2014ء کے انتخابات کے چند منفی پہلو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-20

2014ء کے انتخابات کے چند منفی پہلو

india-2014-elections
یہ سطور 16/مئی یعنی نتائج کے سرکاری اعلان سے قبل لکھی جارہی ہیں اور جب آپ ان سطور کا مطالعہ کررہے ہوں گے تو اس وقت تک لوک سبھا کی تمام (543)نشستوں کے نتائج کا اعلان ہوچکا ہوگا۔ آج کل تو تمام ٹی وی چینلز مودی سے حاصل کردہ کروڑوں روپیوں کا حق نمک ادا کرنے کے لئے "ایگزٹ" پول کے نام سے بتائے جانے والے نتائج کو بی جے پی کے لئے انتہائی خوش گوار اور دل خوش کن بتارہے ہیں لیکن ہم اس نام نہاد اگزٹ پول کے نتائج پر ذرا سی بھی توجہ دئیے بغیر ان سطور کو رقم کررہے ہیں۔ ہمارا آج کا موضوع سخن انتخابات کے نتائج ہے ہی نہیں ہم تو ان انتخابات کی چند خاص باتیں پیش کررہے ہیں جو کھل کر سامنے آئی ہیں۔
ان انتخابات پر ایک نظر ڈالیں تو جو پہلی بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ انتخابات تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات ہیں نہ صرف حکومت کا خرچ آج تک ہوئے ہر انتخاب کے خرچ سے زیادہ ہے بلکہ بی جے پی نے اربوں کی رقم خرچ کرکے انتخابی اخراجات کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ خرچ کے بعد دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں کے (%90) ذرائع ابلاغ (خاص طور پر ٹی وی چینلز) نے بی جے پی بلکہ مودی کی خاطر خود کو فروخت کرکے اپنی ساکھ اپنا وقار اور اعتبار کھودیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ انتخاب ملک و قوم کی بہتری کے موضوعات، ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں پر نہیں لڑا گیا بلکہ صرف ایک بدنام زمانہ فرد مودی کو وزیر اعظم بنانے یا اس کو روکنے کی خاطر لڑا گیا۔ گوکہ اسے فرقہ پرستوں اور سیکولرازم کی معرکہ آرائی کہا جاتا رہا ہے لیکن یہ دراصل فرقہ پرستوں اور خود کو سیکولر کہنے والوں کے درمیان اقتدار کی جنگ تھی۔ اس الیکشن میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی غیر معیاری اور غیر جانبدارانہ اور انتہائی مشکوک رہی ہے۔
حکومت نے انتخابات کے انعقاد پر اس بار جملہ (3426) کروڑ روپے خرچ کئے ہیں جبکہ 2009ء میں (1483) کروڑ روپے خرچ کئے تھے گویا اس بار خرچ میں (%131) اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف بی جے پی نے انتخابی مہم پر پیسہ پانی کی طرح بہایا ہے۔ انتخابی قوانین میں ایک اہم خامی یہ ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ہر امیدوار زیادہ سے زیادہ 70 لاکھ خرچ کرسکتا ہے لیکن کسی پارٹی کے لئے خرچ کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس لئے ہر امیدوار اپنا خرچ پارٹی کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ یہی نریندر مودی کررہے ہیں۔ جنہوں نے اپنی انتخابی مہم پر کم از کم (5) پانچ ہزار کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ مودی نے اپنی مہم کے دوران (400) سے زیادہ ریلیز کی ہیں اور ہر بڑی رئیلی پر کم از کم (10تا12) کروڑ کا خرچ لازمی ہے اور چھوٹی رئیلی پر بھی (8تا10) کروڑ کا خرچ لازمی ہے۔ ریلیز کے علاوہ ٹی وی چینلز پر اشتہارات (بہ شمول اشتہاری Paid خبریں اور مذاکرات، رپورٹس (بہ شمول سروے رپورٹس) وغیرہ رضاکاروں کو دیا جانے والا معاوضہ، ہیلی کاپٹر اور خصوصی طیاروں کا خرچ، کارکنوں کا کھانا پینا اور سواری خرچ نیز پارٹی کا اپنا سیکوریٹی انتظام وغیرہ اور کئی دیگر اور متفرق اخراجات پر بھی کروڑوں بی جے پی نے خرچ کئے ہیں ۔ اس طرح بی جے پی نے ہزاروں کروڑ خرچ کئے ہیں گوکہ کانگریس نے بھی کئی ہزار کروڑ خرچ کئے ہیں لیکن بی جے پی کے اخراجات اور تمام پارٹیوں (بہ شمول کانگریس) کے جملہ خرچ میں کوئی تناسب و تقابل نہیں ہے) ان انتخابات سے ثابت ہوگیا ہے کہ انتخاب صرف اور سرف بڑے سرمایہ داری ہی لڑسکتے ہیں اب جمہوریت کی تعریف میں "عوام" کی جگہ "سرمایہ دار" رکھ کر کہنا ہوگا "سرمایہ داروں کی حکومت، سرمایہ داروں کے ذریعہ اور سرمایہ داروں کے واسطے"۔
جیسا کہ ہم نے کئی بار لکھا ہے کہ مودی کی انتخابی مہم میں جس طرح ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اپنے آپ کو مودی کے لئے وقف کردیا تھا ظاہر ہے کہ یہ غیر معمولی مودی نوازی ذرائع ابلاغ نے مفت تو نہیں کی ہوگی طباعتی (Print) میڈیا کے تو کم لیکن برقی ذرائع ابلاغ (ٹی وی چینلز) کے معروف، ممتاز اور محترم مانے جانے والے ٹی وی چینلز اور ٹی وی کے صحافیوں، میزبانوں اور ٹی وی پروگراموں کے شرکاء نے خود کو محترم سے غیر محترم کرنے کے لئے مودی کے بھونپوبن گئے خاص طور پر این ڈی ٹی وی، زی ٹی وی، آج تک، ہیڈلائنس ٹوڈے(Head Lines Today) اور سی این این آئی بی این نے بہت زیادہ مایوس کیا ۔ مودی کی تائید و تشہیر میں انہوں نے عزت و ساکھ تو دور رہی معیار کو تک عامیانہ بلکہ چھچھورا بناڈالا۔ اس سے زیادہ افسوس ناک بات تو ای ٹی وی اردو کی روش تھی۔ مالکانہ حقوق کی تبدیلی سے ای ٹی وی اردو کا نہ صرف "بندی کرن" ہوا بلکہ مودی یا بھاجپا کرن بھی ہوگیا۔ اردو کے عمائدین واکابرین کا فرض ہے کہ وہ ای ٹی وی اردو کے "ہندی کرن"پر شدید اعتراض کرنا چاہئے۔ ٹی وی چینلز کی بے شرمی کی انتہاء یہ ہے کہ آج کل نتیجوں کے اعلان سے قبل اگزٹ پول کے نتائج پر ٹی وی والوں کی تائید ہی نہیں بلکہ تعریف و تحسین کرنے والے سامنے لائے جارہے ہیں۔ اگر یہ (اللہ نہ کرے) صحیح بھی ثابت ہوں تو چینلز کے اندازوں کے بارے میں اپنے منہ مٹھو بن جانا بھی ناشائستہ رویہ ہے مختصر یہ کہ مودی کی دولت نے ذرائع ابلاغ کی عزت اور وقار تباہ کردیا!۔ ٹی وی چینلز کو اپنی عزت بحال کرنے میں اب خاصہ وقت لگے گا۔
ہماری طرح 1957ء اور 1962ء میں ہوئے انتخابات دیکھنے والے (بھلے ہی ووٹ نہ دیا ہو) آج بھی بہت ہیں۔ اسی طرح اندرا گاندھی کے انتخابات بھی ہم نے دیکھے ہیں لیکن کسی الیکشن بھی نہرو اور اندرا کا چرچا کانگریس سے زیادہ نہ تھا اور تو اور 2004ء میں مودی سے بہت زیادہ مشہور و مقبول اور مودی سے سینکڑوں گنا زیادہ محترم واجپائی کے نام کے بھی اتنے ڈنکے نہیں بجے ہوں گے۔ جتنے ڈنگے مودی کے بجائے گئے۔ لگتا تھا کہ انتخابات کا جھمیلا جمہوریت کی خاطر نہیں صرف اور صڑف مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے ہورہا ہے۔ بی جے پی بحیثیت پارٹی، آر ایس ایس کا "نظریہ ہندوتوا" اور بی جے پی کا منشور سب پس پردہ چلے گئے تھے اور مودی کا ذکر سنتے سنتے اور اس کی تصویر دیکھ دیکھ کر مودی کے چاہنے والے بھی بیزار اور تنگ آگئے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کا منشور بھی رائے دہی شروع ہونے کے بعد جاری کیا گیا۔ اس الیکشن میں عوامی مسائل، پارٹی کا پروگرام اور منصوبے کا چرچا بہت ہوا۔ بی جے پی کے بھونپو "اب کی بار مودی سرکار" چلاتے رہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ کیوں اور کس لئے مودی سرکار؟ ان سے کسی نے باضابطہ پوچھا تک نہیں گیا۔ مودی کو انٹرویو دینے سے الرجک تھے (صرف انتخابی مہم کے آخری دنوں میں مودی اور میڈیا میں ان کے غلاموں نے انٹرویو کا ڈرامہ ضرور رچایا اور یہ انٹرویو بھی ایسے تھے کہ انٹرویو کرنے والے صحافیوں کو یہ بالکل اجازت نہ تھی کہ وہ کوئی ایسا سوال جس کی مودی نے اجازت نہ دی ہو انڈیا ٹی وی کے نقوی صاحب نے رجت شرما کو ایسا ہی Fixed فکسڈ انٹرویو مودی سے لینے پر مستعفی ہونا بہتر سمجھا۔
انٹرویو کا فکسڈ ہونا انٹرویو کی ہی نہیں بلکہ انٹرویو لینے والے صحافی اورصحافت کی توہین ہے ہم نے بھی اہم و غیر اہم بااخلاق اور خردماغ و مغرور لوگوں کے انٹرویو لئے ہیں کئی اصحاب بعض سوالات کا جواب دینا فرض نہیں سمجھتے ہیں لیکن ایسا ہمارے ساتھ کیا کسی صحافی کے ساتھ نہیں ہوا کہ کسی صحافی کو کوئی سوال کرنے اجازت انٹریو دینے والے سے صرف وہی پوچھا جائے جو مودی چاہتے ہوں بلکہ گجرات 2002ء کے فساد کا ذکر ہی نہ کیا جائے۔ مودی کی تمام انتخابی تقاریر کا موضوع سخن کانگریس ، راہول و سونیا گاندھی کی برائیاں رہا تھا۔ مودی یا بی جے پی نے اپنا پروگرام پیش نہیں کیا ملک کو درپیش مسائل کے حل کا طریقہ کار پیش نہیں کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنا منشور بے حدتاخیر سے پیش کیا رائے دہی کے پہلے دن جاری کیا گویا مودی کی تقاریر ہی بی جے پی کا منشور تھیں اور مودی صرف اس گجرات ماڈل کا راگ الاپتے رہے جو درحقیقت ویسا ہے ہی نہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اس گجرات ماحول کے حقائق کو کجریوال نے ظاہر کئے تھے۔
عام طور پر ہر انتخاب میں الیکشن کمیشن کا رویہ بے حد غیر جانبدارانہ اور صاف و شفاف ہوتا ہے لیکن 2014ء میں الیکشن کمیشن کا رویہ زیادہ تر مودی اور بھاجپا کے حق میں رہا۔ حد تو یہ ہے کہ ٹی وی چینلز کے ذریعہ الیکشن کمیشن کے ضوابط اخلاق کی دھجیاں اڑائی گئیں اور الیکشن کمیشن اسی طرح خاموش رہا جس طرح فسادیو ں کے ہاتھوں مسلمانوں کی قتل و غارت گری کے موقع پر ہماری پولیس خاموش رہتی ہے۔ عمران مسعود اور اعظم خان کے معاملات میں الیکشن کمیشن کا رویہ بے حد سخت ہی نہیں بلکہ جانبدارانہ تھا اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں بڑی ہی مستعدی بتائی گئی حالانکہ عمران مسعود کا معاملہ انتخابی ضابطہ اخلاق سے نفاذ سے قبل کا تھا اور یو پی کی دیہاتی بولی کی وجہ سے عمران مسعود کی بات بظاہر جارحانہ نظر آتی تھی اس کے برخلاف عمران مسعود کے جواب میں وزیر اعلیٰ راجستھان وسندھرا راجے سندھیا کا بیان تو حد درجہ جارحانہ تھا بلکہ انہوں نے عمران مسعود کے جواب میں علانیہ دھمکی دی تھی کہ الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد معلوم ہوگا کون کس کے ٹکرے کرتا ہے؟ اسی طرح بھاؤنگر (گجرات) میں توگاڑیا کا بیان پر بھی الیکشن کمیشن کی بے عملی اور خاموشی حیرت انگیز ہے۔ ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے باوجود اور بدلہ لینے کی اشتعال انگیز تقریر پر تو امید شاہ کو یو پی سے ہی "ناپسندیدہ " قرار دے کر نکال باہر کرنا چاہئے تھا لیکن معافی مانگنے پر ان کو معاف کرکے اعظم گڑھ کے علمی و ادبی شہر کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینے کے بیان کے باوجود خاموشی جانبداری اور نا انصافی کی بدترین مثال ہے۔ واراناسی میں مودی کو ریالی کی اجازت نہ دینے والے اعلیٰ افسر پر الیکشن کمشنر ایچ ایس برہما کی تنقید سے ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن کے کمشنر ایچ ایس برہما کی تنقید سے ظاہر ہے کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی ذہنیت کیسی ہے؟ انتخابی تشہیر کا کام ٹی وی کے ذریعہ مودی ممنوعہ ایام میں کرتے رہے۔ بڑودہ میں کنول کا پھول یا بی جے پی کا نشان ہاتھ میں لے کر تقریر کرنے (وہ بھی ووٹ ڈالنے کے بعد پولنگ بوتھ کے قریب) یا فیض آباد میں رام مندر اور لارڈ رام چندر کی تصاویر اور ماڈل کو اسٹیج پر سجاکر مودی کی تقریر پر الیکشن کمیشن کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن کو قواعد ضوابط سے زیادہ آر ایس ایس کے احکام یا ہدایات کی پابندی کی فکر تھی۔ الیکشن کمیشن کی نااہلی اسی سے ظاہر ہے کہ انتخابی عمل بے حد طویل رکھا گیا اور لاکھوں حقیقی ووٹرس ووٹ دینے سے محروم رہے اور 13 سو زیادہ جرائم میں ملوث افراد کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی۔ پولنگ بوتھس پر الیکشن کمیشن کے کارکنوں کو اکثر جگہ بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ ای وی ایم EVM مشینوں کی بھاری تعداد میں خرابی سے شبہ ہوتا ہے کہ ان مشینوں کا ناجائز استعمال ممکن ہے ۔ الیکشن کمیشن کے رویہ کے سبب یہ شبہات مزید تقویت پاتے ہیں۔
یہ تھا 2014ء کے انتخابات کا مختصر احوال جس کے نتائج کا علم آپ کو ہوچکا ہے۔ الیکشن کے نظام کی کئی خرابیاں فوری اصلاح کی محتاج ہیں۔ خاص طور پر ای وی ایم مشینوں کا استعمال اور الیکشن کمیشن کو مزید غیر جانبدار اور فعال بنانا بھی ضروری ہے۔

***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 09949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028

A few negative aspects of the 2014 elections. Article: Rasheed Ansari

1 تبصرہ:

  1. اس مضمون مین انتخابات، الیکشن کمیشن اور مودی کو زیر بحث لایا گیا،
    ایک مضمون ضروری ہے جس میں مسلم ووٹر کو پتہ چلے کہ اسکو ووٹ دینا ہے تو کن باتوں کے مد نظر ووٹ دے،
    ہر جگہ کے ووٹر اور ویان کی پارٹیوں کے تناظر مین

    جواب دیںحذف کریں