بی جے پی کی کامیابی کا اصل راز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-14

بی جے پی کی کامیابی کا اصل راز

BJP-real-secret-to-success
جہاں ایک طرف حکمراں جماعت اپنی آئندہ کی حکمت عملی تیار کرنے میں لگی ہے، وہیں اپوزیشن پارٹیاں اب بھی لوک سبھا انتخابات میں اپنی شکست اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے عروج کے اسباب تلاش کرنے میں لگی ہیں۔ جہاں ایک خبر یہ ہے کہ آندھرا پردیش کی کانگریس نے ریاست کے اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں اپنی شکست کے اسباب پر غوروخوض کرنے کے لئے پارٹی لیڈروں کی میٹنگ طلب کی ہے وہیں دوسری طرف اس خبر نے بھی نمایاں توجہ حاصل کی کہ لوک سبھا کے حالیہ اور موجودہ میعاد کے پہلے اجلاس میں اپوزیشن کی سیٹ پر بیٹھے کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی اور ترنمول کانگریس کے دو ممبر پارلیمنٹ کے مابین ہوئی گفتگو کا بنیادی موضوع بھی یہی تھا کہ بی جے پی کو اتنا عروج جیسے حاصل ہوا؟
بالکل فطری سوال ہے ۔ راہل یا سیاسی پارٹیاں ہی نہیں ملک کی اکثریت اس تجسس میں مبتلا ہے ۔ کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ یہ کرشمہ کیسے ہوگیا؟ سیکولرزم کی دعویدار سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کے لئے ایک طرح سے اچھوت تصور کی جانے والی سیاسی پارٹی کامل اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب کیسے ہوگئی۔ کوئی اسے وزیر اعظم نریندر مودی کا کرشمہ قرار دیتا ہے تو کسی کے نزدیک اس کی وجہ صرف اور صرف سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہے ۔
حالانکہ کسی بھی کامیابی اور ناکامی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوا کرتی، اس کے متعدد اسباب و علل ہوتے ہیں ۔ اب یہ ضرور ہے کہ بنیادی وجہ کوئی ایک ہوتی ہے۔ وقت اور حالات کے ساتھ دیگر عوامل بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔
بد قسمی سے اب تک جس قدر تجزیے بھی سامنے آئے ہیں، ان میں بنیادی وجوہات کو عام طور پر نظر انداز ہی کیا گیا یا ان وجوہات پر اتنی توجہ نہیں دی گئی ، جتنی دی جانی چاہئے ۔
1991 میں جب آنجہانی نرسمہا راؤ وزیر اعظم بنے تھے، اس وقت کانگریس کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی ۔ راؤ صاحب نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے تعاون سے اپنی سرکار بنائی اور چلائی تھی ۔ اسی زمانے کی بات ہے جب ایک سابق وزیر اعظم سے ان کی پارٹی کے لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا ہمیں کانگریس کا ساتھ دینا چاہئے ، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں اپوزیشن کی چراگاہ میں بھارتیہ جتنا پارٹی کو اکیلے چرنے نہیں دینا چاہئے ۔
اس جواب میں ایک ایسا سیاسی فلسفہ چھپا ہوا ہے جو شاید عام آدمی کی سمجھ میں آسانی سے نہ آسکے ۔
ہماری سیکولرزم کی دعویدار سیاسی جماعتوں سے غالباً سب سے بڑی غلطی یہی ہوئی کہ انہوں نے بی جے پی کو اپوزیشن کی چراگاہ میں چرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا ۔ یو پی اے II میں گھپلوں کی ایک طرح سے جھڑی لگنے کے باوجود سیکولرزم کی دعویدار غیر کانگریسی جماعتیں جیسے ایس پی، بی ایس پی ، آر جے ڈی وغیرہ حکومت کو بچانے کے لئے اپنا کندھا لگائے رہیں ۔
حالانکہ یہ بات بہت پہلے ہی صاف ہوگئی تھی کہ کانگریس کے پیروں تلے سے زمین کھسک چکی ہے۔ خاص طور پر گاندھیائی لیڈر انا ہزارے کی بدعنوانی مخالف تحریک کے بعد مطلع پوری طرح صاف ہوگیا تھا ۔ اس کے باوجود نامعلوم اسباب سے ہماری یہ سیاسی جماعتیں کانگریس کے موقع پر کانگریس کے ساتھ معاہدہ کیا ، جب کہ ان کی پارٹی کو نتیش کمار کی جنتادل یو کے ساتھ مل کر لوک سبھا الیکشن لڑنا چاہئے تھا ۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ بہار کی تصویر مختلف ہوتی بلکہ وہ سیاست کے بھی بڑے کھلاڑی تصور کیے جاتے ۔ اب تو جو صورتحال ہے ، اس میں یہی کہا جائے گا کہ مستقبل میں آر جے ڈی اور جے ڈی یو دونوں کے لئے اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا ۔کم و بیش یہی بات اتر پردیش کے تعلق سے بھی کہی جاسکی ہے ۔
یوپی اے۔II سے ترنمول کانگریس کے علیحدہ ہونے کے بعد ریاست کی دونوں اہم سیاسی جماعتیں ایس پی اور بی ایس پی منموہن سنگھ حکومت کو سہارا دینے کے لئے نہ صرف سر گرم عمل نظر آئیں ، بلکہ دونوں نے ہر نازک موڑ پر اس کا ساتھ دیا ۔ دونوں میں سے کسی نے بھی پے درپے گھپلوں کے انکشاف کے سبب کانگریس کے خلاف عوام کے اندر بڑھتی ناراضگی پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ دونوں ہی جماعتیں کانگریس کی حلیف کے طور پر اس کے شانہ بشانہ چلتی رہیں۔ اس بات کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا کہ کانگریس سے عوامی ناراضگی کا فائدہ اپوزیشن کو ملے گا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ ملک گیر سطح پر کوئی دوسری اپوزیشن جماعت تھی نہیں ۔
تمل ناڈو، اڑیسہ، مغربی بنگال کی لوک سبھا سیٹوں کے نتائج سے بھی اس کی توثیق ہوچکی ہے ۔ تینوں ہی ریاستی پارٹیوں کے سربراہان کانگریس کے خلاف تھے ۔ جہاں تک سیکولر خاص طور پر مسلم ووٹروں کی ٹیکنکل ووٹنگ کے مقابلے سخت گیر ہندو ووٹروں کی ٹیکٹکل ووٹنگ کا معاملہ ہے، اسے مفروضہ بلکہ گمراہ کن پروپیگندہ کے علاوہ کچھ اور نہیں کہاجاسکتا ۔
بی جے پی کو صرف31فیصد کے آس پاس ووٹ ملے ہیں ۔ 69فیصد ووٹروں نے غیر بی جے پی پارٹیوں کو ووٹ دیے ہیں، جس میں این ڈے اے کی دیگر پارٹیاں بھی شامل ہیں ۔ پھر جن لوگوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیے ہیں، ان سب کو سخت گیر یا فرقہ پرست کہنا انصاف کے سراسر منافی ہوگا ۔ بی جے پی کو ملنے والے31فیصد ووٹوں میں کثیر تعداد نئی نسل کے ووٹروں کی تھی جنہوں نے پارٹی کے ترقی کے نعروں اور سوشل میڈیا کی تشہیر سے متاثر ہوکر ووٹ دیے ۔
انہیں کسی بھی حال میں سیکولر یا مسلم مخالف نہیں کہاجاسکتا ہے ، یہ نئی نسل پرانی نسل کے مقابلہ کافی کشادہ ذہن ہے ۔ وہ ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے، بی جے پی میں سخت گیر یا فرقہ پرست ذہنیت کے لوگ نہیں ہیں، یقیناًہیں اور تمام سیاسی پارٹیوں میں ہیں ۔ تاہم ایسے افراد کا فیصد تناسب زیادہ نہیں ہے۔ وہ ملک کے امن و امان کو غارت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر ایسے عناصر نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا بھی سب سے زیادہ نقصان خود حکومت خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی شبیہ کو ہوگا ، جو گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
اس لئے کسی بھی ایشو پر محض قیاس آرائیوں کی بنیاد پر واویلا مچانے کو کسی بھی زاویے سے درست نہیں کہاجاسکتا ۔
جہاں تک آرٹیکل370کی بات ہے یا یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ ہے تو یہ قومی نوعیت کے مسائل ہیں ، ان کا کسی ایک فرقہ یاطبقہ سے تعلق نہیں ۔ یہ بات بھی پوری طرح ذہن نشین رہنی چاہئے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے دوست نما دشمن ہمیں ورغلانے میں کامیاب ہوجائیں، ان سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا معاملہ ہے وہ اپنی شکست کا ضرور جائزہ لیں، مگر شکست کی اصل وجہ سے چشم پوشی انہیں مزید نقصان ہی پہنچاتی ۔ شکست کا ٹھیکرہ کسی اور کے سر پھوڑنے کے بجائے صحیح نتیجہ پر پہنچ کر صحیح سمت میں کام کرنے کی کوشش کریں ۔ آج اگر وہ اپوزیشن میں ہیں تو تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کریں ۔ جمہوریت کا تسلیم شدہ فلسفہ ہے کہ اپوزیشن کا لیڈر ووٹنگ پرائم منسٹر تصور کیاجاتا ہے اور اپوزیشن پارٹی مستقبل کی حکمراں جماعت سمجھی جاتی ہے ۔
بی جے پی کی کامیابی کا راز اسی میں مضمر ہے ۔

***
عتیق مظفرپوری
عتیق مظفرپوری

BJP's real secret to success. Article: Ateeq Muzaffarpuri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں