۔زبان و ادب کی بھرپور چاشنی کے ساتھ ہندستانی ادب جیسے ان کو زبانی یاد ہو۔چند برس پیشتر پرگتی میدان میں' فلموں کی زبان اردو ' موضوع پربحث کے دوران مرحوم فاروق شیخ صاحب کے ساتھ ہم بھی پینل میں موجود تھے۔ وہاں بھی ہم اخترالواسع صاحب کی فلموں پرمعلومات دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ عالم کی نگاہ ہر موضوع پر ہوتی ہے ۔جب جیسا موقع آتا ہے تب وہ اپنے خیالات کے اظہار سے نئی نسلوں کو نئے راستے دکھانے کا کام کردیتا ہے۔
ہم یہ سب تمام باتیں اس لئے کہہ رہے ہیں کہ جب اخترالواسع صاحب جیساعلم کا وسیع سمندر'کچھ اور چاہئے وسعت۔۔" کہہ کر ہمارے سامنے کوزے میں سمندر پروس دے تو ہمارے قلم کو تھوڑا بہت لڑ کھرانے کا حق تو حاصل ہوہی جاتا ہے۔ اردو زبان و تہذیب ،ادب اور ادیبوں پر لکھے گئے مضامین کے بیش بہا خزانے اپنے اندر سمائے یہ کتاب ہمیں راہ دکھاتی ہے کہ ہم کسی مضمون کو کتنا بڑا یاکتنا مختصر لکھ کر بھی اپنی بات ادا کر سکتے ہیں۔یہ کتاب نہیں ہے بلکہ یہ سمجھ لیجئے کہ اگر آپ اردو سے جُڑے کسی موضوع پر کہیں بحث کرنا چاہتے ہوں تو آپ کے تخلیقی ذہن کو یہ کتاب اس طرح تیار کر سکتی ہے کہ آپ کو اردو زبان اور تہذیب کے بارے میں اتنا مواد ضرور مل جائے جس سے آپ کو اپنے دامن کی تنگی کا احساس نہ ہو۔البلاغ پبلیکیشنز،نئی دہلی نے ایک سو پچہتر صفحات کی یہ کتاب جون 2009ء میں شائع ہوئی تھی۔خالد بن سہیل نے اس کا سرورق تخلیق کیا تھا۔اس میں چار باب ہیں ۔ بابِ عقیدت میں تین مضامین میں چندر بھان خیالؔ کی 'لولاک' ،تابشؔ مہدی کی نعتوں اور منقبتوں کے مجموعے 'سلسبیل' اور رؤفؔ امروہوی کی نعتیہ شاعری پر گفتگو ہے۔بابِ تعلق میں دیوان بریندر ناتھ ظفر ؔ پیامی کی تخلیق' فرار 'کے حوالے سے دو مضامین اور تیسرا ان کے انتقال پر خراج عقیدت ہے۔
بابِ فکر نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں اردو زبان کی محبت میں ڈوب کرتحریر کئے گئے بارہ مضامین کا ایسا گلدستہ موجود ہے جس کا پڑھناہر اس قاری کی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے کہ جو کسی نہ کسی روپ میں اردو زبان سے یااردو کی کسی لسانی تحریک سے جُڑا ہے۔آخری بابِ ذوق میں ولیؔ دکنی ،میرؔ ،پریم چند،سردار ؔ جعفری،ابوالمجاہد زاہدؔ اور کفیل آزرؔ پر مضامین ہیں۔اسی باب میں آخر میں محترمہ قرتہ العین حیدر کے سانحۂ ارتحال پر لکھا مضمون بھی شامل ہے۔
اس کتاب کے زیادہ تر مضامین بہت آسان اور رواں زبان میں ہیں جیسے کہ کوئی تقریر کر رہا ہو۔وہ خود لکھتے ہیں کہ" اس کتاب میں شامل مضامین کا ایک بڑا حصّہ اردو زبان و تہذیب کے اوصاف،ان کے ماضی اور ان کے حال و مستقبل کی روداد،انہیں درپیش پیغمبری وقت اور اس سے پیدا شدہ جذبوں اور محسوسات پر مشتمل ہے"۔ جب آپ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کے اندر فکر و خیال کے نئے جزیرے سے ابھرنے لگتے ہیں۔دماغ میں جذبات و احسات اس انداز سے متحرک ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنی زبان سے اور زیادہ پیار ہونے لگتا ہے۔
بابِ عقیدت میں جب آپ طویل نظم 'لولاک' کے حوالے سے چندر بھان خیالؔ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو الفتِ رسول ﷺکی نئی تہذیب کااندازہ ہوتا ہے۔ آپ چاہے تابشؔ مہدی کانعتیہ کلام پڑھ رہے ہوںیا پھر رؤفؔ امروہوی کی نعتیہ شاعری کے بارے میں پڑھ رہے ہوں تو عشق رسول ﷺ کے جذبوں کو آپ کے خیال و فکر میں روانی مل جاتی ہے۔
ظفرؔ پیامی صاحب کے ناول' فرار' کے حوالے سے اپنی زمین سے ہجرت ایک نئے تناظرمیں برّ صغیر میں فرار کی شکل میں ابھر کر سامنے آتی ہے ۔یہ انتظار حسین اور دیگر کی ہجرت سے الگ ہے اور اس کا دائرہ بھی وسیع ہو جاتا ہے۔وہیں ایک مضمون میں ظفرؔ پیامی کے خانوادے کے ذریعے ہم ہندستان کی اس گنگا جمنی تہذیب سے روشناس ہوتے ہیں جس کے بارے میں ہم نے یاتو صرف پڑھا ہے یا پھرسنا ہے مگر یہاں اخترالواسع صاحب اس تہذیب کو ہمارے سامنے جیتا جاگتا پیش کر دیتے ہیں۔
بابِ فکر میں اردو کے حوالے سے سبھی مضامین گھونٹ کر پینے لائق ہیں۔یہ مضامین طویل یا بوجھل نہیں ہیں بلکہ قطرہ قطرہ دریا ہوتے ہوئے سمندر سے جا ملتے ہیں۔ 'اردو اور خود احتسابی کا آئینہ' میں وہ اردو کی بقا کی زمہ داری صرف حکومت پرنہ ڈالتے ہوئے اردو والوں کو بھی اس میں کردار ادا کرنے کے لئے راغب کرتے ہیں۔
'اردو رسم خط کا مسئلہ،ترجیحات اور مضمرات' میں وہ اردو کو اس کے ہی رسم خط میں لکھنے کی جس انداز سے پیروی کرتے ہیں اس سے ہماری دلیلیں مضبوط ہوجاتی ہیں۔اسی کی مناسبت سے ان کا ایک اور مضمون 'اردو ہندی ایک فرضی تقسیم 'بھی دونوں زبانوں کو ایک دوسرے کی طاقت بنانے کی وکالت کرتا ہے۔ جس کے مطابق ہندستان کی زبانوں کو ایک دوسرے سے اتناخطرہ نہیں ہے جتنا انگریزی زبان سے ہے۔
'گیان چند جین کی کتاب ایک بھاشا دو لکھاوٹ دو ادب' کو رد کرتے ہوئے وہ ایک اور مضمون میں کہتے ہیں کہ اس کے خلاف ردِّ عمل میں کم سے کم ادب کا لحاظ تو ہونا چاہئے۔ان کا جملہ دیکھئے: "اگر اس کے خلاُف ردِّ عمل کے اظہار میں تھوڑا سا اعتدال و توازن برت لیا جائے یا حدّ ادب،پاس و لحاظ کر لیا جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ بالآخر یہ معاملہ بازار کا نہیں ادب کا ہے۔"
یہ ایک جملہ ہمیں اپنے تمام معاملات میں ردِّعمل کا ایک ایسا سلیقہ سکھاتے ہیں جہاں ہم تہذیب و ادب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تمام مخالفتوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔'تحریک آزادی اور قومی یکجہتی میں اردو کا حصّہ 'اور' اردو :تہذیبی تنوع کا رواں دواں آئینہ' مضامین پڑھ لینا بالکل ایسا ہے کہ آپ جیسے گوپی چند نارنگ صاحب کی ان موضوعات پر دو بھاری بھرکم کتاب" ہندستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری' 'اور "اردو غزل اور ہندستانی ذہن و تہذیب ' 'پڑھنے سے بچ گئے ہوں۔لیکن اگر آپ ان کتابوں کو پڑھ لیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔
'زرائع ابلاغ اور اردو'،'اردو:زندگی اور زمانے کی زبان 'اور 'اردو اورہم : ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے ' جیسے مضامین جہاں اردو کوآج کے دور سے جوڑتے ہیں وہیں اردو کے حوالے سے ہماری بے حسی کو بھی جھنجوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ بابِ فکر میں ہی ایک مضمون' مدارس کی تعلیم کو بہتر بنانے میں اردو زبان کا رول ' ہے۔یہ مضمون کافی کارآمد ہے اور مدارس کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
آخر میں دو مضامین' پاکستان میں اردو کا حالِ زار' جہاں ایک طرف اُس ملک میں اردو کی حالت پر مرثیہ پیش کرتا ہے کہ جہاں اردو کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے تو دوسری طرف 'ماریشس میں اردو اور عیدن ' ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کیسے ایک غیر ملک میں اردو اور ہندی وہاں کی زبان کے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی الگ الگ شناخت کے باوجود ترقی کر سکتی ہیں۔بابِ ذوق میں ولیؔ دکنی ،میرؔ ،پریم چند اور سردارؔ جعفری پر لکھے مضامین ہمیں نئے انداز سے ان تخلیق کاروں کو سمجھنے کا موقع دیتے ہیں۔ ڈاکٹر کفیل آزر ؔ جیسے قلم کار کی زندگی کی بے بسی کو جس انداز سے اس باب میں ان کی شاعری کے حوالے سے ہم تک اخترالواسع صاحب نے اس باب میں پہنچایا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کے پاس ایک حساس دل موجود ہے۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ہم اس احساس سے گزرتے ہیں کہ اخترالواسع صاحب کو اپنے بیان کے لئے وسعت کی ضرورت نہیں ہے مگر ہمیں اس کتاب کو بیان کرنے کے لئے کئی اور صفحات درکار ہو سکتے ہیں ۔اس لئے یہ کتا ب عرض کرتے ہوئے ہم ان ہی کے انداز میں صرف یہ کہیں گے ؂
بہ قدرشوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت میرے بیاں کے لئے

***
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book 'Kuch aur chahiye wusaat' by Prof Akhtarul Wasey. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں