کجریوال اینڈ کمپنی کا حشر ٹریڈ یونینوں کی مانند نہ ہو جائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-04

کجریوال اینڈ کمپنی کا حشر ٹریڈ یونینوں کی مانند نہ ہو جائے

عام آدمی پارٹی (آپ) کی پیدائش کو زیادہ عرصہ نہیں بیتا ہے۔ دو ڈھائی سال کی عمر ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں اس پارٹی اور کیجریوال اینڈ کمپنی کا ابھر کر آنا یقیناً ملک کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ عام آدمی کی امید اور توانا آواز بننا نیز بدعنوانیوں کے خلاف برسرِ پیکار ہونے کا عزم لے کر آگے بڑھنے کا عمل دلوں کو کھینچتا رہا ہے، لوگوں کو ایک نئی تحریک سے جوڑتا رہا ہے۔ اس تحریک کے ہمنوا پورے ملک کے گلیاروں سے اٹھے اور جڑنے لگے۔ سیاسی بہار کے جھونکوں سے طبیعت میں ایک سرور جاگنے لگا۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں ’آپ‘ کو جیسی تاریخ ساز کامیابی ملی کانگریس کو ویسی ہی عبرتناک شکست سے سابقہ پڑا۔ لیکن آپ پارٹی تاریخ بنانے سے قبل ہی ضد کی سیاست کا نقصان اٹھا گئی تو کانگریس نے ’’گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا والی موٹی چمڑی کا اظہار کیا۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ٹھاک ہی تھا، یا کہا جائے کہ ٹھیک تھا، مگر پارلیمانی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے صحیح ہوم ورک کے بغیر میدان میں قدم رکھا۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ ہزیمت سے دوچار ہوتی جارہی ہے۔ وجہ؟ ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ آپ پارٹی کی نامکمل ساخت ہی اصل میں اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے جس پر ہم کچھ اور متعلقہ باتیں کرنے کے بعد لکھیں گے۔
ان وجوہات کے پس منظر سے ہمیں وہ فلیش بیک اٹھتا نظر آیا جو ستّر اور اسّی کی دہائی میں ممبئی اور مہاراشٹر میں ٹریڈ یونینوں کا خاصہ تھا۔ مگر اس کا انجام دردناک اور عبرت انگیز ہوا۔ آج ٹریڈ یونین لیڈروں کا نام لیوا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر کیا آپ کو جارج فرنانڈیس، شردجوشی اور ڈاکٹر دتّاسامنت (وغیرہ) یاد آرہے ہیں؟ شیوسینا کی کامگار سینا اور اسی کی مانند دوسری لیبر پارٹیاں یاد ہیں؟ ہم یہاں دونوں اَدوار کا موازنہ کرنا چاہتےہیں۔
آئیے ماضی کے سفاک ہاتھوں سے کچھ مناظر چھین کر دیکھیں۔ اَنپڑھ یا کم پڑھے لکھے مل مزدوروں کے ساتھ ہی ممبئی کی دوسری عوامی سروسیس یعنی شہر کی شہ رگ میں ان ٹریڈیونینوں نے بھونچال اور جذبۂ بغاوت اِنجیکٹ کر رکھا تھا۔ ہر جگہ اذیت خیز ہڑتالوں اور متشدّد بند کے مظاہروں کے ساتھ ہی ساتھ ’زندہ باد اور مردہ باد‘ کے نعروں کی گونج تھی، کئی طرح کے اور کئی رنگوں اور ڈیزائنوں کے پرچم عروس البلاد کے آنچل میں پھولوں کی جگہ ٹنکے رہتے تھے۔ مل مزدوروں اور کارپوریٹ آفسوں میں کام کرنے والے افراد کے چہروں پر صبح سے ہی فکر کا سورج طلوع ہوجاتا تھا جو رات کو بھی غروب نہیں ہوتا تھا اور یہ مظلوم مزدور قوم اپنے ناہنجار قائدین کی حرکتوں کی وجہ سے نشوں کی آغوش میں راتیں بسر کرنے پر مجبور ہوجاتی تھی۔ گھروں میں فاقے ہونے لگے تھے۔ سال بہ سال گذرتے ایام کے ساتھ ان مزدوروں کی اولاد بڑی ہونے لگی۔ ان کی تعلیم اور مستقبل داؤ پرتھے۔ ان کے مشتعل جذبات کا بروقت استحصال کرنے میں شیوسینا نے بازی ماری اور منترالیہ پر بھگوا لہرنے میں کامیاب بھی ہوئی۔ لیکن ان ٹریڈ یونینوں نے مزدوروں کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ان کے تمام ذرائع آمدنی یکسر بند ہی نہیں ہوئے ارضِ ممبئی سے تقریباً رخصت ہی ہوگئے۔ کیونکہ ان لیڈروں کے پاس مزدوروں کو مالکان کے ساتھ صرف لڑنے کی ترغیب اور تحریک دینے کے علاوہ کوئی دوسرا پروگرام نہیں تھا۔ کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ شب کے اندھیروں میں ان کی سودے بازیوں کے بھی مشہور اور غیرمعروف قصے کہے اور سنے جاتے تھے۔پوری ایک جنریشن اس عرصہ میں کھپ گئی۔ انجام کار کارپوریٹ سیکٹر فاتح رہا۔ مسجد سے اٹھنے والی اذانوں کی طرح مقررہ وقت پر کپڑا ملوں سے اٹھنے والے ڈیوٹی آورس کے سائرن ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ ان کپڑاملوں کی جگہ فلک بوس عمارتیں اور کاروباری شعبوں کے دفاتر ابھر آئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے کہ سفر کا مقصد اور سمت متعین نہیں کیے گئے تھے۔ ٹریڈ یونین کے لیڈر بھی غائب ہوگئے اور مزدور بھی۔ کارپوریٹ سیکٹر نے ٹیکنالوجی کے تمام جدید آلات اور اسلحوں کے ساتھ چالاکی سے ان کا مقابلہ کیا اور وہ کامیاب بھی ہوئے اور پھلے پھولے بھی۔ یہ ایک طویل اور پُرآشوب دور کی انتہائی مختصر داستانِ درد ہے۔ محض اشاریہ ہے۔ لیکن، حالیہ پارلیمانی انتخاب میں آپ پارٹی کا رول دیکھنے کے بعد یاد آگئی۔کیسے؟ کیا مماثلت ہے؟
اوپر ہم نے تحریر کیا ہے کہ آپ پارٹی کی نامکمل ساخت اس کی کمزوری ہے۔ اس میں سرِ دست تنظیم نام کی چیز موجود نہیں ہے۔ عام آدمی پریشان رہتا ہے کہ کسی معاملہ میں وہ بات کرے تو کس سے کرے اور ملاقات کرے تو کس سے کرے۔ کوئی صدر ہے نہ سکریٹری نہ کوئی مستقل پبلک ریلیشن آفیسر۔ ریاستی اور مقامی شاخوں کا حال اور بھی برا ہے۔ اور اس نے پورے ملک میں چار سو سے زیادہ سیٹوں سے انتخاب لڑنے کا منصوبہ بنا لیا۔ امیدواروں کی نامزدگی سے ان کے حلقۂ انتخاب میں ہی لوگ مطمئن نہیں رہے۔ یا تو امیدوار غیرمعروف ہیں یا پھر عوام میں غیرآمیز۔ آپ پارٹی کے اراکین کی شمولیت میں بھی بی جے پی اور کانگریس کے اراکین کی جگہ جگہ گھس پیٹھ بتلائی گئی۔ اور ان کی سازشانہ دیدہ دلیری یہ کہ وہ آپ پارٹی کے امیدوار کے ساتھ روڈشو اور کارنر میٹنگوں میں ایسے علاقوں میں شرکت کرتے ہیں جو عموماً مسلم اکثریت والے ہوتے ہیں، پھر وہاں کانگریس یا بی جے پی سے اپنی علٰیحدگی کے حوالے سے (ووٹوں کے بٹوارے کو آسان کرنے کے لیے) بی جے پی اور کانگریس دونوں کی برائی کرتے ہیں۔
ہر علاقے کا امیدوار اس بات کی خواہش بھی رکھتا تھا کہ اروند کیجریوال اس کے حلقے میں انتخابی جلسہ لیں۔ لیکن یہ بات اروند کے لیے ممکن نہیں ہوسکی۔ کیونکہ انھیں دیگر پارٹیوں کے لیڈران کی ہیلی کاپٹر سے پرواز پر اعتراض تھا۔ اتنے بڑے ملک میں کم وقت میں عوامی جلسوں میں جگہ جگہ شرکت اس وقت ہوائی سفر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اروند کیجریوال کی عدم شرکت کی وجہ سے ان امیدواروں کی انتخابی مہم کمزور رہی۔ حالانکہ اس بات کو یوں بھی کم خرچ بالانشیں بنایا جا سکتا تھا کہ دہلی میں پارٹی آفس سے ٹیلی کیمپیننگ کا اہتمام کرکے ریلے اور کلوزسرکٹ ٹیلیویژن اسکرین کی مدد لے کر علاقائی مسائل پر تقریری گفتگو اور انٹرایکشن کیا جاتا۔ تو یہ مسئلہ بہت حد تک حل ہوجاتا۔ اور ہلدی و پھٹکری کے بغیر رنگ چوکھا ہوجاتا۔ لیکن افسوس آپ پارٹی کے مشیران نے یہ بھی نہیں کیا۔
ایک اور بات کہ دیگر تمام پارٹیاں بالعموم اور بی جے پی بالخصوص میڈیا کے جدید ترین اسلحوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں مگر آپ پارٹی غریب مزدوروں (عام ہندوستانی پڑھیے) کی پارٹی والارویہ اختیار کر کے چلانے کی روش پر چل رہی ہے۔جس میں صرف ایک ہی کھیون ہار ہوتا ہے۔پتوار کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دی جاتی۔ جبکہ سیاسی کشتی ایسی کشتی ہوتی ہے جس میں کئی پتوار دھاری ہوتے ہیں اور سب ایک ساتھ ایک ہی سمت میں قوت لگاتے ہیں تو کشتی کو راستے میں ملنے والے کسی چھوٹے اور بڑے بھنور کا بھی کوئی خطرہ نہیں رہ جاتا۔ اروند کیجریوال نے عام آدمی کو بدعنوانیوں کے خلاف لڑنے اور اپنا حق چھیننے پر اکسیا تو ضرور ہے لیکن ٹریڈ یونین لیڈروں کی مانند انھیں کسی بھی نتیجہ خیز لائحۂ عمل یعنی اسٹریٹجی سے لاعلم رکھا ہے۔ نعرے لگائے جارہے ہیں، ترانے گائے جارہے ہیں، ٹوپیاں پہنی اور پہنائی جارہی ہیں، وعدے کیے جارہے ہیں لیکن پورے ملک کے عوام سے کسی وسیع تر رابطے کی کوئی سبیل نہیں نکالی گئی ہے۔ آپ پالیسی اور اصول تبدیل کر سکتے ہیں لیکن کسی تسلیم شدہ تنظیمی ڈھانچہ یا سانچہ کو تو اختیار کرنا ہی پڑے گا۔ سیاسی پارٹی کا تصور بغیر کسی صدر اور دیگر عہدیداران کے کیا عوام میں قابلِ قبول ہوسکتا ہے؟ اب بھی وقت باقی ہے کہ کیجریوال اینڈ کمپنی پارٹی میں عہدوں کی تشکیل کریں۔ یہ وسیع تر عوامی رابطے اور پارٹی کے تنظیمی کاموں میں جوابدہی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اگر ایسا کیا گیا تو پارلیمانی انتخاب میں کمزور کارکردگی کے باوجود ریاستی اسمبلی انتخابات میں یہ ثمرآور ہوگا۔ ہم سب ’آپ‘ کی جانب انتہائی پُرامید نظروں سے دیکھتے ہیں کہ ملکِ عزیز کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ عوام کی ایک بیدار جماعت ابھری ہےجسے زندہ رہنا اور پھلنا پھولنا چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ تجربہ ناکام ہوگیا تو ملک میں صاف ستھری شبیہ کے لوگوں کا سیاست میں داخلہ ایک مرتبہ پھر بند ہو جائے گا۔

***
drrehan.ansari[@]gmail.com
بھیونڈی (مہارشٹرا)۔
ڈاکٹر ریحان انصاری

The fate similarity of AAP & trade unions. Article: Dr. Rehan Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں