نئی حکومت - امکانات اور اندیشے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-10

نئی حکومت - امکانات اور اندیشے

new-Indian-Govt-risks-and-opportunities
اب جب کہ بی جے پی برسراقتدار آچکی ہے ، نریندر مودی نے ہندوستان کے پندرہوں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف ہوئے تقریبا نصف مہینہ گذرچکا ہے ، اس دوران پیش آنے والے واقعات اور حالات سے نئی حکومت کے ترجیحات کا تعین مکمل طور پر تو نہیں؛ لیکن کچھ حدتک ضرور کیا جاسکتا ہے ، نریندر مودی نے بحیثیت وزیر اعظم اب تک تو براہِ راست کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کہا ہے کہ جس سے ان کی وہ شبیہ سامنے آتی ہو جو انتخاب سے قبل مسلمانوں اور پاس پڑوس کے ممالک اور اپنے آر یس یس اور ہندوا توا نظریات کے تعلق سے ان کی شبیہ مانی جارہی ہے تھی ، اور خود ان کے بیانات بھی اس کی گواہی دے رہے تھے ، بلکہ انہوں نے توبعد میں اپنے بیانات کے ذریعے اور اپنی حلف برداری کے موقع سے سارک سربران کی شرکت کو یقینی بنا کر ایک حد تک اپنے سابقہ امیج کو درست کرنے کوشش کی ہے ، اب تک جو بھی انہوں نے بیانات دیئے ہیں اس میں انہوں نے ہندوستان کے بلالحاظ مذہب وملت تمام عوام کی فلاح وبہود اور ہندوستان کی ترقی اور عروج اور یہاں کی سیاست کو صاف وشفاف بنانے اور عوام کو بہترین سے بہترین سہولیات اور خدمات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے،، خواہ ان ان کا اپنے وزراء اور ارکان پارلیمان کو اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے کام کاج میں حصہ دار بنانے کے معاملہ میں احتیاط برتنے کا مشورہ ہو، یا ان کے پاؤں چھو کر چاپلوسی کرنے سے منع کرنا ہویا ان کا سو(100) روزہ ترقیاتی پروگرام ہو، لیکن ان کی پارٹی کے بعض کارکنا ن کی جانب سے جو بیانات آئے ہیں اور ملک میں جو فرقہ وارانہ فسادات اور نگے ہورہے ہیں وہ وہ ضرور کچھ خدشات بھرے ہوسکتے ہیں ،اس کے پس پردہ کون کام رہا ہے اس کا پتہ لگایا جانا بھی مشکل ہے ، نریندر مودی نے جیسے ہی حلف لیا اور وزرات عظمی کے منصب پر فائز ہوئے ، دوسرے دن ہی پی ایم او کے وزیر جتیندر سنگھ نے دفعہ 370 جیسے حساس مسئلہ کو چھیڑ دیا، جس کی وجہ سے مختلف گوشوں سے اس پر تنقید وتبصرہ شروع ہوگیا، جموں وکشمیر کے وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے اس بیان کی سخت مذمت کی ، اسی طرح جموں وکشمیر کی اپوزیشن جماعت پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی نے بھی وزیر کے دفعہ 370جیسے حساس مسئلے کو چھیڑنے پر اس وزیر کو آڑے ہاتھوں لیا، ماویاتی نے اس جیسے حساس مسئلہ پر وزیر کی بیان بازی کو برا گردانا، ابھی یہ مسئلہ تھما بھی نہیں تھا کہ مودی سرکاری کے کابینہ کی واحد مسلم خاتون نجمہ ہبت اللہ جن کو اقلیتی امور کا قلمدان سونپا گیاتھا، انہوں نے بھی ایک متنازعہ اور مسلم دل شکن بیان دے ڈالا، انہوں نے مسلمانوں کو اقلیت ہی ماننے سے انکار کردیا، انہوں نے کہا کہ اقلیت میں تو پارسی ہیں جن کی تحفظ کی ضرورت ہے ، ان محترمہ کے بعد ان سے یہ توقعات کرنا کہ وہ مسلمانوں کے حق میں کچھ کرم کریں گے یہ خیال خام ہوگا، ان کے اس بیان پر بھی ملک کے مختلف گوشوں سے اس کی مذمت کی گئی، حالانکہ رنگناتھ مشرا رپورٹ اور سچر کمیٹی رپورٹ کے تناظر میں مسلمانوں کو ملک کی پسماندہ قوم قرار دیا ہے ، ایسے میں بعض مسلم رہنماؤں نجمہ ہبت اللہ کو سچر کمیٹی رپورٹ کی بعض مشمولات روانہ کی ہیں ، جس کو پڑھ کر وہ مسلمانوں کے تعلق سے اپنی پالیسی اور ترجیحات کا تعین کرسکتی ہیں ، اس کے علاوہ بعض گوشوں سے یکساں سول کوڈ کے مسلمانوں کے حق میں بہتر ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے ، جس کو جسٹس کاٹجو نے کہا ، بعض لوگوں نے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لئے دہلی ہائیکورٹ میں درخواست داخل کی ، جس کو ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ سپریم کورٹ نے ہمیں اس سلسلہ میں کوئی واضح ہدایات جاری نہیں کی، جب کہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر بحث آیا تھا، اسی طرح مودی حکومت کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کے مختلف گوشوں میں بی جے پی کارکنوں کی جانب سے چھوٹے بڑے پیمانوں پر فسادات مچائے جائے رہے ، یہی چھوٹے چھوٹے فسادات خدا نہ کرے بڑے فسادات کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں ، خصوصا مہاراشٹرا میں جو گڑبڑ اور فرقہ واریت کے واقعات پیش آئے اس سے مسلمانوں کے بی جے پی کے تئیں خدشات اور بڑھ گئے ، ہوا یہ کہ کچھ دن قبل کسی نے فیس بک پر چھتر پتی شیواجی اور بال ٹھاکرے کی قابل اعتراض تصاویر ڈال دیں اور اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچے بغیر شک کی سوئی مسلمانوں کی طرف کی گئی اور اور پونے ، اورنگ آباد ، ناندیڑ ، پربھنی اور دیگر مقامات پر اشرار مسلمانوں کے خلاف کاروائی شروع کردی ، جہاں مسلمانوں کی مساجد کو نشانہ بنایا گیا، خصوصا پونے میں تو گڑبڑ کا سلسلہ اسی وقت شروع ہوا تھاجب بی جے پی کارکنان اپنی جیت کا جشن مناتے ہوئے مساجد کو نشانہ بنارہے تھے ، لیکن اس فیس بک واقعہ نے شرپسندوں کو ایک موقع ہی دے دیا ، پھر کیا تھا کئی مساجد اور درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، زبردستی دوکان اور بازار بند کروائے گئے ، محسن صادق نامی ایک انجنیئر مسلمان کو زدوکوب کر کے ہلا ک کردیا گیا، بس اس کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک باشرع مسلمان تھا اور وہ مسجد سے نماز کی ادائیگی کے بعد واپس ہورہا تھا، اس کے علاوہ مسلم قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور قرآن کریم کے نسخے نذر آتش کئے گئے ،انڈین اکسپریس کے مطابق تصاویر کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے ان واقعات میں ہندوتنظیموں کے کارکنان نے محض دو دنوں میں 200 سے زیادہ سرکاری اور خانگی گاڑیوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا، مساجد کے امام بھی اپنے متشرع حلیہ کی وجہ سے نشانہ بنے ہیں ، ایک ہجوم نے ایک مدرسہ کو آگ لگانے کی کوشش کی جس سے بچنے کے لئے ناظم مدرسہ اور طلباء کو دوسری منزل سے چھلانگ لگانا پڑا جس میں زخمی ہوگئے ۔حالانکہ بعد میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اس واقعہ میں ہندو لوگ ہی ملوث تھے، ہندو مسلم اتحاد اور پرامن فضا کو بگاڑنے کے لئے اس طرح فیس بک اور سوسل میڈیا کا سہارا لیا گیا ، ایسے ہی 5؍ جون کو شاملی میں ایک مذہبی مقام کے قریب تعمیر کو لے دو فرقوں کے درمیان جھڑپ ، اسی طرح گڑگاؤں میں 8؍جو کو فرقہ وارانہ تشد د ، اسی طرح دلی میں بی جے پی لیڈر کے قتل پر بی جے پی کارکنان کا توڑ پھوڑ مچانا ، یہ سارے واقعات مودی حکومت میں درپیش ہورہے ، جس پر وزیر اعظم کی مذمتی بیان جاری نہیں ہوئے ، اس لئے بجا طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو بی جے پی حکومت سے خدشہ لاحق ہے ، اگر چہ نریندر مودی ذاتی طورالیکشن میں اپنی کامیابی کے بعد مسلمانوں کے حق میں بیان دیتے ہوئے آئے ہیں ، لیکن یکساں سول کوڈ کی نفاذ کی آہٹ ، یا دفعہ 370 کے نفاذ کی بات ، یہ سارے مدعی ایسے ہیں جو متنازعہ ہیں جس کے تکمیل کا وعدہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں کیا ہے ، لیکن جب بی جے پی برسر اقتدار آچکی ہے تو اس کے لئے حکمت سے بھرپور اور ملک کے مفاد اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس قسم کے متنازعہ اور مذہبی معاملات میں مداخلت کرکے اپنے امیج خراب نہ کرے ، اور ہر طرف ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا سخت نوٹس لے کہ یہ فسادات پنپنے نہ پائیں ، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ بی جے پی کی اکثریت کے ساتھ کامیابی نے فرقہ پرستوں کو دنگے فساد مچانے پر اکسا یاہوا ہے اور وہ ہمت وجوش میںآکراس طرح کی کاروائیاں انجام دے رہے ہوں ، یہ تو سب شروعات ہے ، وقت ہی بتائے گا کہ مودی حکومت عوام کی توقعات پر کتنا اترتی ہے ، کیا وہ عوام دوست اور ملک دوست حکومت ثابت ہوتی ہے ، ملک اور ملک کے عوام کی بلا لحاظ مذہب وملت خدمت کو اپنا منشور اور مطمح نظر بناتی ہے یا منفی خیالات کو فروغ دیتی ہے ، لیکن ہندوستان کے قوانین اور ہندوستان کی جمہوریت اس طرح کی منفی سوچ کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی اور نہ یہ منفی سوچ ہندوستان کی ترقی اور باقی کی ضامن ہے ، منفی سوچ تو ملک کو تنزلی اور تباہی کے دہانی پر لے جائے گی ، ملک کی بدنامی اور رسوائی کی باعث ہوگی ، اس لئے نئی حکومت کو مثبت اور تعمیری وتشکیلی رول اختیار کرنا ہوگا اور ملک کے عوام کا بلا لحاظ مذہب وملت کے دل جیتنے ہوں گے ، ورنہ حکومت کو پائیدار ی اور استقامت اور استقلال نصیب نہیں ہوسکتا ہے ، ورنہ خوف واندیشوں کے یہ سائے دراز ہوتے جائیں گے ، ظلمت اور تاریکی کی یہ رات ملک کے لئے تباہ کن اور ضرر رساں ثابت ہوگی ۔

***
مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی ، وادی مصطفی شاہین نگر ، حیدرآباد۔
rafihaneef90[@]gmail.com
رفیع الدین حنیف قاسمی

The new Indian Govt., its risks and opportunities. Article: Rafi Haneef

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں